تحریر: یعقوب نظامی
علامہ ا قبال کا ایک شعر ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدآور پیدا
برطانیہ میں آ باد لاکھوں اےشیائی تارکین وطن کے بارے میں انگرےزوں کا تصور تھا ۔ کہ یہ لوگ مزدور ہیں ۔ اور مزدوری کے علاوہ کوئی اور کام کرنے کے اہل نہیں ۔ یہ م میتھ اُس وقت ٹوٹا ۔ جب محمد عجیب کو انگلستان کی تاریخ میں پہلے اےشےائی کی حےثےت سے لارڈ میئر کی مسند پر بٹھاےا گےا ۔ برطانیہ میںآ باد لاکھوں اےشےائیوں میں سے اُبھر کر سامنےآ نے والے محمد عجیب نے ایک غرےب گھرانے میںآ نکھ کھولی تھی ۔ مگراپنی جدوجہد ، فہم و فراست اور سےاسی بصےرت سے برطانیہ کے سےاسی افق پر چمکے ۔ اِن کی کامیابی پر جہاں دنےا بھر کے مسلمانوں نے خوشی کے شادےانے بجائے ۔ وہاں برطانیہ میںآ باد ا ےشےائی خوشی سے نہیں سماتے تھے ۔ محمد عجےب اےسے پسماندہ علاقے میں پےدا ہوئے جہاں غربت اور جہالت نے برسوں سے ڈےرے ڈالے ہوئے تھے ۔ صلاحےتوں کو جبر نے دبا رکھا تھا ۔ پدرم سلطان بودکے نعرے لگانے والوں نے کبھی کسی غرےب مزدور کی صلاحےتوں کوپنپنے نہیں دےا ۔ اےسے ماحول میں پرورش پاکر انگلستان جےسے ترقی ےافتہ ملک میںآ کر اپنی صلاحیتوں کو اس طرح استعمال کےا ۔ کہ اپنے تو اپنے غےروں نے بھی ان کی صلاحےتوں کو تسلیم کرکے انہیں ایک لیجنڈ کی حیثےت دی ۔آ ئیے اپنے گاؤں سے انگلستان تک اور پھر مزدور سے لارڈ میئر کی مسند کا سفرطے کرنے والے محمد عجیب سے ملاقات کرکے انکی کہانی انکی زبانی سنتے ہیں :
میں 1957ء میں آ زاد کشمیر کے ایک گاؤں چھترو سے انگلستان کے شہر نوٹنگھم میں آ کرآ باد ہوا ۔ اس وقت نوٹنگھم میں کوئی سو کے لگ بھگ پاکستانی رہتے تھے ۔ میں جس گھر میں آ کر ٹھہرا وہاں کوئی اٹھائیسآ دمی رہتے تھے ۔ ہم تین دوست ایک ہی ڈبل بیڈ پر سوتے رہے ۔ مشترکہ کچن تھا ۔ بےروزگاری عام تھی ۔ جو لوگ کام کرتے وہ ساتھ رہنے والے بے روزگاروں سے کھانے پینے اور کرایہ نہیں لیتے تھے ۔ ہمارے لوگ زیادہ تر فیکٹریوں میں کام کرتے تھے ۔
اُس زمانے میں انگریز بھی غریب تھے ۔ لیکن ہمارے لوگ اُن سے بھی زیادہ غریب تھے ۔ ہم جس علاقے میں رہتے تھے وہ زیادہ تر پسماندہ ہوتے تھے ۔ رہائش کی کافی مشکلات تھیں ۔ مکان کے اندر ٹوائلٹ اور باتھ نہیں ہوتے تھے ۔ عام لوگ پبلک باتھ میں جاکر غسل کرتے تھے ۔ گرم پانی ، سنٹرل ہیٹنگ کا نام بھی نہیں سنا تھا ۔ گھروں میں کارپٹ کی بجائے گتہ اور مکانوں کو گرم کرنے کے لئے کوئلہ استعمال ہوتا تھا ۔ صبح سویرے اٹھ کر پہلے کوئلے سے ہاتھ منہ کالا کرتے توآ گ جلتی تھی ۔ اُس وقت سردی بھی بہت زیادہ تھی ۔ دھند ، سردی ، برف اور بارش بہت زیادہ ہوتی تھی ۔ گرمیوں میں پتہ چلتا تھا کہ موسم میں کوئی تبدیلیآ ئی ہے ۔ ہمارے لوگوں کی اس وقت کوئی سماجی زندگی نہیں تھی ۔ ٹیلی ویژن کسی امےر انگریز کے گھر ہوتا تھا ۔ ہم لوگ بازار میں جاکر ٹیلی ویژن فروخت کرنے والی دکانوں پر جا کر ٹی وی دیکھا کرتے تھے ۔ اگر اس وقت سےآ ج کا موزانہ کیا جائے توآ ج غریبوں کی تعداد کم ہے ۔ کار کسی کسی کے پاس تھی ۔ اتوار کو مکمل چھٹی ہونے کی بناء بازار اور سڑکیں ویران ہوا کرتی تھیں ۔ انگرےز اتوار کو گھروں کے اندر ہی رہتے تھے ۔ کچھ لوگ چرچ جاتے اور باقی وقت گھروں میں گزارتے تھے ۔
چھٹی کے دن ہمارے لوگ کسی ایک گھر میں جمع ہوکر خوب محفلیں جماتے ۔ ان محفلوں میں وطن کی یادیں تازہ کرتے ۔ خط لکھوائے اور پڑھائے جاتے ۔ پڑھے لکھے لوگوں کے اردگرد ہجوم رہتا تھا ۔ ان سے کوئی خط لکھوا رہا ہے تو کوئی پڑھوا رہا ہے ۔ پڑھے لکھے لوگوں کی عزت کی جاتی تھی ۔ ان سے گھریلو کام کاج جس میں کھانا پکانا وغیرہ شامل ہوتا تھا نہیں کروائے جاتے تھے ۔ اس کی جگہ یہ لوگ انکے خط لکھتے ، ڈاکٹر کے پاس لے جاتے یا گیس اور بجلی وغیرہ کی انکوائری کے لئے مدد کرتے تھے ۔
جب میں نوٹنگھم آ یا تو پہلے دو سال گوشت کھانے کو نہیں ملا ۔ چونکہ حلال گوشت نہیں ملتا تھا ۔ ہمآ لو کھا کر گزارہ کرتے یا کبھی کبھار ویک انڈ پر فارم ہاؤس سے مرغیاں لےآ تے جو سیلرز (تہہ خانے ) میں ذبیح کرتے اور مزے لے لے کر کھاتے ۔
ساٹھ کی دہائی میں کچھ ایسے انگریز بھی زندہ تھے جو ہندوستان میں ملازمت کرتے رہے تھے جس کی وجہ سے وہ تھوڑی تھوڑی اردو بھی بول لیتے تھے ۔ شروع شروع میں وہ انگریز مجھے ملتے اور بتاتے کہ وہ پاکستان یا ہندوستان کے فلاں علاقے میں آ فیسر تھے یا فوج میں تھے ۔ جب میں ان سے یہ پوچھتا کہ اب تم کیا کرتے ہو تو وہ شرما کر بتاتے کہ ٹوائلٹ آ فیسر ۔ ٹوائلٹ کے ساتھ آ فیسر کا اضافہ کرکے اپنی برتری کا اظہار کرتے ۔ یوں مجھے محسوس ہوتا کہ رسی جل گئی لیکن اس کے بل نہ نکلے ۔ یعنی ہاتھ سے ہندوستان جاتا رہا لیکن ان کی اکڑ نہ گئی ۔
جب میں بسوں میں بحیثیت کنڈ یکٹر کام کیا کرتا تھا ۔ ایک بار ایک بوڑھی انگریز عورت بس میں بیٹھی ۔ مجھے دیکھا تو حیران ہوکر بولی تم کس ملک کے رہنے والے ہو ۔ میں نے جان چھڑانے کی خاطر کہا ہندوستان کا ۔ بڈھی بولی تو کیاآ پ لوگ ابھی تک غاروں اور خیموں میں رہتے ہیں ۔ میں نے پھر جان چھڑانے کی خاطر کہا ۔ ہاں ۔ لیکن جب اس نے جان نہ چھوڑی تو میں نے کہا میں اس ملک کا رہنے والا ہو جہاں ’’ تاج محل ‘‘ ہے ۔ تو بڈھی ہنسی اور کہنے لگی ہاں وہی ’’ تاج محل ‘‘ جو ملکہ وکٹوریہ نے تعمیر کروایا تھا ۔ جب میں نوٹنگھم میںآ یا تو پہلے چھ سات سال فیکٹری ، بسوں اور ریلوے میں کام کرتا رہا ۔ اس وقت نوٹنگھم میں ہم چند ساتھی جن میں اسلم صاحب ، اختر حسین صاحب ، ملک صاحب شامل تھے نے مل کر ’’ پاکستان فرینڈز لیگ نوٹنگھم ‘‘ بنائی ۔ یہ تنظیم کافی منظم تھی جس کے تحت ہم لوگ ہر ہفتے تین چار گھنٹے ایڈوائس وغیرہ کے لئے مفت کام کرتے تھے ۔ یہاں سے ہی میں نے نسلی منافرت کے خلاف کام شروع کیا ۔
میرے سیاسی سفر کاآ غاز 1974ء میں لیبر پارٹی میں شمولیت سے ہوا ۔ اُس وقت میں بریڈفورڈآ چکا تھا ۔ لیبر پارٹی میں بڑی محنت کی جس کے صلہ میں پہلی بار 1979ء میں بریڈفورڈ کی مینگھم وارڈ سے کونسلر منتخب ہوا ۔ اس سے قبل بریڈفورڈ میں منور حسین نامی ایک بنگلہ دیشی اور چوہدری حمید ( مرحوم ) دو کونسلر تھے ۔ حمید مجھ سے ایک سال سینئر تھے ۔ 1975ء سے 1982ء تک سات سال تک میں کمیونٹی ریشل کونسل کا چیئر مین رہا ۔ میں پہلا کالاآ دمی تھا ۔ جو اس عہدہ تک پہنچا تھا ۔ میرے دور میں اس ادارے کو بہت فروغ ملا ۔ میں نے اسے قومی سطح پر متعارف کروایا ۔آ ج اس ادارے کو ایک فعال تنظیم تسلیم کیا جاتا ہے ۔ میں شیلٹر نامی ایک ہاؤسنگ ادارے میں ڈائریکٹر بھی رہا تھا ۔ کونسل فار ماسک کے مین پاور سروسز کمیشن پروجیکٹ کا منیجر بھی رہا ۔ اس لحاظ سے میری کارکردگی بہت ہی نمایاں اور بہتر تھی ۔ انگریز جو اس وقت سیاست میں متحرک تھے ۔ وہ بھی میری سیاست اور کام سے واقف تھے کہ یہآ دمی اپنے دل اور ضمیر کی بات کرتا ہے ۔ اسی وجہ سے 1980ء میں مجھے بریڈفورڈ کونسل کی ہاؤسنگ کمیٹی کا وائس چیئر مین بنایا گیا ۔ 1984ء میں لیبر پارٹی گروپ کا چیئرمین منتخب ہوا اس زمانے میں ایک کالےآ دمی کے لئے بہت بڑی بات تھی ۔ کہ پارٹی میٹنگ کی صدارت کرے ۔ 1984ء میں جب میں لیبرپارٹی کا چیئر مین تھا اس وقت میرا نام لارڈ میئر کےلئے پیش کیا گیا ۔ لیکن مجھے صرفآ ٹھ یا دس ووٹ ملے ۔ پھر 1985ء میں دوبارہ میرا نام پیش کیا گیا ۔ اُس بار پہلے راوئنڈ میں ہی مجھے پچاس فیصد سے زائد ووٹ ملے ۔ اور یوں میں واضح اکثریت سے لارڈ میئر منتخب ہوگیا ۔
جب میں لارڈ میئر بن گیا تو یہ بڑی تاریخی بات تھی ۔ کہ ایک کالاآ دمی اس منصب تک پہنچا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا اثر برطانیہ کی سیاست پر ہوا ۔ کہ کالے لوگ بھی اس عہدہ تک پہنچ سکتے ہیں ۔ وہ لوگ جن پر انگریز ایک عرصہ تک حکومت کرتے رہے ۔ پھر یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ ان لوگوں میں اہلیت ہے کہ وہ ایسی ذمہ داریاں نبھا سکتے ہیں ۔ میں نے لارڈ میئر اور دوسرے اعلیٰ عہدوں کے لئے جو دروازہ کھولا تھا اس دروازے سے مےرے بعد کئی کالے لوگ اس منصب تک پہنچے ۔ میں نے اپنے لوگوں کے دلوں میں یہ بات پیدا کی کہ ہمارے لوگ بھی اہلیت رکھتے ہیں ۔ یہ کام بھی کرسکتے ہیں ۔ میری وجہ سے نوجوانوں میں ایک جذبہ پیدا ہوا ۔ ان میں اعتماد پیدا ہوا ۔ اور ان میں غلامی کی ذہانت جو ہمارے لوگوں میں کمتری کے طور پر پیدا تھی وہ برتری میں تبدیل ہوئی ۔ میں میتھ بریکر ہوں چونکہ میں نے انگریزوں کے اس میتھ کو توڑا کہ کالے لوگوں میں کام کرنے کی اہلیت نہیں ۔ میں لارڈ میئر تو بریڈفورڈ کا بنا تھا لیکن شفیلڈ ، برمنگھم ، لیور پول ، ناٹنگھم ، کاونٹری ، لیڈز اور برطانیہ کے دوسرے شہروں میں مجھے دعوت دی جاتی تھی ۔ لوگ فخر کرتے تھے کہ ہم میں سے ایک آ دمی لارڈ میئر بنا ہے جس کے گلے میں سونے کا چین ، بارڈی گارڈ اور شوفر ہیں ۔ جب لارڈ میئر محفلوں میں جاتے ہےں تو سب لوگ احتراماً کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اس بات پر ہمارے لوگ فخر کرتے چنانچہ لوگوں کے اندر ایک جذبہ پیدا کیا ۔ جب میں لارڈ میئر بنا تو لوگوں کو یقین ہی نہیں آ تا تھا ۔ چنانچہ بعض لوگ تسلی کرنے کے لئے مجھے دیکھنےآ تے تھے ۔ انگریز بھی دیکھنےآ تے کہ دیکھو وہ کون سا کالاآ دمی ہے جو اس عہدہ تک پہنچا ۔ اسی دوران میں حکومت پاکستان کی دعوت پر پاکستان گیا ۔ یہ چھ دنوں کا سرکاری دورہ تھا ۔ اس دوران میں اسلامآ باد ، پشاور گےا جہاں افغانستان کے مہاجرین کے کیمپ کا معائنہ بھی کیا اور لارڈ میئر کے فنڈز سے افغان بچوں کے لئے دس ہزار پونڈ کے عطیات بھی دیئے ۔ پھر لاہور اور میرپور سے ہوتا ہوا اپنےآ بائی گاؤں چھترو گیا ۔
پاکستان کے لوگ مجھ پر فخر کرتے تھے ۔ چونکہ میں پہلاآ دمی تھا جو اس عہدہ تک پہنچا جس کی وجہ سے پاکستان اور پاکستانیوں کا نام بلند ہوا ۔ پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوا ۔ لاہور کے شالامار باغ میں اہلیان لاہور نے میرے اعزاز میں بہت بڑا استقبالہ دیا ۔ بی بی سی ٹیلی ویژن کی ٹیم میرے ساتھ ساتھ تھی ۔ پاکستان ٹیلی ویژن ہر روز شام کو اپنی مین نیوز میں میرے دورے کی خبریں نمایاں نشر کیا کرتا تھا ۔ پاکستان کی اخبارات کے نمائندے میرے ساتھ ساتھ رہتے تھے ۔ اخبارات نے میرے دورے کی مناسبت سے خصوصی ایڈیشن نکالے ۔ اسی دوران میں نے صدر پاکستان ضیاء الحق سے بھی ملاقات کی اور تارکین وطن کے حوالے سے بات چیت ہوئی ۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے بھی ملاقات ہوئی ۔ میرے لارڈ میئر بننے کا ذکر دنیا کے ہر ملک میں ہوا ۔ دنیا کے تمام اخبارات میںآ رٹیکل اور خبریں شاءع ہوئیں ۔ روس اور چین کے علاوہ دنیا کے ہر ملک سے مجھے خطآ ئے ۔ افریقہ کے تمام ممالک ، مڈل ایسٹ ، پاکستان ، کشمیر ، ہندوستان ، جاپان سے خطآ ئے ۔ مڈل ایسٹ والوں نے میری ڈاکومنٹری بنائی ۔ جس میں مجھے نماز پڑھتے اور کھانا کھاتے دکھایا گیا ۔
میرے دور میں بریڈفورڈ کے سکولوں میں حلال گوشت کا مسئلہ حل ہوا ۔ یہ تحریک کونسل فار ماسک نے شروع کی تھی ۔ میں اس وقت کونسلر تھا اس مسئلہ کو حل کرنے میں میرا بھی ایک کردار تھا ۔ میں نے اپنا کردار اور کمیونٹی لیڈروں نے اپنا کردار ادا کیا چنانچہ باہمی تعاون سے یہ مسئلہ بریڈفورڈ کونسل نے منظور کیا ۔ جس کے بعد برطانیہ کے دوسرے مسلمانوں نے بھی مطالبہ کیا اور انہیں بھی حلال گوشت کی سہولت میسرآ ئی ۔ بریڈفورڈ میں ’’ پاکستان کمیونٹی سینٹر ‘‘ کو بنانے میں میری جدوجہد شامل ہے ۔ 1982ء کی بات ہے ۔ میں نے سوچا کہ بریڈفورڈ میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ۔ لیکن اُن کیلئے کوئی ایسی جگہ موجود نہیں جہاں وہ مل بیٹھ کر اپنے مسائل پر بات چیت کرسکیں ۔ اُس زمانے میں انگریز کمیونٹی کیلئے سینٹر موجود تھے ۔ لیکن ہماری کمیونٹی میں ابھی یہ شعور پےدا نہیں ہوا تھا ۔ میں نے کونسلر حمید مرحوم ، اشتیاق اور چند دوسرے دوستوں سے مشورہ کیا ۔ اور پھر میں نے بریڈفورڈ کونسل کے چیف ایگزیکٹو گورڈن مورسے بات کی جس نے منصوبہ تیار کرنے کا مشورہ دیا ۔ اور وعدہ کیا کہ ہم مرکزی حکومت سےآ پ کو گرانٹ بھی لیکر دیں گے ۔ اس منصوبہ کیلئے میں نے تنظیمی ڈھانچہ تیار کیا ۔ اُس کاآ ئین مرتب کیا اور پھرآ ہستہآ ہستہ کمیونٹی کے لوگوں نے اس میں دلچسپی لینی شروع کی ۔ ایف ۔ ڈی ۔ فاروقی، کپتان حکم داد ، پیرسےد معروف حسین شاہ اور دوسرے لوگوں نے اس کی حمایت کی ۔ ہمارے پاس کوئی بھی ماڈل کمیونٹی سینٹر نہیں تھا چنانچہ ہم لیورپول گئے اور وہاں ایک چھوٹا سا کمیونٹی سینٹر دیکھا ۔ چنانچہ ہم نے چھوٹی سطح کی شادیاں ،عورتوں اور بچوں کیلئے سہولیات، نوجوانوں کیلئے کھیل کود اور اپنی سماجی مسائل کیلئے میٹنگ کیلئے جگہ کیلئے ایک منصوبہ تیار کیا ۔ میں نے کمیٹی کی وساطت سے کونسل کو گرانٹ کیلئے درخواست دی اور ےوں حکومت نے کوئی تین لاکھ پونڈ کی گرانٹ دے دی ۔ یوں اس منصوبہ پر زور و شور سے کام شروع ہوا ۔ جو 1984ء میں مکمل ہوا ۔ اور شہزادی این نے سینٹر کا افتتاح کیا ۔ جب گرانٹ ملی تو میں نے خود لینے کی بجائے کونسل کے فنانس ڈائریکٹر کو کہا کہ وہ مالی امور کو نبٹائیں ۔ میں نے سوچا اگر میں نے پیسے لیے تو لوگ کہیں گئے کہ عجیب پیسے کھا گیا ہے ۔ برطانیہ میں یہ سینٹر اپنی نوعیت کا واحد سینٹر تھا جسے پاکستانی کمیونٹی کی ضرورےات کے مطابق تعمیر کیا گیا تھا ۔ سینٹر تعمیر کرتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھا گیا تھا کہ سینٹر کو اسلامی امور مثال کے طور پرجنازے پڑھائے کیلئے بھی استعمال کیا جاسکے ۔ چنانچہ ہم نے اس کا رخ قبلہ کی طرف رکھا تھا ۔ جب سینٹر مکمل ہوگیا تب برادری کی سیاست نے سر اٹھایا اور لوگوں نے ذاتی جیبوں سے ہزاروں پونڈ خرچ کرکے اس کی ممبر سازی کروائی تاکہ سینٹر پر بڑی برادریوں کا قبضہ ہوجائے ۔ قوم کی یہ سوچ دیکھی تو میں نے سینٹر کے چیئرمین کے عہدہ سے استعفیٰ دے دےا ۔ میں ابھی تک کارمنڈ سینٹر اور فرائزنگ ہال سینٹر کا ٹرسٹی ہوں ۔ میں نے ہمیشہ دوسرے باصلاحیت نوجوانوں کوسامنے لانے کی کوشش کی ۔ میں نے محمد ریاض ، اورنگ زیب ان سب کی حوصلہ افزائی کی ۔ میں نے ہمیشہ اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیا تاکہ دوسرے باصلاحیت لوگ سامنےآ ئیں ۔ یوں کمیونٹی کی ڈویلپمنٹ ہوتی ہے ۔
میں 1979ء میں کونسلر منتخب ہوا تھا ۔ میں نے ’’ ساؤتھ فیلڈ سکوائر ‘‘ جو ایک تاریخی جگہ تھی کو بچانے کیلئے کونسل سے اس علاقہ کو محفوظ بنانے کیلئے گرانٹ لے کر دی تھی ۔ یہ وہ زمانہ تھا ۔ جب ہمارے لوگوں کو کونسل اور کونسل کے دوسرے اداروں کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا ۔ میں نے ہمیشہ اللہ کے فضل سے لوگوں کی حماےت میںآ واز بلند کی اور اُن کے مسائل حل کروائے ۔ حکومت بھی میری رائے کو بڑی اہمیت دیتی تھی ۔ اخبارات میں ہر ہفتے میری خبریں باقاعدگی کے ساتھ شاءع ہوتی تھیں ۔ مجھے ٹیلی ویژن کے مذاکروں میں دعوت دی جاتی تھی ۔ اُس زمانے میں ترقی پسند انگریز میری حمایت کیا کرتے تھے ۔ اُس وقت بھارتی ، پاکستانی ، کشمیری اور کالے لوگ سب ایک تھے ۔ اگر میں کوئی بات کرتا تو سب میری حمایت کرتے تھے ۔ 1986ء میں مجھے برےڈفورڈ ےونےورسٹی نے اےم ۔ اے کی اعزازی ڈگری عطا کی ۔ اور لوکل گورنمنٹ سروسز کی خدمات کے صلہ میں مجھے سی بی ای کا اعزاز ملا ۔ بدقسمتی سے سیاستدانوں نے ایک موقع پر پارٹی کی بجائے برادری کے نام پر ووٹ مانگنے شروع کیے ۔ یوں برادریوں کی حمایت اور مخالفت کاآ غاز ہوا ۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ برادری کے نعرہ پر کبھی کسی نے کامیابی حاصل نہیں کی ۔ برطانوی سیاست میں برادری ، ذات ، نسل اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ میں ہمیشہ کمیونٹی کے لیڈروں کی بجائے کمیونٹی کے عامآ دمی کی زیادہ عزت اور حوصلہ افزائی کرتا ہوں ۔ 1995ء میں بریڈفورڈ ویسٹ سے ممبرآ ف پارلیمنٹ کیلئے بہت سے لوگوں نے اپنی برادریوں کے نام سے لیبر پارٹی میں ممبرسازی کی ۔ مجھے اُس وقت احساس ہوگیا تھا کہ ہماری قوم نے غلط راستے کا انتخاب کیا ہے ۔ چونکہ برادریوں کے نام پر اگر کوئی منتخب ہوجائے گا تو اُس میں صلاحیتوں کا معیار اعلیٰ نہیں ہوگا ۔ میں نے ساتھیوں کو تنبیہ بھی کی کہ تم برادریوں کی سیڑھی کے سہارے پارلیمنٹ تک نہیں پہنچ سکتے ۔ اس سے کمیونٹی کو نقصان ہوگا ۔ اگر سب میری حمایت کریں گے تو میری ریٹائرمنٹ کے بعد یہ سیٹ ہمیشہ پاکستانی کمیونٹی کے پاس رہے گی ۔ لیکن کسی نے میری بات نہیں سنی ۔آ خر میں نے مایوس ہوکر کونسلر شپ سے بھی استعفیٰ دے دےا ۔ وہی ہوا اور بریڈفورڈ سے برادری کے نام پر کوئی ممبر منتخب نہ ہوسکا ۔ ناکامی کے بعد وہ لوگ میرے پاس دوبارہآ ئے کہ اب ہمآ پ کی حمایت بھی کرتے ہیں اور پیسے بھی خرچ کریں گے ۔ لیکن میں نے جواب دیا :’’ بہت دیر کی مہرباں آ تےآ تے‘‘
مذہبی جماعتوں نے ہمیشہ میری مدد کی ۔ مجھے ےاد ہے میری سیاست کےآ غاز میں پےر سید معروف حسین شاہ نوشاہی نے اپنی مسجد کے ممبر پر کھڑے ہوکر اپیل کی کہ محمد عجیب کو ووٹ دو ۔ میں پیر صاحب کی فراست کا قائل ہوں اور ان کا ممنون بھی کہ انہوں نے ہمیشہ میری مدد کی ۔ یہ تعلق اب بھی قائم ہے ۔ پیر صاحب کی میں اس لئے بھی عزت کرتا ہوں کہ انہوں نے مزدوری کی اور دین کی خدمت کی یہ ہرآ دمی کے بس کی بات نہیں ۔ جس طرح میں نے کسی لالچ کے بغیر سیاست کی اُسی طرح پیر صاحب نے بے لوث مذہب کی خدمت کی ۔ ایک دفعہ پیر صاحب نے مجھے بتایا کہ میری بےگم کبھی بھی گھر سے باہر نہیں نکلیں لیکنآ پ کو ووٹ دینے وہ پولنگ سٹیشن گئیں ۔ یہ بڑی بات تھی جو مجھے ابھی تک نہیں بھولی ۔ میں نے مساجد ، مدارس کی پلاننگ اور گرانٹ کیلئے بھی خدمت کی ۔ پیر صاحب انتہائی ذہےن اور فہم و فراست رکھنے والےآ دمی ہیں ۔ انہوں نے دین کی بہت ہی خدمت کی ۔ بریڈفورڈ میں شیر اعظم بھی رہتے ہیں ۔ میں 1980ء سے ان کے ساتھ ملکر کام کر رہا ہوں ۔ یہ انتہائی معتدل مزاج اور شریفآ دمی ہیں ۔ شیر اعظم نے کمیونٹی اور دین کی بڑی خدمت کی ۔ میں نے شیر اعظم میں جتنی قوت برداشت دیکھی اتنی کسی اور سیاستدان میں نہیں دیکھی ۔ وہ گذشتہ پچیس سالوں سے مسلسل کمیونٹی کیلئے کام کر رہے ہیں ۔ ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ذات کی بجائے کمیونٹی اور قوم کیلئے سوچتے ہیں ۔ یوں کاروباری لوگوں میں حاجی مصدق حسین نے کمیونٹی کاز کیلئے بہت کام کیا لیکن پس پردہ رہ کر ۔ انہوں نے کبھی اپنے کام کی تشہےر نہیں کی ۔ نوجوانوں میں اشتیاق احمد نے ریس ریلشن اور کمیونٹی کے کاموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ یہ نوجوان تھا جب اس نے میرے ساتھ سیاسی مےدان میں کام شروع کیا ۔ یہ بڑی صلاحیتوں کا مالک ہے ۔
1985ء میں ہنی فورڈ کو اپنے عہدہ سے ہٹانا ایک بڑا مسئلہ تھا ۔ ہنی فورڈ ایک نسل پرست انگریز تھا ۔ جس کی وجہ سے شہر میں نسلی تناؤ پےدا ہوگیا تھا ۔ خدشہ تھا کہ سفید اور کالی کمیونٹی میں جھگڑے نہ شروع ہو جائیں ۔ چنانچہ میں نے بریڈفورڈ کونسل کی نسلی امتیاز کی ایک میٹنگ میں تقریر کی کہ ’’ شہر کے امن امان کی خاطر ہنی فورڈ کو فوری استعفیٰ دینا چاہئے ۔ چونکہ میرے شہر بریڈفورڈ کا امیج خراب ہو رہا ہے اور نسلی احتجاج اور فسادات شروع ہونے کا خطرہ ہے ‘‘ میرے بیان کو برطانیہ کی بڑی بڑی اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ شاءع کیا ۔ ٹیلی ویژن پر خبریں نشر ہوئیں ۔ اس تقریر کے بعد مجھے انگریزوں کی طرف سے دھمکیاں ملیں ۔ خطوط ملے اور گھر کے شیشے توڑے گئے ۔ مجھے اور میرے خاندان کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی گئیں ۔ میں بریڈفورڈ کا لارڈ میئر بھی تھا ۔ یوں میں بہت ہی دباؤ میں تھا ۔آ خر ہنی فورڈ نے استعفیٰ دیا اور مسئلہ حل ہوا ۔ ہنی فورڈ کے بعد رشدی کے مسئلہ نے بریڈفورڈ اور برطانیہ کی سیاست میں بڑی تبدیلی لائی ۔ انگریز سمجھتے تھے کہ بریڈفورڈ کے مسلمانوں کے مطالبات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں ۔ اگر ہم نے مزید ان کے مطالبات سنے تو پھر یہ کہانی کبھی بھی ختم نہیں ہوگی ۔ چنانچہ حکومت نے نسلی امتیاز کی وہ تمام پالیسیاں ختم کر دیں جن سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا ۔ اس سے مسلمانوں کو سیاسی لحاظ سے بہت نقصان ہوا ۔ پھر بریڈفورڈ کے نسلی فسادات نے بڑی تباہی پھیلائی ۔ اب ہمارے پاس کوئی سیاسی قیادت نہیں رہی ۔ ہمارے نوجوانوں نے بھی سیاسی طور پر کمیونٹی کو مایوس کیا ۔ لیکن میں ذاتی طور پر علامہ اقبال کی طرح مایوس نہیں :
نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنے کشت وےراں سے
ذرا نم ہو تو ےہ مٹی بہت زرخیر ہے ساقی