Tarjuman-e-Mashriq

آزادی کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے ؟

 

آزادی کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے ؟

محمد مقبول آزاد 

یہ تقریباََہر گھر کی کہانی ہے باپ دنیا سے چلا جائے یا بوڑھا ہو جائے توگھر کی زمہ داری اچھی یا بری گھر کا بڑا بیٹا ہی نبھاتاہے ۔بڑے بھائی کے رشتوں کے نام بھی باقی بھائیوں سے مختلف ہوتے ہیں ۔بڑا بھائی شائد زمہ داریوں کی وجہ سے سنجیدہ اور غصیلہ ہوتا ہے ۔جیٹھ مہینہ سال کا سخت ترین ہوتا ہے ۔اس مہینے میں زمین پیاسی اور گرمی کا راج ہوتاہے ۔لوگ سخت مزاج ہو جاتے ہیں ۔شائد اسی مماثلت کی وجہ سے گھر میں بڑے بیٹے کو جیٹھا پتر کہا جاتا ہے ۔یہ چھوٹے بھائی کی بیوی کا جیٹھ ہوتا ہے ۔جب سارے جوان ہو کر شادی کاروبار شروع کرتے ہیں تو گھر میں جائداد کے تنازعے جنم لیتے ہیں ۔ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جاتے ہیںحتیٰ کہ بول چال تک بند ہو جاتی ہے ۔چند مہینوں یا سالوں بعدیہ دشمنی بھول بھال کر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں ’’خون سے خون کو بھی بھلادھویا جاسکتا ہے کیا ؟‘‘۔زندگی میں شدی ترین ناراضگی کے باوجود اگر کوئی بھائی وفات پا جاتا تو میں نے بھائیوں کو دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا ہے ۔انہی احساسات کی ترجمانی میاں محمد بخشؒ نے ایسے کی ہے ’’ ویر مرن تے کنڈ خالی ‘‘
ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ اور حدود اربعہ بارے آج جو سیاسی رہنماء بڑھ چڑھ کرسیاسی جلسوں میں جوشیلی تقریروں میں ہندوستان کو للکارتے ہیں انہیں پورا ادراک نہ یںہے۔آزاد کشمیر جسے بیس کیمپ کہا گیا تھا وہ مکمل طور پر بزنس کیمپ بن گیا۔یہاں کے تعلیمی نصاب سے ریاست جموں و کشمیر کو مکمل طور پر نکال دیا گیا ہے ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس خطے کا ہر جوان آزادی کی بات کرتا ہے مگر وہ اس خطے کی جغرافیائی حقیقتوں اور وہ اپنے ماضی اور حال سے بالکل نا بلد ہے اور اس نوجوان کے جذبات بھڑکا کر ہر کوئی اپنے مقاصد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔آج بھی ایل او سی کے دونوں جانب کشمیرں اسی طرح تقسیم ہیں جیسے شیخ محمد عبداللہ اور چوہدری غلام عباس کی سیاسی راہیں جدا ہونے سے کشمیریوں میں پھوٹ پڑی تھی ۔
شیخ محمد عبداللہ کا سرینگر کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق تھا ۔لاہور سے انہوں نے ایم ایس سی کیمسٹری کی ڈگری حاصل ۔اس دوران انہوں نے علامہ محمد اقبال کی قربت میں رہے ۔حافظ قرآن اور خو ش الحان ہونے کے ساتھ ساتھ اقبالیات پر عبور حاصل تھا ۔انہوں نے مہاراجہ سے وظیفہ حاصل کرکے ولائت جانے کی سر توڑ کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے ۔چوہدری غلام عباس کا تعلق جموں سے تھا ،ان کے والد مہاراجہ کے حکومت میں نائب قاصد اور بھائی ایس ڈی او تھے ۔انہوں نے بھی وکالت کی ڈگری لاہور سے حاصل کی ۔مالی حالات ان کے بھی کوئی اچھے نہیں تھے ۔1932میں مسلم کانفرنس کے قیام کے بعد ان دو نوجوانوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کی مسلم کش پالیسیوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا اور ہر انتخاب جیتا ۔مسلم کانفرنس کو جب 1939میں نیشنل کانفرنس بنا دیا تو۔شیخ عبداللہ کا کہنا تھا کہ دو قومی نظریہ کااطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیںکیا جا سکتا کیونکہ ریاست میں 20فیصدغیر مسلم اقلیت ہیں ۔اگر یہاں دو قومی نظریہ کی بات کی تو لا محالہ ریاست مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہوگی جو مسلم اکثریت کسی طور قبول نہیں ۔چوہدری غلام عباس نے بھی اتفاق کیا۔ 1942میں چوہدری غلام عباس نے دوبارہ سے مسلم کانفرس کا احیا ء کیا ۔قائد اعظم کے سیکرٹری کے ایچ خورشید کی چوہدری غلام عباس بارے کوئی اچھی رائے نہیں تھی ۔ان لیڈران کی آپسی رنجشیں بالکل مسئلہ کشمیر پر اسی طرح اثر انداز ہوئیں جیسے پاکستانی حکمرانوں کی آپس کی چپقلش کے نیتجہ میں ہندوستان فائدہ اٹھاتا رہا۔
آزاد کشمیر میں انقلابی حکومت قائم ہوئی جس کے سربراہ سردار محمد ابراہیم خان بنے ۔1954تک وہ صدر رہے انہیں جب اقتدار سے ہٹاہا گیا ۔پونچھ میں بڑی بغاوت ہوئی ۔اسی عرصہ میں چوہدری غلام عباس نے دلبرداشتہ ہو کر سیز فائر لائن توڑنے کااعلان کیا ۔وہ مارچ کرتے ہوئے کوہالہ پہنچے ہی تھے کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔1962میں جب شیخ عبداللہ ایوب خان کی دعوت پر پاکستان کے دورے پر آئے تو شائد جذبات سے مغلوب ہو کر تقریر میں شیخ عبداللہ کو ایشاء کا بڑا لیڈر قرار دے دیا ۔
تاریخ اور نصاب کی بات اس لیے یاد آ گئی کہ دنیا میں ایک اور قوم بھی ایسی ہے جس کی کہانی کشمیریوں جیسی ہے ۔دنیا میں پاکستان کے بعد اگر کوئی ملک مذہبی نظریے پر قائم ہوا ہے تو وہ اسرائیل ہے ۔فلسطین پر جب وہ قبضے کا منصوبہ بنا رہے تھے تو وہ سکولوں میں اپنے بچوں کو چھٹیوں کا کام یہ دیتے تھے کہ وہ ان علاقوں کا دورہ کریں اور ان کے بارے میں لکھیں جن پر یہودیوں کی حکومت مستقبل میں قائم ہو گی ۔وہ بچے تین ماہ کی چھٹیوں میں ان علاقوں کا دورہ کرتے ۔اور انہی بچوں نے اسرائیل نام کا ملک کے قیام میں مدد کی ۔یہودی دنیا کی آبادی کا 0.2فیصد ہیں جبکہ نوبل پرائز حاصل کرنے میں اس قوم کا حصہ 20فیصدہے۔
مقبوضہ جموں کشمیر پر قبضہ ہندوستان نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہاں اپنے پنجے گاڑنے شروع کیے ۔مقبوضہ جموں و کشمیر کا بھی وزیر اعظم اور صدر ریاست ہوا کرتا تھا ۔پہلا وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ اور صدر ریاست ڈاکٹر کرن سنگھ تھے ۔یہ دونوں دفعہ 370اور35اے کے تحت ہی بنے ۔مگر جب ہندوستا ن کاان سے مطلب پورا ہو گیا تو ان عہدوں کو وزیراعظم کو وزیر اعلیٰ اور صدر کو گورنر بنا دیا،اس کے بعد جب اس کا جی چاہتاوہاں گورنرراج لگا دیتا ،یوں اس نے وہاں کی آزادیاں مکمل طور پر سلب کر لیں ۔یہ آئینی دفعات اس نے خود اپنے دستور میں شامل کی تھیں اس کے خود ہی ختم کردیں ۔
ہمارے بیس کیمپ پر کسی نے الحاق کے نام پر کمائی کی تو کسی نے خود مختاری کے نعرے کے سہارالیا۔جو لوگ الحاق کے حامی ہیں ان کا دشمن ہندوستان ہے جو خو مختاری چاہتے ہیں ان کا دشمن بھی ہندوستان ہی ہے ۔کیوں نا سب سے پہلے آزادی حاصل کر لی جائے اس کے بعد فیصلہ کیا جائے خود مختار رہنا ہے یا پھر الحاق کرنا ہے ۔ہم نے جو پہلے کام کرنا ہوتے ہیں وہ آخر میں رکھے ہوئے ہیں اور آخر والے پہلے ۔صبر کرنے سے پہلے ہم پھل کھانا چاہتے ہیں ،جس کا نتیجہ آج الحاق اورخود مختاری کے نام پر تفریق کی صورت میں مل رہا ہے ۔
پاکستان ہمارا بڑا بھائی ہے ۔اس سے خون کا رشتہ ہے وہ ایسے کہ آزاد جموں کا جو حصہ آزاد ہے اس میں بسنے والی قومیتوں کا اوریجن پنجاب اور کے پی کے ہے ۔ان علاقوں کا ہمیشہ سے انحصار پنجاب اور کے پی کے پر آزادی سے قبل رہا ہے ۔آزادی ہم ریاست جموں و کشمیر کے باسیوں نے حاصل کرنی ہے کوئی باہر سے ہماری مدد کو ئی نہیں آنے والا ۔آزادی کے دو ہی طریقے ہیں ۔ایک ہے جہاد کا ۔ریاست جموں و کشمیر کا ہر پیر و جواں سرپر کفن باندھ لے دوسرا ہے اسرائیلی قوم والا سائنس ٹیکنالوجی سے اپنے آپ کو اتنا لیس کر لو 6دن میں چھ ملکوں کو جنگ میں مات دے دو ۔کنٹرول لائن کی طرف مارچ کرناکوئی برائی نہیں ہے مگر اس سے مسئلہ کشمیر حل بھی نہیں ہو گا ۔ٹھوس حل ان دو طریقوں میں ہی پنہاں ہے ۔خود مختاری کا نعرہ ضرور لگائیں مگر اپنے بڑے بھائی کو گالی مت دیں ۔جب وقت آیا تو بڑا بھائی بخوشی چھوٹے بھائی کو اس کا حصہ دے گا ۔وقت سے پہلے بد گمانی پیدا کرنا اپنی منزل کھوٹی کرنے کے متردادف ہے ۔اب یہی نعرہ موزوں ہے
سب سے پہلے ہندوستان سے آزادی اس کے بعد الحاق یا خود مختاری ۔

Exit mobile version