Tarjuman-e-Mashriq

اقبالؒ اور عہد حاضر

تحریر: لیفٹینٹ کرنل(ر) محمد ایوب

                  اقبالؒ ڈے پر تقریروں کا سلسلہ جاری تھا۔ نامور شاعر، ادیب، ماہرین اقبالیات کے علاوہ علم و ادب کے ماہرین اور استاد باری باری اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ اظہار خیال کرنے والوں میں خواتین بھی تھیں اور مرد بھی تھے اور سب کے سب پچاس سال سے اوپر کی عمر کے تھے۔ سامعین اور حاضرین کی اکثریت بھی ایسے ہی لوگوں پر مشتمل تھی، جوان بہت کم اور نوجوان بلکل نہ تھے۔ ہال بھی اتنا بڑا نہ تھا مگر انتظامات اچھے تھے۔ حاضرین کی تعداد کم تھی لوگ آ اور جا رہے تھے۔ سنجیدگی ہر گز نہ تھی۔ کچھ لوگ اونگھ رہے تھے کچھ خراٹے بھی لے رہے تھے۔ ایک خاتون نے کہا یہاں چائے کا انتظام نہیں کیا گیا۔ نشت طویل ہو تو حاضرین کو فریش رکھنے کے لئے چائے کا انتظام ضروری ہے۔ خاتون کی با ت پر کسی نے توجہ نہ دی اور تھوڑی دیر بعد وہ بھی اونگھنے لگیں۔

                  پروفیسر زینت خان معاشیات کی استاد ہیں اور پروفیسر ظفر خان انگریزی پڑھاتے ہیں۔ اقبالؒ ان کے پسندیدہ شاعر ہیں  انہیں اقبالؒکے علاوہ پنجابی صوفی شعرأ کا کلام بھی پسند ہے۔ ظفر خان کو حضرت میاں محمد بخشؒ کے سینکڑوں اشعار یاد ہیں اور زینت بھلے شاہ کی دیوانی ہے۔ دونوں ہر موقع پر صوفی شعرأ کے کلام کا حوالہ دیتے ہیں اور پھر شعر بھی پڑھتے ہیں۔ چائے کا شکوہ کرنے والی خاتون جب اونگھنے لگی تو زینت نے کہا "لگی والیاں دی اکھ نی لگدی تیری کینویں اکھ لگ گئی”۔

ان کا قصور نہیں۔ محفل کا انعقاد ہی غلط ہے۔ ظفر نے کہا۔

وہ کیسے؟، زینت بولی۔

ایک تو اقبالؒ اور عہد حاضر کا کوئی تعلق نہیں۔ دوسرا یہ کہ اقبالؒ نے تو بوڑھوں اور عمر رسیدہ لوگوں کو مسترد کر دیا تھا۔ ان کی ساری اُمیدیں نوجوانوں سے وابستہ تھیں۔ اقبال ؒنے تو کہا تھا "خدایا میرے جوانوں کو میری آہ سحر دے”۔ اس کا شاہین اور نظریہ خودی تو مسترد کر دیا گیا ہے۔ تم نے حسن نثار کو نہیں سنا۔ وہ ٹیلیویژن پر بیٹھ کر ڈھڑلے سے کہتا ہے کہ اقبالؒ جیسے شاعرگلی محلے میں دستیاب ہیں۔ مگر نہ اس نے گلی بتائی اور نہ محلے کا ذکر کیا ہے۔ وہ فیصل آباد کونہیں مانتا اسے لائلپور سے پیار ہے جس نے اسے دھتکار دیا۔ محلے والوں نے کچرا باہر پھینکا تو گلی والوں نے اسے کوڑا دان میں ڈال دیا۔ کوڑے میں تو کیڑے پلتے ہیں اور کیڑے دانشور نہیں ہوتے۔ ہماری قوم کیسی بد قسمت ہے۔ ہم نے کیڑوں کو قیمتی لباس پہنا کر قائد، لیڈر، دانشور اور دانشمند تصور کر لیا ہے۔ کیڑا کوڑے کا ہو یا لکڑی کا، ریشم کا، پھلوں، سبزیوں، غذاؤں یا پھر پیٹ کا۔ کیڑے کی سرشت میں کانٹا اور سوراخ کرنا ہے۔ سوسالہ درخت ہو یا دو دن کی کونپل، کیڑا اسے کاٹ کر گرا دیتا ہے۔ زندگی کا کونسا پہلو ہے جہاں ہم نے کیڑے نہیں پال رکھے۔ ریاست یا مملکت کا نظام ہو یا فرد و معاشرہ، ہر چیز دیمک زدہ اور کرم خوردہ ہے۔

                  سب سے پہلے کیڑے مکوڑوں نے قائداعظمؒ اور اقبالؒ کو بنیادی تعلیمی نصاب سے نکال باہر کیا اور پھر اخباروں میں طویل مضامین لکھ کر نظریہ پاکستان اوراقبالؒ  کے ملی تصور پر تنقید کی۔ راہ ہموار ہوئی تو ٹیلیویژن چینلوں پر قائداعظمؒ اور اقبالؒ پر مباحث کا سلسلہ شروع ہوا اور عرصہ تک جاری رہا۔

                  جنرل پرویز مشرف کے دور میں روشن خیالی کا چرچہ ہوا تو مشاہد حسین سیّد، فردوش عاشق اعوان،عاصمہ جہانگیر، نجم سیٹھی اور ہم خیالوں نے روشن خیالی کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ سیکولر نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کا نظریہ مشرف کے نظریے سے ہم آہنگ تھا جبکہ مذہبی سیاسی جماعتوں کو بھی اس پر اعتراض نہ تھا۔ مذہبی سیاسی جماعتیں روز اوّل سے ہی قائداعظمؒ اور اقبالؒ کے نظریات سے اختلاف رکھتی تھیں اور متحدہ ہندوستان کی حامی تھیں۔

                  انہیں ہر دور میں ایسے کیڑوں کی ضرورت رہی ہے جو پاکستان کی جڑہیں کھوکھلی کرنے اور اس کے کھیت کھلیانوں کو تباہ کرنے میں معاون ثابت ہوں۔ یہی حال قوم پرست جتھوں، تنظیموں اور علاقائی سیاسی پارٹیوں کا ہے۔ اچکزئی تو اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ میں اس وقت تک پاکستان زندہ باد نہیں کہونگا جب تک پختونوں کے حقوق بحال نہیں ہوتے۔ یہی نعرہ اے این پی کا ہے اور مولانا فضل الرحمن کو اپنے جثے سے دگنا حصہ ملے تو جمہوریت اچھی ورنہ نئے انتخاب اور نئی اسمبلی اور وہ بھی حسب خواہش۔

دیکھا جائے تو ہر سیاسی جماعت،پریشر گروپ، تنظیم اور جھتے نے حسب ضرورت کیڑے پال رکھے ہیں جنہیں وہ اپنے مفاد اور خواہش کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔

کیڑے تو کتابوں میں بھی ہوتے ہیں۔ زینت نے مسکراتے ہوئے کہا۔

محاورے والے یا اصلی۔ ظفر نے جواب دیا۔

دونوں بیکار ہوتے ہیں ظفر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ محاورے والا کتابی کیڑا رٹا باز اور محدود علمی دائرے کا مقید ہوتا ہے۔ ایسا علم نوکری کے حصول کے لئے تو کارآمد ہو سکتا ہے مگر علم کی وسعت کا باعث نہیں بنتا۔ انبیأ اور اولیائے حق کا علم ہی کامل، کردار ساز اور منفعت بخش ہوتا ہے اسے مخصوص خانوں میں نہیں رکھا جاسکتا۔ اس سے مخلوق مستفیض ہوتی ہے اور ساری کائنات اس کے نور سے روشن ہوتی ہے۔ ایسے علم کی علت نور اَحد ہے۔ اسی نور سے درجہ بدرجہ نور کے سمندر،دریا، نہریں اور چشمے پھوٹے اور کائنات کا ذرہ ذرہ روشن ہوگیا۔

اقبالؒ کا پیغام "بانگ درا” بھی یہی ہے۔ انسان کا دل و دماغ اندھیروں سے بھر جائے تو وہ سست، کاہل، بیمار اور بیکار ہو کر ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جس کی کوئی پہچان ہی نہیں ہوتی۔ اس کی خود داری، خود اعتمادی اور حس آزادی از خود ختم ہوجاتی ہے اوروہ غفلت کی نیند سو جاتا ہے۔ قدرت کا قانون عمل پیرا ہو کر صورت "بانگ درا” ایسے فرد اور معاشرے کو جھنجوڑنے کا باعث بنتا ہے اور خوابیدہ اقوام کو جگا کر انہیں اپنی ہستی کو پہچاننے کا حوصلہ دیتا ہے۔

اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا

ہوتا ہے جادا پیما پھر کارواں ہمارا

                  اقبالؒ کا ترانہ تو بانگ درا ہے مگر کارواں ابھی تک بھٹکا ہوا ہے۔ جادہ مستقیم اور جادہ اطاعت سے کوسوں دور کیڑے مکڑوں کی دنیا میں رہ کر خوش ہے۔ اقبالؒ کا نور بصیرت تو ہم نے عام ہونے ہی نہیں دیا۔ ہم نے اقبالؒ  کے شاہین بچوں کے بال و پر کاٹ کر انہیں مارکس، میکاولی اور کوتیلیہ پڑھانا شروع کر دیا۔ خواص نے اقبالؒ کا پیغام عوام تک پہنچنے ہی نہیں دیا۔ اگر اقبالؒ  کا پیغام بنگالی بچوں تک پہنچ جاتا تو کبھی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا۔ ہمارے اہل علم و قلم نے گور کی، ٹالسٹائی،شیکسپئیر، گاندھی، نہرو، اندرا گاندھی سے لے کر گرورجنیش کے اردو ترجمے کر ڈالے مگر اقبالؒ کا ترانہ بنگلہ بچوں کے لیے ترجمہ نہ کیا۔ اقبالؒ کا انگریزی میں ترجمہ کرنے پر زور ہے مگر سندھی، بلوچی، براہوی، پشتو، کشمیری اور بلتی کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں۔ اقبالؒ نے کہا "جرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے”  ہمارے دانشوروں اور حکمرانوں نے جرأت کو اُجرت میں بدل دیا اور فضا میں کرپشن کی وبأ پھیلا دی۔

دیکھا جائے تو جس موضوع پر تقریریں ہو رہی ہیں یہ موضوع ہی غلط ہے۔ اقبالؒ کسی مخصوص عہد کا نہیں بلکہ ہر عہد کی نمائندگی کرتا ہے۔

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے

آساں نہیں مٹانا نام و نشان ہمارا

یہ امانت کیا ہے اور کب سے ہمارے سینوں میںپوشیدہ ہے۔ کسی ماہر اقبالیات و نفسیات نے اسے تلاش ہی نہیں کیا۔

پیر گردوں نے کہا سن کے، کہیں ہے کوئی

بولے سیارے، سر عرش بریں ہے کوئی

چاند کہتا تھا، نہیں اہل زمیں ہے کوئی

کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی

کچھ جو سمجھا میرے شکوے کو رضوان سمجھا

مجھے جنت سے نکالا ہوا انسان سمجھا

یہ بھی تو بعد کی بات ہے۔ جب جنت نہیں تھی تب بھی توحید کی امانت کے لئے میرا سینہ تھا۔ تب کوئی زمانہ بھی نہ تھا۔ کائنات ہی نہ تھی تو زمانہ کہاں ہوتا مگر وہ خود موجود تھا اور اس کا سفینہ پانی پر تھا اور میں بھی تھا۔

تم کہاں تھے؟

زینت نے ظفر سے پوچھا۔

میں وہیں تھا جہاں وہ تھا جو وجہ تخلیق کائنات بنا، وہ سالار کارواں، میر حجازؐاور صاحب قرآن۔

نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر

وہی قرآں، وہی فرقان، وہی یٰسین، وہی طہٰ

تب نور احمدﷺ نور اَحد میں پنہاں تھا اور نور احمدﷺ میں ساری کائنات پنہاں تھی، قرآن لوح محفوظ پر لکھ دیا گیا تھا اور "کن”کا حکم جاری ہوگیا تھا۔ پھر چھ دن میں ساری کائنات بن گئی۔ نور اَحد سے نور احمدﷺ خلق ہوا اور نور احمدﷺ سے مخلوق بنتی گئی۔

فرمایا!  یا نبیﷺ کہہ دو منکروں سے کہ تمہارا ربّ وہ ہے جس نے بنائی زمین دو دن میں۔ پھر اس پر بھاری پتھر پہاڑوں کی صورت میں رکھے تاکہ زمین متوازن رہے۔ زمین پر برکت نازل کی اور اس کے پیٹ میں تمہارے لیے خوراکیں رکھیں اور سب کام چار دنوں میں پورا کیا۔

پھر متوجہ ہوا آسمان کی طرف جو دھویں کی شکل میں تھا۔ پھر حکم دیا زمین اور آسمان کو کہ خوشی سے آؤ یا پھر زور سے حکم جاری کیا جائے۔ بولے ہم آتے ہیں خوشی سے۔ پھر اوپر نیچے انہیں سات آسمانوں کی صورت میں دو دن میں تیار کر دیا اور ان میں اپنا حکم جاری کیا۔ پھر توجہ کی اے میرے پیارے رسولﷺ تیرے ربّ نے نچلے آسمان کی طرف اور اسے چراغوں سے رونق دی اور انہیں محفوظ کر دیا۔ تیرا ربّ زبردست اور خبردار ہے۔( السجدہ)

 پھر فرمایا مہینوں کی گنتی میں اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اور یہ شمار تب سے ہے جب اللہ نے اپنے حکم سے زمین و آسمان بنائے۔ ان مہینوں میں چار مہینے برکت، ادب و احترام کے ہیں اور یہی سیدھا دین ہے۔

سورہ نمل میں چاند، سورج، ستاروں، زمینی پیداوار، دریاؤں، سمندروں اور الانعام میں بارشوں، ہواؤں اور پرندوں کا ذکر کیا۔ فرمایا میں جانتا ہوں کہ جنگلوں اور سمندروں کی تہہ میں کیا ہے۔ یہ سب میری نعمتیں اور انعام ہیں تاکہ تم ان سے فائدہ اٹھاؤ اور میرے شکر گزار بن جاؤ۔ کہا یاد رکھو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ یہ کائنات میری ہے۔ میں نے تخلیق کی ہے اور میرا ہی اس پر حکم چلتا ہے۔ میرے حکم کے بغیر کوئی پتہ نہیں جھڑتا۔ کوئی چیز اعلیٰ و ادنیٰ ایسی نہیں جو لوح محفوظ پر نہ لکھی ہو۔ ہر چیز، ہر ذرہ اور ہر نقطہ میرے شمار میں ہے۔ زمین کی اندھیری تہہ میں اترنے والا ہر دانہ، ہر ہری اور سوکھی چیز ایسی نہیں جو کتاب مبین میں درج نہ ہو۔

پھر چوپائیوں اور حلال و حرام کا ذکر کیا۔ انفرادی، معاشرتی، سیاسی، معاشی زندگی کے طریقے بتلائے اور ریاست کے خدوخال بیان کیئے۔ الشوریٰ، الزخرف اور یونس میں اپنے احسانات اور انسانی خو کے ذکر کے بعد مجلس شوریٰ، تقلید، حسب و نسب اور حکومت و تکبر کا ذکر کیا۔

اقبالؒ کے نام عطیہ نے خط میں لکھا کہ تم جیسے لوگ ہر دور میں پیدا ہوتے ہیں جو لوگوں کو وہ یاد دلاتے ہیں جو وہ بوجہ یا جان کر بھول جاتے ہیں۔ جو ان کے مزاج کو اچھا نہیں لگتا اسے طاقت کے زور پر دبا دیتے ہیں۔ حکومتیں فرعون کی طرح متکبر ہوجاتی ہیں اور طاقتور لوگ فطرت کے قانون کو پس پشت ڈال کر اپنے فائدے کے قوانین لاگو کرتے ہیں اور انہیں عوام کی فلاح و اصلاح کا نام دے کر دھوکہ دہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

                  یاد دہانی کے لئے ربّ نے الہامی کتابیں اتاریں اور پیغمبروں، نبیوں اور رسولوں نے لوگوں تک اللہ کا سچا، واضع، کھلا اور حکمت والا پیغام پہنچایا۔ پھر ان علوم کا مجموعہ قرآن کریم کی صورت میں اپنے سب سے پسندیدہ بندے کے ذریعے ساری مخلوق کی رہنمائی کے لئے نافذ کیا۔ اب قیامت تک نہ کوئی نبی آئے گا نہ حکم صادر ہوگا۔ جب لوگ بھول جائیں گے، راستے سے ہٹ جائیں گے، ذلت و رسوائی کے دلدل میں پھنس جائیں گے تو عام لوگوں میں سے کچھ لوگ یاد دہانی کے لئے آگے آئیں گے جنہیں نبیوں اور ولیوں کی طرح مشکلات پیش آئیںگی۔ لوگ ان سے اختلاف کریں گے اور ان کے مشن کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈال کر مخلوق کو صراط مستقیم سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

آخر میں لکھا کہ تم بھی ان لوگوں میں سے ہو جنکا کام یاد دہانی کروانا ہے۔ تم اپنا کام کرتے جاؤ اور قدرت اپنے فیصلوں پر گامزن ہے۔ اگر ملت اسلامیہ جادہ مستقیم اور جادہ اطاعت پر آگئی تو یہ اس کی خوش نصیبی ہوگی۔ نہ آئی توٹکڑوں میں بٹ کر مفلسی اور غلامی کے اندھیروں میں چلی جائے گی۔

اقبالؒ نے اپنے خطبات ، اشعار اور پیغامات کے ذریعے نہ صرف مسلمانان ہند کو بیداری کا پیغام دیا بلکہ ساری ملت اسلامیہ کو اتحاد، اتفاق اور رواداری کا پیغام دیا۔

اقبالؒ کا پیغام آفاقی اور دائمی ہے مگر اب یاد دہانی والا کوئی نہیں۔

اقبالؒ کی تعلیمات کا محور فکر، علم اور عمل ہے مگر ہم نے بحیثیت قوم اس نظریے کو ہی رد کر دیا۔

اقبالؒ کی شاعری در حقیقت فکر، علم اور عمل کا پیغام ہے۔ قائداعظمؒ کے نام اپنے خطوط میں بار بار ذکر کیا کہ جب تک مسلمان اقتصادی طورپر آزاد نہیں ہونگے وہ انفرادی، اجتماعی اور سیاسی آزادی سے بھرپور فائدہ حاصل کرنے سے معذور رہینگے۔

اقبالؒ لکھتے ہیں کہ مفلسی، جاہلیت اور تنگدستی غلامی کا دوسرا نام ہے۔ جاہل، مفلس اور تنگ دست انسان، معاشرہ اور ریاست آزادی کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔ ہندوستان کے مسلمان ایک طویل عرصے سے ہندو سیٹھوں ساہوکاروں اور بڑے جاگیرداوں کے علاوہ انگریز کی غلامی میں رہ کر اپنا تشخص کھو بیٹھے ہیں۔ انہیں معاشرتی اور سیاسی آزادی کی طرح معاشی اور اقتصادی آزادی بھی درکار ہے ورنہ محض لفظ آزادی سے انسان کا پیٹ نہیں بھرتا اور نہ ہی وہ خوداری کی زندگی جی سکتا ہے۔ معاشی آزادی کے لئے ضروری ہے کہ اسے ایک آزاد سیاسی اور معاشرتی ماحول میں معاشی خود مختاری سے بہرہ ور کیا جائے تاکہ وہ اپنی مرضی سے ایسے پیشے کا چناؤ کر سکے جو اس کی کفالت، ترقی اور خوشحالی کا باعث ہو۔

ٍٍاقبالؒ لکھتے ہیں کہ علم کے بغیر ترقی اور خوشحالی کا حصول ممکن نہیں اور نہ ہی بنیادی فکری سوچ کی عدم موجودگی میں انسانی ذہن میں کسی قسم کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ تحریک اور فکر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور یہی خودی کی بنیادی جز ہے۔ ایک خود دار، خود مختار انسان ہی مثبت سوچ و فکر سے لیس ہو کر اپنے نصب العین کے حصول کی کوشش کرتا ہے اور یہی علم و عمل اسے مخلوق ارض و سمأ میں منفرد اور معزز مقام پر فائز کرتا ہے۔

آزادی کے بنیادی اجزأ میں فکر، علم اور عمل شامل ہیں۔ فکر کے بغیر علم اور علم کے بغیر عمل بے معنی ہو کر اپنی افادیت کھو دیا ہے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

فرمان رسولﷺ ہے کہ علم حاصل کرو چاہے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ ہم یہ خوبصورت حدیث مبارکہ ہر تحریر و تقریر میں لاکھوں بار دھراتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ اقبالؒ نے بھی نبی رحمتؐﷺکے اس پیغام کی تقلید میں مغربی علوم سے فیض حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ جدید تعلیم کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ نئے اور فائدہ مند علوم سیکھ کر انسان دین کے دائرے سے ہی خارج ہوجائے۔ جدید علوم کے حصول کا مقصد معاشی و اقتصادی ترقی حاصل کرنا اور انسانی معاشرے میں عزت وآزادی کی زندگی جینا ہے۔ اس کا مقصد عیش و عشرت، بے راہ روی اور دین سے دوری نہیں۔

جوہر میں ہو لا اِلہ تو کیا خوف

تعلیم ہو گر فرنگیانہ

یہی وجہ ہے کہ اقبالؒ  نے علم و عمل کی بنیاد عین الٰہی حکم اور فرمان رسولﷺ کے مطابق خود داری اور خود شناسی پر رکھی۔ فرمان رسول ﷺہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا گویا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ چونکہ ربّ روح رحمانی کی شکل میں انسان کے اندر موجود ہے جس کی بنیاد پر ربّ نے انسان میں اپنے اوصاف کا جوہر مستقلاً محفوظ کر رکھا ہے۔ یہی جوہر لا الہ ہی خودی اور خود شناسی ہے اور اسی کی بنا پر انسان اشرف المخلوقات ہے۔ یہ جوہر جس کا مقام جسم خاکی ہے کی الگ فطرت اور اعلیٰ مقاصد ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ انسان جوہر خالص لا الہ کے راستے سے ہٹ کر ظاہری مادی علم کو حقیقت کا نام دے اور دنیا میں عیش و عشرت اور آخرت میں جہنم کا حقدار ٹھہرے۔ اقبالؒ کے فکر، علم و عمل کا منبع ومخرن قرآن ہے۔ اقبالؒ حقیقت شناس اور حق پرست ہے۔ اقبالؒ کے نزدیک فکر کے بغیر علم قابل عمل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ایسے علم سے مخلوق کوئی فائدہ حاصل کر سکتی ہے۔

امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ لوگوں کے اعمال اور کاروبار کا انحصار تین اقسام پر ہے۔ اوّل اصول ہیں جن کے بغیر دنیا کا نظام چلانانا ممکن ہے۔ ان اصولوں میں کھیتی باڑی، کپڑے کی بنائی اور تعمیر ہے۔ جسے آسان لفظوں میں روٹی، کپڑا اور مکان کے حصول کا نام دیا گیا ہے اور اسی اصول پر معاشتی سیاسی اور ریاستی نظام کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ سیاست یعنی میل جول باہمی اتفاق و تنظیم کے بغیر روٹی، کپڑے اور مکان کے حصول بھی ناممکن ہے۔

فرمان ربیّ ہے کہ دنیا میں سب سے بہتر گھر کعبہ شریف ہے جسے بیت اللہ یعنی اللہ کا گھر کہا گیا ہے۔ یہی گھر دنیا کی سب سے پہلی تعمیر ہے جسے فرشتوں نے اپنے ربّ کے حکم سے تعمیر کیا۔دوسری بار ان ہی بنیادوں پر حضرت آدمؑ نے اسے تعمیر کیا جو طوفان نوحؑ کی وجہ سے منہدم ہوگیا۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسمعیٰل ؑ سے مل کر اسے تعمیر کیا۔ تعمیر کی اس سے بہتر کوئی سند ہو ہی نہیں سکتی۔ پہلے فرشتوں نے جن کی تعداد ایک سے زیادہ تھی، پھر آدمؑ اور اولاد آدمؑ یا پھر ان کی زوجہ حضرت حواؑنے، پھر حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسمعیٰل ؑ نے خدا کے گھر کی تعمیر کی۔

دیکھا جائے تو سبھی بنیادی اصولوں کی تحریک فکری ہے اور تکمیل علمی اور عملی ہے۔ خوراک، لباس اور رہائش کی بنیاد فکر ہے جسے ہم اشد اور بنیادی ضرورت کہتے ہیں مگر اس کے لئے علم اور عمل بھی اتنا ہی ضروری جس کے بغیر یہ ضروریات پوری نہیں ہوسکتیں۔

بنیادی اصولوں اور ضرورتوں کے لیے پیشہ ور ہنر مندوں، صنعتوں، صنعت کاروں اور ایسے کاروباری لوگوں کی ضرورت ہے جو لوہے اور دیگر دھاتوں اور قدرت کی پیدا کردہ اشیأ مثلاًلکڑی، پتھر، اینٹ، چونے اور گارے کے لئے موزوں مٹی کے علم سے بہر و رہوں۔ ہر شخص لوہار، ترکھان، پارچہ باف، جفت ساز، کسان، تاجر، صنعت کار یا دکاندار نہیں ہوسکتا۔ جوں جوں انسانی معاشرے نے ترقی کی  اور انسانی ضرورتوں میں اضافہ ہوتا گیا توں توں ضروریات زندگی پر تحقیق کا عمل جاری رہا۔ ضرورتیں آسائشوں میں بدل گئیں تو معاشرہ طبقات میں بٹ گیا۔

ضرورتوں اور آسائشوں نے انسان کو بغاوتوں اور جنگوں پر مجبور کیا تو جنگی ہتھیار اور دیگر سازوسامان بھی ضرورتوں میں شامل ہوا اور حربی صنعتوں کا بھی اجرأ ہوا۔ ہر صنعت اور ضرورت کے علم نے علوم کی ضرورت بھی طویل کردی اور گزرے وقت کے ساتھ علوم میں جدیدیت اور تحقیق کے عمل میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پہلے روٹی، کپڑے اور مکان کے لئے معاشرتی سیاست کارفرما ہوئی۔ دست کاروں اور فنکاروں نے پیشوں کی نسبت سے معاشرے کو ترقی دی تو ریاست کا وجود قائم ہوا جس کے تحفظ کے لئے افواج کی ضرورت سامنے آئی تاکہ فرد، معاشرہ اور ریاست اپنی جغرافیائی حدود میں امن و سلامتی کے ماحول میں ترقی کریں اور باہمی اختلافات دور کرنے لے لیے عدل و مساوات کا نظام قائم ہو۔

وقت کی رفتار نے انسانی ضروریات اور ریاستی نظام کے استحکام کو بھی ایڑ لگائی تو قوموں اور ملکوں کے درمیان ترقی کی دوڑ میں مقابلے کا ماحول بن گیا۔ نئی صنعتوں کے لئے نئے علوم وضع ہوئے تو تحقیق کے نئے راستے متعین ہوتے گئے۔ وہ قومیں اور ریاستیں جو فکرو فن کے میدان میں پیچھے رہ گئیں وہ عملی میدان میں شکست خوردہ اور ناکام ٹھہریں۔

ایسی قومیں افرادی قوت ،وسعت ریاست اور قدرتی وسائل کے باوجود بے حیثیت ٹھہریں تو ترقی یافتہ اقوام نے ان کے وسائل پر قابض ہو کر انہیں غلامی کے شکنجے میں جھکڑ لیا۔ اس پر بھی اکتفا نہ ہوا اور قوموں کی غلامی کا ایسا عالمگیر چارٹر ترتیب دیا گیا جس کی روسے ہر خطہ زمین پر بسنے والی ترقی پذیر اقوام کو تیسری دنیا کا نام دے کر انہیں مسلسل غلامی میں رکھنے کے لئے ترقی یافتہ اقوام نے باہمی اتحاد کی تنظیمیں بنا لیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ جیسے ادارے استحصالی قوتوں کے آلہ کار بن گئے اور تیسری دنیا کے مسائل الجھانے اور وسائل پر قابض ہونے کے مختلف طریقے استعمال کرنے شروع کر دیے۔ کھلی آنکھ اور بیدار مغز سے دیکھا جائے تو آج ساری ترقی پذیر دنیا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی جاگیرہے۔ عرب ممالک معدنی وسائل کے باوجود باہمی خلفشار کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار ہیں اور مغربی ممالک اور اسلام دشمن قوتوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اقبال ؒنے مسلمانوں خاص کر عربوں کی موجودہ حالت کی پشین گوئی کی جس کا مفصل ذکر احادیث نبویﷺ میں موجود ہے۔

اقبالؒ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں ہی اپنی شاعری اور نثر میں مسلمانوں کی زبوحالی کا ذکر کیا اور انہیں فکر کی روشنی میں علم حاصل کرنے اور علم کی قوت سے عمل کرنے کا پیغام دیا۔

اقبالؒ کا فلسفہ خودی حاکمیت الٰہی اور کامل یقین کی بنیاد پر استوار ہے۔

اقبالؒ کے نزدیک جب تک انسان اپنے ظاہر و باطن کو حکم الٰہی کے تحت خارجی و داخلی آلائشوں سے پاک نہ کر لے وہ خود داری و خودشناسی کے عمل سے ہر نہیں گزر سکتا اور نہ ہی اس کا علم و عمل دیگر انسانوں کے لئے امن، تحفظ اور ترقی کا باعث بن سکتا ہے۔

اقبالؒ تزکیہ نفس اور مجاہدہ قلبی کی حکمت کو خودی کی بنیادی جز اور علم و عمل کو تعمیر ملت کی شاہرہ قرار دیتا ہے۔ اقبالؒ کا فلسفہ خودی یا خودشناسی درحقیقت خدا شناسی کی راہ ہے۔

خودی را از وجود حق وجودی

خودی را از نمود حق نمودی

نمی دانم کہ ایں تابندہ گوہر

کجا بودی اگر دریا نبودی

اقبالؒ اپنے پیغام میں انسان کو اس کی انسانی حیثیت یاد دلاتے ہیں کہ وہ اپنی فکری، علمی اور عملی خوبیوں کی وجہ سے ہی دیگر مخلوق سے برتر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خود شناسی سے ہی شخصی استقلال اور باطنی انقلاب برپا ہوتا ہے اور انسانی پوشیدہ و خوابیدہ صلاحیتیں پروان چڑھ کر بندہ مومن کو معمار جہاں بنا دیتی ہیں۔

خودی یا خودشناسی بندے اور ربّ کے درمیان رابطے اور اسرار الٰہی کے مشاہدے کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور انسان کی فکری راہیں ہموار کرتی ہے۔ہم نے اقبال ؒ کو حکیم الامت، معمار پاکستان اور نظریہ پاکستان کا خالق تو بنا دیا مگر نہ امت نے اقبالؒ کی حکمت کو اپنایا، نہ اہل پاکستان معمار پاکستان کی بچھائی پختہ بنیادوں پر مملکت کی عمارت تعمیر کر سکے اور نہ ہی نظریہ پاکستان پر گامزن رہے۔

ہمارے سیاستدانوں، حکمرانوں، پیروں، تاریخ دانوں اور قلمکاروں نے اقبالؒ مخالف نظریے کو اپنایا اور لادین نظریات و افکار کو تعلیم و ترقی کی اصل بنیاد بنا کر پیش کیا۔ آج آزاد میڈیا کادور ہے مگر سوائے پاکستان کے دنیا کے کسی بھی ملک میں ملک دشمن میڈیا کا کوئی وجود نہیں۔

                  ظفر اور زینت کی گفتگو گرچہ دھیمی تھی مگر سٹیج سیکرٹری عائشہ سلطانہ کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ عائشہ سلطانہ کی ناگواری کا ظفر اور زینت پر تو کوئی اثر نہ ہوا مگر واپڈا والوں نے حاضرین کی مشکل آسان کر دی۔ بجلی چلی گئی اور تقریریں بھی اختتام پذیر ہوگئیں۔

ہال سے باہر نکلتے ہوئے کسی نے کہا کہ پتہ نہیں اس ملک سے بجلی کا بحران کب ختم ہوگا۔ کسی نے آہستہ سے جواب دیا جب عام آدمی اقبالؒ کے پیغام کو سمجھ لے گا اور اقتدار کے ایوانوں میں گندے کیڑوں کی جگہ اقبالؒ شناسوں کو جگہ دے گا۔ جس قوم کا مستقبل بلاول زرداری اور مریم صفدر ہوں اس کی منزل ترقی نہیں تنزلی ہے۔ جن ذہنوں میں دولت کا نشہ اور آنکھوں میں جہالت کا اندھیرا ہو ان کی منزل روشنی نہیں ہوسکتی۔ بجلی کا بحران سیاستدانوں کی ترقی اور قومی تنزلی کا نشان ہے۔ ملک بحرانوں سے نکل گیا تو ٹھیکیداروں اور کاروباری سیاستدانوں کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔اقبالؒ نے تو تعلیم و تربیت کو بھی خودی کا لازمہ قرار دیا تھا۔ اقبالؒ نے امت کے نوجوانوں کو خدا شناسی کا پیغام دیا کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر تسخیر کائنات کا مشن مکمل کریں۔

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

اقبالؒ نے کہا:۔

خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف

کہ مشت خاک میں پیدا ہوا آتش ھمہ سوز

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

مگر افسوس آج ہمارا جوان زرداری اور نواز شریف کا پیغام لے کر گلی گلی پھر رہا ہے اور بد نصیب قوم بیکار اور بدحال ہے۔

                 

Exit mobile version