Tarjuman-e-Mashriq

یادداشتیں

-2 -بریگیڈیئرصولت رضا کی انکشاف انگیز یادداشتیں 

                                                                                          گفتگو/ترتیب و اہتمام:عبدالستار اعوان                         

 بریگیڈیئر (ر) صولت رضا 6 اکتوبر 1952ء کو سید رفاقت حسین کے ہاں پشاور میں پیدا ہوئے۔ جو ایک سرکاری ملازم کے طور پر وہاں متعین تھے۔ ابتدائی تعلیم ڈی پی نیشنل سکول ٹیونیشیا لائنزکراچی سے حاصل کی۔ماڈل ہائی سکول ماڈل ٹائون لاہورسے میٹرک،اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے انٹرمیڈیٹ، اسلامیہ کالج سول لائنز سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا۔1971ء میں پاک آرمی جوائن کی اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے تربیت حاصل کی۔ پاسنگ آئوٹ کے بعد توپ خانہ کی ایک یونٹ ’’23 فیلڈ رجمنٹ آرٹلری‘‘میں تعینات کیے گئے۔اکتوبر 1973ء میں ان کی خدمات مستقل طور پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’’انٹر سروسز پبلک ریلیشنز‘‘ کے حوالے کر دی گئیں۔ جولائی 2003ء میں آئی ایس پی آر سے بطور بریگیڈیئر ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔

صولت رضانے  اپنی کتاب ’’کاکولیات‘‘ سے بہت شہرت پائی۔کتاب کا پہلا ایڈیشن 1975ء میں شائع ہوا اور اس کا 27واں ایڈیشن 2012ء میں شائع ہوا۔یہ معلوم ایڈیشنز کی تعداد ہے جو مصنف کے پبلشر نے شائع کیے۔ کہاجاتاہے کہ اس کتاب کے ’’نامعلوم ایڈیشنز‘‘کی تعداد بہت زیاد ہ ہے۔یہ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں زیر تربیت ایک کیڈٹ کی دلچسپ آپ بیتی ہے۔ پیش لفظ میں ممتاز ادیب بریگیڈیئر صدیق سالک نے لکھا: ’’کیپٹن صولت رضا سنگلاخ فوجی زمین سے پھوٹنے والا ایک تازہ چشمہ ہے۔ اسی زمین سے پھوٹنے والے کئی چشمے مثلا ً کرنل فیض احمد فیض،میجر چراغ حسن حسرت ، میجر جنرل شفیق الرحمن، کرنل محمد خان اور میجر ضمیر جعفری پہلے ہی دریااور پھر سمندر بن چکے ہیں۔ صولت رضا میں بھی چشمہ سے سمندر بننے کی صلاحیت موجود ہے‘‘۔

                                                                                                              ٭٭٭٭٭

والدصاحب کا اصرار تھا کہ میں وکالت یا ایم اے پولیٹیکل سائنس کی ڈگر ی حاصل کر کے مقابلے کے امتحان سی ایس ایس میں قسمت آزمائی کروں ، ادھر ہم پر ’’مخلوط‘‘صحافت کا جادو چل چکا تھا ۔ شعبہ صحافت پنجاب یونیورسٹی میں داخلے کے بعد زندگی کے شب و روز بدل گئے ۔ کرکٹ سے فاصلے بڑھ گئے ۔شعبہ صحافت پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس میں انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کی عمارت کی بالائی منزل میں تھا ۔ کلاس رو م کے برآمدوں سے نہر دکھائی دیتی تھی ۔ ہمارے زمانے میں نہر کے اُس پار سڑک تھی ۔ شعبہ صحافت اور نہر کے مابین ایک سرسبز میدان تھا جہاں ہم آف پیریڈ میں منڈلی جمائے رکھتے تھے ۔ نہر کنارے واقع ٹی سٹال بھی ہماری سرگرمیوں کا اہم مرکز تھاجہاں ہاف سیٹ یا فل سیٹ چائے پر کئی گھنٹے ’’لیفٹ رائٹ‘‘کرتے رہتے تھے۔ یہ لیفٹ رائٹ عسکری نہیں بلکہ نظریاتی تھی ۔ دایاں بازو اور بایاں بازو کی تقسیم در تقسیم نے یونیورسٹی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی نظریاتی اور فکری بحث مباحثہ میں طلبا ء وطالبات کی مختصر تعداد ہی ’’ملوث ‘‘تھی۔اکثر کے کلاسز کے بعد مشاغل کچھ اور ہی نوعیت کے تھے ۔ یونیورسٹی کیفے ٹیریا فاصلے پر تھا وہاں خاص مواقع پر ہی بزم دوستاں سجا کرتی تھی ۔ پنجاب یونیورسٹی میں دو برس کا قیام لاتعداد خوشگوار یادیں اور سحر انگیز لمحات سمیٹے ہوئے ہے ۔ اس کے ساتھ ناخوشگوار واقعات کا بھی ایک سلسلہ ہے ۔ یہ دنیا کی دھوپ چھائوں ہے جس کا اصل ادراک عملی زندگی میں داخل ہونے کے بعد ہی ممکن ہے ۔ شعبہ صحافت میں ابھی جان پہچان کے دور ہی سے گزر رہے تھے کہ ایک روز استاد مکرم پروفیسر مسکین علی حجازی نے مجھے اور ہم جماعت اجمل ملک  مرحوم(سابق ڈائریکٹر محکمہ تعلقات عامہ خیبر پختونخواہ )کو چیئرنگ کراس کے بس سٹاپ پر کھڑے دیکھ کر اپنی کار روک لی ۔ ہم سمجھے کہ شاید کارمیں کوئی مسئلہ ہو گیا ہے لہذا دھکا وغیرہ لگانا ہوگا۔ انہوں نے کار میں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور سروس روڈسے ہوتے ہوئے شاہ دین بلڈنگ کے قریب کار پارک کر دی۔حجازی صاحب گاڑی سے باہر آئے اور ہم دونوں کو اپنے ہمراہ نوائے وقت کے دفتر لے گئے ۔ تب نوائے وقت شاہ دین بلڈنگ سے شائع ہوتا تھا ۔ بلڈنگ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے فرمانے لگے کہ کلاسز ختم ہونے کے بعد ادھر ادھر گھومنے کے بجائے عملی صحافت سیکھو۔زندگی میں کام آئے گی ۔ نوائے وقت میں سینئر نیوز ایڈیٹر سید ظہور عالم شہید (مرحوم و مغفور)تشریف فرما تھے ۔ انہوں نے چند سوالات کیے اور ہم دونوںکو سینئر سب ایڈیٹر ممتاز ملک صاحب کے حوالے کر دیا جنہوں نے اے پی پی کی انگریزی

 کریڈ ترجمے کے لیے ہمارے آگے بڑھا دی ۔ اب اجمل ملک کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ ہم چھ بجے سے نو بجے شب کا فلم شو الفلاح سینما میں دیکھنے کے لیے ’’زادہ راہ ‘‘ہمراہ لائے تھے ۔ ادھر حجازی صاحب نے عملی صحافت سیکھنے پر مامور کر دیا تھا ۔ بہر حال کسی طرح نصف شب تک خبریں ترجمہ کرتے رہے اور پورے نیوز روم میں ہماری قابلیت کی قلعی وقفے وقفے سے کھلتی گئی۔

’’اوئے تہاڈے استاد کی پڑھاندے نیں۔ تسی تے دو لائناں لکھ نئیں سکدے‘‘۔ ’’تہانوں انٹرویو داپتہ نئیں‘‘۔کسی نے آواز لگائی کہ ’’فارغ کر دو ان دونوں کو ‘‘۔آخر کار ظہور عالم شہید صاحب نے فیصلہ سنایا کہ کل سے شام چھ بجے باقاعدہ آنا ہوگا۔ اپرنٹس کے دو سو روپے ماہانہ ملتے ہیں ۔ رات دوبجے تک ڈیوٹی ہوگی۔شاہ دین بلڈنگ سے باہر آئے تو رات کے بارہ بج چکے تھے ۔ ہم نے کرایہ بانٹ کر رکشا لیا اور نیو کیمپس پہنچ گئے ۔ اپرنٹس سب ایڈیٹر دو سو روپے ماہوار اور رات دو بجے تک ڈیوٹی ۔ کبھی اجمل ملک لڑکھڑا جاتا اور کبھی میں مایوسی کا شکار ہوجاتا تھا ۔ دن نکلا ۔ہوسٹل سے کلاس روم پہنچے تو پروفیسر حجازی صاحب نے سلام کا جواب دینے کے بعد کہا کہ دو سو روپے ماہانہ کافی ہوں گے ۔ شاباش ۔ اور ہماری شب بیداری کا مژدہ پوری کلاس کو سنادیا گیا ۔یہ اور بات ہے کہ ہم سے پہلے بھی کچھ طالب علم جن میں توصیف احمد خان اور محمد علی چراغ شامل تھے اخبارات میں ہم سے بہتر اپرنٹس شپ مشاہرہ پر کام کر رہے تھے۔نوائے وقت کا کنٹرول دوبارہ بیگم حمید نظامی صاحبہ نے سنبھال لیا تھا اور جناب مجید نظامی نوائے وقت کو خیر باد کہنے کے بعد روزنامہ ندائے ملت کا اجراء کر چکے تھے۔ یوں شعبہ صحافت کے طلبا و طالبات کی کثیر تعداد کو عملی صحافت میں قسمت آزمائی کے مواقع میسر آگئے۔شب بیداری کے باعث کلاس میں آنکھیں کھلی رہتی تھیں۔تاہم دماغ سو رہا ہو تا تھا۔ اس کیفیت میں متعدد بار اساتذہ کرام کے تندو تیز ریمارکس کا سامنا بھی رہا ۔ یہ محض ابتدائی ایام کی کیفیت تھی ۔ آہستہ آہستہ ہمارے نوائے وقت میں قدم جمنا شروع ہو گئے ۔ میں باقاعدگی سے ’’کیمپس ڈائری‘‘لکھتا تھا جس میں یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی تقریبا ت ، تعلیمی مسائل اور دیگر امور کا تذکرہ شامل تھا۔ مجھے محسوس ہو اکہ شعبہ صحافت سے باہر بھی پذیرا ئی مل رہی ہے ۔ جان پہچان کا دائرہ دیگر شعبہ جات میں وسیع ہونے کے باوجود ہماری ’’جان ‘‘شعبہ صحافت ہی میں تھی۔

 اس وقت فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف متحدہ حزب اختلاف کی ملک گیر تحریک کامیاب ہو چکی تھی جس کے نتیجے میں فیلڈ مارشل ایوب خان کی جگہ تازہ دم جنرل آغا محمد یحییٰ خان کسی رکاوٹ کے بغیر ایوان اقتدار میں داخل ہو گئے ۔ پورے ملک میں امن وامان بحال ہوگیا اور وطن عزیز کے نئے سربراہ نے منصفانہ اور جماعتی انتخابات کا اعلان کر کے عوام کے دل جیت لیے ۔ لیکن یہ کس کو معلوم تھا کہ شفاف ترین انتخابات کے نتائج ہی ملک کو دو لخت کر دیں گے۔اس زمانے میں پنجاب یونیورسٹی کے درودیوار بھی ’’ایشیا سرخ ’’اور ایشیا سبز‘‘کے نعروں سے گونجتے تھے ۔ کلاس رومز میں اسلام ،سوشلزم اور نیشنل ازم کے حوالے سے بہت بحثیں ہوتی تھیں۔شعبہ صحافت میں بھی یہ معرکہ زوروں پر تھا۔انہی دنوں یونیورسٹی یونین کے انتخابات سر پر آگئے ۔ زبردست معرکہ برپاتھا۔ صدر کے لیے حافظ ادریس (اسلامی جمعیت طلبہ)اورلیفٹ الائنس کے حمایت یافتہ جہانگیر بدر(این ایس ایف /این ایس او وغیرہ)کے مابین سخت مقابلہ ہوا۔ حافظ صاحب کامیا ب ہوگئے ۔ نائب صدر سید تنویر عباس تابش اورجنرل سیکرٹری عبد الحفیظ خان منتخب ہو ئے ۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے حامی امیدوار واضح برتری سے جیت گئے لیکن ہارنے والے امیدواروں نے دھاندلی کا الزام لگایا ور ہنگامے شروع ہوگئے ۔ہر طرف ’’حق اورباطل‘‘کا ایک معرکہ برپا تھا۔نوبت مار کٹائی ،وائس چانسلر کی رہائش گاہ پر حملے اور پھر فوجی عدالت تک جا پہنچی۔ حافظ محمد ادریس اور جہانگیر بدر کے ووٹوں میں ایک سو کا فرق تھا جو بار بار گنتی کے باوجود برقرار رہا ۔ بہرحال ہنگامے ختم نہیں ہوئے ۔وائس چانسلر علامہ علاء الدین صدیقی وائس چانسلر تھے ۔ انہوں نے لاء کالج کے پرنسپل پروفیسر امتیاز علی شیخ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی ۔ رات گئے وائس چانسلر ہائوس میں چند طلباء نے ہنگامہ آرائی کی ، پولیس آگئی ، گرفتاریاں شرو ع ہوگئیں ۔ ملک میں مارشل لاء نافذ تھا ۔ کیس ملٹری کورٹ کے سپرد کر دیا گیا ۔ پولیس نے دونوں جانب کے سرکردہ طلبہ کو گرفتار کر لیا تھا ۔ ملٹری کورٹ نے ایک ایک برس کی سزا سنادی ۔ چند بری بھی ہوئے ان میں منتخب جنرل سیکرٹری عبد الحفیظ خان اور میرے ہم جماعت اجمل ملک بھی شامل تھے ۔ ملٹری کورٹ میں سماعت کے دوران وائس چانسلر علامہ علائو الدین

 صدیقی سمیت متعدد اساتذہ کرام اور طلبہ کو گواہی کے لیے طلب کیا گیا ۔ ملٹری کورٹ کے سربراہ لیفٹیننٹ کرنل آفریدی تھے جو دوران سماعت ملزمان اور گواہوں سے نوک دار سوالات پوچھتے تھے ۔ خاص طور پر ان کا یونیورسٹی کے حالات پر تبصرہ بہت عرصہ تک زیر بحث رہا کہ غریب والدین بچوں کو یہاں پڑھنے لکھنے کے لیے بھیجتے ہیں ، ہتھکڑیاں لگا کر عدالتو ں میں چکر کاٹنے کے لیے نہیں ۔

موصوف نے وائس چانسلر سے بھی یونیورسٹی میں ہنگامہ آرائی ، یونین سازی اور تعلیم کے دورانیہ کے بارے میں بھی سوالات کیے۔ شعبہ صحافت کے صدر ڈاکٹر عبد السلام خورشید اور مسکین علی حجازی صاحب بھی حاضری رجسٹر اٹھائے عدالت میں آئے اور یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ جب ہنگامہ آرائی ہورہی تھی اس وقت طالب علم کلاس رومز میں تھے ۔ سزا یافتہ طالب علم کچھ عرصہ لاہور جیل میں رہے پھر انہیں مختلف جیلوں میں منتقل کر دیاگیا۔ابتلاء کے اس ناقابل فراموش دور میں پروفیسر وارث میر نے طالب علموں کو راہ ِ راست پر لانے کی بھرپور کوشش کی ۔ یونین سازی کا سارا جوش و خروش ختم ہو چکا تھا ۔ چند روز بحث و مباحثہ ہوا ، اساتذہ کرام اور طلبہ و طالبات کی تمام ترتوجہ دوبارہ پڑھائی پر مرکوز ہو گئی۔

ہمارے زمانہ طالب علمی میں پنجاب یونیورسٹی کے بوائز ہاسٹل کی تعداد کم تھی۔ لہذا کرائے کے چند گھروںمیں عارضی انتظامات کیے گئے تھے۔ان میں سے ایک ماڈل ٹائون لاہور میں تھا ۔وارث میرصاحب اس عارضی ہاسٹل کے وارڈن بھی رہے۔ ماڈل ٹائون سے براستہ ’’بے آباد‘‘گارڈن ٹائون سے پنجاب یونیورسٹی جاتے سائیکل سوار وارث میر کی نظر میں ہم تین چار پیدل طالب علم آتے تو وہ سائیکل سے اتر کر پیدل سفر شروع کر دیتے۔ شارٹ کٹ کے لئے ہم یونیورسٹی کے سرسبز کھیتوں میں داخل ہو جاتے ۔ اس زمانے میں آ  ہنی  جنگلے نہیں لگے تھے ۔یوں وارث میرصاحب کی ہمراہی میں ہی ہماری اوپن کلاس ہو جاتی تھی ۔وارث میر صاحب کی عالمانہ فصاحت کے دوران ’’یس سر ‘‘اور جی سر کے ساتھ کھیت کی پگڈنڈی پر استادِ مکرم کی سائیکل کو سنبھالے رکھنا اہم مرحلہ ہوتا۔ سائیکل کا ہینڈل توصیف احمد خان (آج کل سینئر صحافی)کے پاس ہوتا اور پچھلا پہیہ کیریئر کی مدد سے میرے  کنٹرول میں تھا۔یوں ہم آدھ پون گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد یونیورسٹی پہنچ جاتے جہاں موجود چپڑاسی میر صاحب کی سائیکل کو احتیاط کے ساتھ پارک کر دیتا۔اس زمانے میں صدر شعبہ ڈاکٹر عبد السلام خورشید بھی تھری پیس سوٹ پہن کر سائیکل چلاتے ہوئے یونیورسٹی آیا کرتے تھے۔

پروفیسر وارث میر ہماری کلاس کو لینگویج اینڈ لٹریچر (زبان اور ادب)پڑھا تے تھے۔ان کے لیکچر دلچسپ،معلوماتی اور موضوع سے ہم آہنگ ہوتے تھے ۔ بھرپورتیاری کے بعد کلاس میں داخل ہوتے ہی چھا جاتے تھے ۔ انداز خطیبانہ تھا ۔ لیکن ہمارے سوالات کے جواب مشفقانہ لہجے میں عنایت فرماتے ۔ کلاس میں طالبات کی اکثریت تھی اور آغاز میں ابتدائی دوقطاریں ان کے لیے مخصو ص ہو گئیں۔لڑکے تیسری قطار میں باادب انداز میں براجمان ہوتے تھے ۔ میر صاحب لیکچر کے دوران زیادہ ترتیسری قطار پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتے۔ لیکن چندہفتوں کے بعد جب قطاریں تتربتر ہو گئیں تو میر صاحب کی نگاہ میں سب یکساں ہوگئے ۔ جلد ہی میر صاحب کا ہماری کلاس سے دو طرفہ ابلاغ استوار ہو گیا تو زیادہ کھل گئے۔

 پروفیسر وارث میر بنیادی طور پر ایک غیر نصابی ٹیچر تھے۔انہیں احساس تھا کہ طالب علموں کے نزدیک سلیبس کی اہمیت صرف پینتالیس منٹ کے پیریڈ تک محدود ہے لیکن نصاب میں سے ابھرنے والے بظاہر غیر نصابی سوالات کی مدت حیات کا تعین مشکل ہے ۔ انہو ںنے بھری کلاس میں ایسے موضوعات پر بھی اظہار رائے کی جرات کی جنہیں بعض اساتذہ حفظ ماتقدم کے طور پر نظر انداز کرجاتے تھے۔ پروفیسر وارث میرصاحب کا آبائی تعلق شہراقبال سیالکوٹ سے تھا لیکن انہوں نے اس تعلق پر کبھی فخر یا تاسف نہیں کیا۔دراصل انہیں اقبال کے شہر کی نسبت اقبال کی فکر سے زیادہ عقیدت اور لگائو تھا۔میرے خیال سے وارث میر صاحب نظریاتی لحاظ سے سچے اور بھرپور پاکستانی تھے ۔ انہوںنے کلاس روم یا غیر نصابی اجتماعات میں طالب علموں کے سامنے کسی’’ازم ‘‘کا پرچار نہ کیا تاہم سیاسی ، معاشی اور سماجی نظریات پر کھل کر گفتگو فرمایا کرتے۔سقوط ڈھاکہ کے سانحہ نے ہر پاکستانی کی طرح انہیں بھی ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس سانحہ کے بعد جمہوری تماشے اور مارشل لاء کے حبس میں پرورش پانے والی مافوق الفطرت سیاسی مخلوق نے انہیں زک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔میں 1973ء سے پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ آئی

 ایس پی آر سے منسلک تھا۔1981ء کے اوائل میں میری تعیناتی لاہور ہو گئی اور یوں استاد محترم وارث میر صاحب سے ملاقات کے مواقع زیادہ ملنے لگے ۔ ایک روز میں ڈیوس روڈ پر واقع اک اخبار کے دفتر میں کسی خبر تصویر وغیرہ کی اشاعت کے لئے نیوز روم میں بیٹھا تھا کہ شعبہ صحافت کے ایک اور سابق طالب علم اظہر زمان بھی آگئے۔ یہ اس وقت لاہور میں امریکی اطلاعاتی مرکز (یو ایس آئی ایس)میں  تعلقات عامہ کے افسر تھے ۔ ہم دونوں اپنے فرائض سے فارغ ہو کر سیڑھیاں اتر رہے تھے کہ پرو فیسر وارث میر صاحب سے ملاقات ہوگئی ۔حسب معمول گرم جوشی سے پیش آئے ۔حال احوال پوچھتے ہوئے اخبار کے دفتر سے باہر آئے تو اظہر زمان نے امریکی اطلاعاتی مرکز کی گاڑی میں یونیورسٹی کیمپس پہنچانے کی پیش کش کی ۔ میرے پاس آرمی کی جیپ تھی ۔ میں نے بھی مودبانہ انداز میں اصرار کیا ۔ وارث میر صاحب نے ہم دونوں کی جانب مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا اور فرمانے لگے کہ تم دونوں نے بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے ۔کچھ توقف کے بعد ہم سے ہاتھ ملایا اورتیزی سے ایک آٹورکشے کی طرف بڑھے اور اس میں سوا ر ہوکر یونیورسٹی روانہ ہوگئے۔ہم دونوں سکتے میں آگئے اور انہیں جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔

میری پڑھائی اور نوکری کی سمت ایک تھی ۔ کبھی کبھار رپورٹنگ کی ڈیوٹی بھی مل جاتی تو اندازہ ہوتا تھا کہ فیلڈ میں نیوز رپورٹر کی کس قدر اہمیت ہے۔ خاص طور سے1970ء کے قومی انتخابات میں لاہور کے مختلف حلقوں کے بارے میں خصوصی رپورٹس کی تیار ی کے لیے سینئر رپورٹرز کے ہم رکاب رہے ۔ یہ میرا ایک انتہائی مفید تجربہ تھا۔ ایک روز ہم چند دوستوں نے مشرقی پاکستان کی ’’غیر سرکاری  سیر‘‘کا پروگرام بنایا۔ بنیادی وجہ حالات کا بچشم خود جائزہ لینا تھا ۔ یہ چھ رکنی وفد تھا جس میں شعبہ صحافت کے طالب علم ارشد علوی،اجمل ملک،مقبول احمد ، فاروق خان ، فلسطینی طالب علم سلیمان اور میں شامل تھے ۔ ہم چھ طالب علموں نے پہلے زادراہ جمع کیا جس میں سب سے زیادہ حصہ لاہور کی ایک اہم سماجی شخصیت رانا نذر الرحمن کا تھا۔ انہوں نے ہماری کاوش کو بہت سراہتے ہوئے ڈھاکہ میں بھی اپنی کمپنی کے ذریعے رہائش کا انتظام کر دیا۔مشرقی پاکستان کا یہ دورہ بیک وقت معلوماتی اور تفریحی تھا ۔ ہم نے ڈھاکہ سے کاکس بازار بذریعہ سڑک سفر کیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات کی جانب سے دیئے گئے ایک استقبالیہ میں بھی شریک ہوئے ۔ دوستانہ ماحول میں تلخ باتیں بھی ہوتی رہیں ۔ ایک موقع پر چند طلبا نے ’’بنگلہ بنگلہ‘‘کے نعرے لگائے ۔ ہم نے اردو رسم الخط میں بنگلہ زبان کے چند دل موہ لینے والے جملے لکھ رکھے تھے ، یہ جملے جونہی ہال میں گونجے توسب نے تالیاں بجانا شروع کردیں۔ قیام کے دوران رات گئے بازاروں میں گھومنا معمول تھا ۔ ابھی مجیب ، بھٹو تنائو کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ مارشل لاء نافذ تھالیکن سیاسی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں ۔ اخبارات من پسند صحافت کر رہے تھے۔ جمہوریت کی بحالی کا نعرہ سیاست اور صحافت میں یکساں موجزن تھا۔ ہم تقریبا ًدس روز مشرقی پاکستان میں رہے ، تب ذہن میں دور دور تک یہ خوف اور شائبہ تک نہیں تھا کہ یہ سرسبز خطہ ایک برس کے بعد حتمی جدائی کے سفر پر گامزن ہو جائے گا۔ واپسی کے بعد میں نے نوائے وقت اور ہفت روزہ چٹان میں روداد سفر تحریر کی ۔ ایک مضمون میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں ’’بنگلہ دیش‘‘کے نعرے کا ذکر بھی کیا۔ اس کے علاوہ کرنافلی کے ریسٹ ہائوس کے قریب واقع سکول کے بنگالی بچوں کی مد ھرآوا ز میں علی الصبح پاک سرزمین شادباد کی گونج کو بھی بیان کیاگیا ۔

مشرقی پاکستان کے کامیاب دورے کی پوری یونیورسٹی میں دھوم تھی۔اساتذہ یا طلبہ و طالبات میں سے کوئی علیحدگی کے خدشات کا اظہا رکرتا تو ہم اپنے دورے کی سحر انگیز روداد بیان کرنا شروع کردیتے تھے ،شاید حالات کو ہم سرسری اندازمیں دیکھ رہے تھے ۔1970ء کے قومی انتخابات سرپر تھے۔لاہور میں متعدد معرکہ ہائے حق و باطل برپا تھے۔پیپلز پارٹی کے بانی اور چیئرمین ذوالفقار علی کے جلسے جلوس مغربی پا کستان میں پرہجوم ہوتے تاہم انہوں نے مشرقی پاکستان کو نظر انداز کئے رکھا۔یہی حال عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کا تھا جو مشرقی پاکستان کے طو ل وعرض میں اپنی سیاسی حاکمیت قائم کر چکے تھے۔انتخابات میں ایک تیسرا فریق اسلام پسند جماعتیں تھیں جن میں سرفہرست جماعت اسلامی تھی جو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی قیادت میں انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے تھی۔ انہوںنے ’’شوکت اسلام‘‘کے بینر تلے زبردست جلسے جلوس کئے اور ریلیاں نکالیں۔ انتخابات مکمل ہوئے تو وطن عزیز کو ایک تشویشناک مینڈیٹ کا سامنا تھا ۔ سیاسی لحاظ سے ملک واضح طور پر دو اکائیوں میں تقسیم ہو چکاتھا۔ صدر پاکستان اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل آغامحمد یحییٰ خان شفاف انتخابات کا کریڈٹ لے رہے تھے ، بعض سیاسی دانشور صورتحال کو ملک کے مستقبل کے لئے ’’منفی‘‘قرار دے رہے تھے۔جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کو مستقبل کا وزیر اعظم قرارد ے دیا تھا ۔ یہ صورتحال سیاسی لحاظ سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے لئے ناقابل قبول تھی ۔

 انہوں نے پہلے دبے لفظوں اپنے خدشات کا اظہار کیا اور کچھ عرصے بعد سخت موقف اپنایا جس کا مقصد قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس سے قبل بعض سیاسی معاملات پر اکثریتی پارٹی عوامی لیگ سے ’’بھائو تائو‘‘کرنا تھا ۔ مزید برآں بھٹو صاحب نے پنجاب کے شہریوں کو خوش کرنے کے لئے بھارت مخالف بیانات دینے شروع کردیئے تھے ۔ اس دوران بھٹو صاحب ڈھاکہ بھی گئے جہاں انہوں نے پارٹی کے سینئر اراکین کے ہمراہ عوامی لیگ کے وفد سے مستقبل کے سیاسی ڈھانچے پر بات چیت کی ، وفد کی قیادت شیخ مجیب الرحمن کر رہے تھے ۔ یہ مذاکرات 24جنوری1971سے 29جنوری1971ء جاری رہے۔ 30جنوری71ء کو لاہور ایئرپورٹ پر انڈین ایئر لائنز کا مسافر بردار طیارہ لینڈ کر گیا جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اسے کشمیری مجاہدین اشرف اور ہاشم نے اغوا کیا ہے اور مطالبات تسلیم ہونے تک مسافر رہا نہیں ہوں گے ۔ یہ غیر معمولی صورتحال تھی ۔ بھارتی حکومت سیخ پا تھی ، لاہور کے عوام کا جوش وخروش عروج پر تھا ۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھٹوصاحب بھی کشمیری ہائی جیکرز سے ملاقات کے لئے ایئرپورٹ پہنچ گئے ۔ انہوں نے نیک خواہشات کا اظہار کیا ، بھٹو صاحب کی ہائی جیکرز سے ملاقات نے ان کی مقبولیت میں زبردست اضافہ کر دیا۔اخبارات کے فرنٹ صفحات تصویروں سے بھر گئے ۔ دوسری جانب عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمن نے اس واقعے پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے مسافروں کی رہائی کی اپیل کی ۔ ایئر پورٹ پر صورتحال گھمبیر تھی ۔ سیکورٹی ادارے بھی الرٹ تھے تاہم حکومت کسی براہ راست ایکشن کے حق میں نہ تھی۔ ہاشم اور اشرف لاہوریوں کی آنکھ کا تارابن گئے تھے ۔ میں بھی اخبارکی جانب سے ر پورٹنگ کی ڈیوٹی پر مامور تھا۔ہائی جیکروں نے پہلے مسافروں کو خیر سگالی کے طور پر رہا کر دیا ۔ یہ اقدام انسانی بنیادوں پر اٹھایا گیا تھا کیونکہ مسافروں میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ بعدا زاں اس مسافر بردار جہاز کو ہائی جیکروں نے آگ لگاکر تباہ کر دیا۔ بھارتی حکومت نے اس کارروائی کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان مسافر بردار جہازوں کو بھارتی فضائی حدود کے استعمال سے روک دیا ۔ یوں پاکستانی مسافر بردار جہاز سری لنکا کے راستے ڈھاکہ (مشرقی پاکستان )جاتے تھے ۔ ہائی جیکر زہاشم اور اشرف لاہور ایئرپورٹ پر آپریشن کے بعد ایک کھلے ٹرک پر سوار ہوئے اور لاہور کی شاہراہوں پر لاکھوں کے جلوس میں ہاتھ ہلاہلاکر عوامی جذبات کا جواب دے رہے تھے ۔لاہور میں عجب کیفیت تھی ۔ انہیں میکلوڈ روڈ کے ایک ہوٹل میں لے جایا گیا جہاں مقامی کشمیری قیادت نے انہیں خوش آمدید کہا ۔ یہ کشمیر ی رہنما مقبول بٹ کی جماعت سے تعلق رکھتے تھے ۔میں نے پہلی پریس کانفرنس میں بھی شرکت کی ۔ کچھ عرصہ بعد ہاشم، اشرف اور مقبول بٹ کے بارے میں متضاد خبریں آنا شروع ہو گئیں۔ کچھ سیاسی حلقے اسے بھارتی انٹیلی جنس کی کارروائی قرار دے رہے تھے تاکہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے مابین فضائی رابطے کو پرخطر اور طویل بنا دیاجائے ۔ بھارت اپنے مشن میں کامیاب دکھائی دیا۔ ہم1970ء کے انتخابات کے بعد سہانے سیاسی خواب دیکھ رہے تھے لیکن دشمن 71ء کے آغاز سے ہی1965ء کی جنگ میں ناکامی کا بدلہ لینے کے لئے طویل منصوبہ بندی کر چکا تھا۔70ء کے انتخابات کے نتائج کو دشمن نے  اپنے حق میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔بدقسمی سے دونوں بڑے لیڈر شیخ مجیب الرحمن اوربھٹو دوقبائلی سرداروں کی مانند آمنے سامنے آگئے تھے ۔ شیخ مجیب الرحمن پر لاکھ الزام لگائے جاتے ہیں لیکن سیاسی حقائق ان کے حق میں تھے ۔ عوامی لیگ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی اسے حکومت بنانے کا مکمل اختیار اور حق تھا۔ بھٹو صاحب عوامی لیگ سے نصف سے بھی کم نشستیں حاصل کرنے کے باوجود بنگالی قیادت کو للکار رہے تھے ۔ یوں وطن عزیز کو سیاسی آتش فشاں کا سامنا تھا۔مارشل لاء حکومت آزادانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کرانے پر پھولے نہیں سما رہی تھی لیکن انتخابات کے نتائج پر عمل درآمد کروانے کے معاملے میں فیصلہ کن کردار ادا نہیں کر سکی ۔ صدر جنرل یحییٰ خان نے متعددبار شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقاتیں کیں لیکن انہیں ’’ربط باہمی‘‘پر قائل نہیں کر سکے۔ مشرقی پاکستان روز بروز’’آگ بگولہ‘‘ہو رہا تھا ۔دشمن کے سہولت کار ، آلہ کار اور کئی مقامات پر براہ راست بھارتی اہلکار بھیس بدل کرمشرقی پاکستان داخل ہو چکے تھے ۔ ان کو امن وامان کے مسائل بڑھانے کی ڈیوٹی سونپی گئی تھی تاکہ فوجی دستے اندرونی سلامتی کی ڈیوٹی پر تعینات کئے جائیں۔ صدر یحییٰ خان نے صورتحال کا درست ادراک کئے بغیر ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے مجوزہ اجلاس کو ملتوی کر دیا۔ اس سے قبل بھٹو نے مغربی پاکستان کے شہروں میں بڑے جلسوں سے خطاب کر تے ہوئے ڈھاکہ اجلاس میں شرکت کرنے والوں کو جارحانہ انداز میں دھمکیاں دیں ۔پیپلز پارٹی کی جانب سے احمد رضا خان قصوری واحد ایم این اے تھے

 جنہوں نے بھٹو صاحب کے اس فیصلے کی کھلم کھلا مخالفت کی اور اسے ملک دشمنی کے مترادف قرار دیا ۔ احمد رضا قصوری کے اس رویے کے باعث ان کی بھٹوصاحب سے ذاتی کشمکش کا آغازبھی ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں احمد رضا خان قصوری کے مطابق ان کے والد پر لاہور میں آتشیں اسلحہ سے حملہ کیا گیا ۔ جس میں نواب محمد احمد خان جانبر نہ ہوسکے ۔ احمد رضا قصوری نے قتل کی ایف آئی آر میں بھٹو صاحب کو مرکزی ملزم نامز د کر دیا ۔ بعد ازاں جنرل محمد ضیاء الحق کی حکومت کے دوران اس ایف آئی آر کی بنیاد پر بھٹو صاحب کو قتل کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں سزائے موت ہو گئی ۔ ہماری تاریخ کے بعض واقعات اپنے دامن میں عجیب پس منظر کے حامل ہیں۔مشرقی پاکستان میں حالات قابو سے باہرہو چکے تھے ۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں انتخابات میں واضح کامیابی کے باوجود ابھی تک پری الیکشن موڈ میں تھیں ۔ قائدین کے اشتعال انگیز بیانات سے کشیدگی میں اضافہ ہوتا گیا ۔مارچ71ء میں قومی اسمبلی کا مجوزہ اجلاس ملتوی ہونے کے بعد مشرقی پاکستان کے شہریوں کو یقین ہو گیا کہ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے اقدامات سے پاک فوج کا وقار اور کریڈیبلٹی شدید متاثر ہوئے ۔ بھٹو صاحب اپنے ہدف یعنی ہر قیمت پر اقتدار کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے ،تاہم  پاک افواج کو بھٹو صاحب کی ’’جیت‘‘کا راستہ ہموار کرنے کے لئے بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ 1971ء میں سال بھر کے واقعات اس حقیقت کے غماز ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کی باہمی کشمکش نے مشرقی پاکستان میں قیام پذیر شہریوں اور پاک افواج کو شدید نقصان پہنچایا ۔مشرقی پاکستان میں لاکھوں بنگالی دربدر ہوئے ۔ آپریشن’’سرچ لائٹ‘‘کے باعث بھارت کے سرحدی علاقے میں پناہ گزین ہوگئے۔ بھارت پہلے ہی سے تیار تھا ۔ مکتی باہنی کے نام سے دستے تیار کئے گئے جنہوں نے پاکستان آرمی کے خلاف چھاپہ مار کارروائیوں میں حصہ لیا ۔ مارچ71کے بعد بھی جنرل آغا محمد یحییٰ خان اس زمانے کی ملٹری ہائی کمان کو صورتحال کا صحیح ادراک نہیں ہو سکا تھا۔ انہوں نے اقتدار عوامی لیگ کے حوالے کرنے کے بجائے بھٹو صاحب کے ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے لیے اپنے ادارے کی عزت، نیک نامی اور شہرت دائو پر لگا دی۔ یہ تاریخی حقائق ہیں۔ بدقسمتی سے 71ء کے سانحہ کے بعد بھی بھٹو ،ملٹری الائنس برقرار رہا اور مغربی پاکستان کو پاکستان تصور کرتے ہوئے اقتدار بھٹوصاحب کے حوالے کر دیا گیا ۔ اس کار خیر میں لیفٹیننٹ جنرل گل حسن اور پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان پیش پیش تھے ۔سیاست کے عجب انداز ہیں کہ بھٹو صاحب نے اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد سب سے پہلے لیفٹیننٹ گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان کو غیر تقریبی انداز میں رخصت کیا ۔ مشرقی پاکستان میں غیر یقینی صورتحال کی طوالت میں وہاں پر تعینات لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان کی حکمت عملی کو بھی کافی عمل دخل رہا۔ سانحہ ڈھاکہ کے بعد یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ جنر ل یحییٰ خان کو مشرقی پاکستان میں جب جنرل ٹکا خان کی ضرور ت تھی تب لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان کو بھیج دیا۔ موصوف مزاجا ً دانش ور اور عملا ً صلح جو قسم کی شخصیت تھے ۔ سنا ہے کہ انہیں چار پانچ زبانوں پر عبور تھا۔ کتابوں کے دلدادہ تھے ۔ بنگالی زبان بھی جلد سیکھ لی تاکہ شیخ مجیب الرحمن اوردیگر بنگالی رہنمائوں سے گفتگو میں آسانی رہے۔ بدقسمتی سے جب صاحبزادہ یعقوب علی خان کو بنگالی زبان پر عبور حاصل ہوا تب بنگالی عوام نے ان کی بات سننے سے انکار کر دیا۔ مشرقی پاکستان میں ’’موجود‘‘بعض بھارتی فوجی افسروں نے بعد ازاں اعتراف کیا کہ 1970ء کے انتخابات کے دوران ہی بھارت نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سیاسی اور عسکری اقدامات شروع کر دیئے تھے ۔ بدقسمتی سے اسلام آباد تمام تر معلومات کے باوجود مناسب جوابی اقدامات سے گریزاں رہا ۔محض آرمی آپریشن سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے ۔ مشرقی پاکستان میں متحدہ پاکستان کے حامی عناصر میں زیادہ ترجماعت اسلامی،مسلم لیگ اور نظام اسلام پارٹی سمیت دیگر’’اسلام پسند‘‘تنظیموں کے اراکین شامل تھے ۔ ان کے علاوہ غیر بنگالی افراد کی کثیر تعداد شامل تھی ۔ متحدہ پاکستان کے حامیوں پر بھارت نواز عناصر نے ظلم و تشدد کی انتہاء کر دی ۔ ان میں سے کئی آج بھی قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ 71ء کے واقعات کو بنیاد بنا کر عوامی لیگ کی’’ بدلہ پالیسی ‘‘کے باعث آج تک پھانسیاں جاری ہیں ۔اردو بولنے والے بھی تختہ مشق بنے ۔ یہ زیاد ہ تر غیر منقسم ہندوستان کے صوبہ بہار سے ہجر ت کر کے مشرقی پاکستان میں منتقل ہوگئے تھے۔ انہیں بد ترین قسم کے سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ متحدہ پاکستان کی محبت میں انہوں نے متعدد بار ہجر ت اور موت کو گلے لگایا ۔ آج بھی ڈھاکہ کے قرب  وجوار میں بہاری کیمپ کے مقیم اسلام آباد کی جانب دیکھ رہے ہیں ۔ آنے والی نسلوں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور بنگلہ دیش کو ہی اپنا وطن سمجھ کر گھل مل گئے ہیں۔

مشرقی پاکستان میں جاری جنگ کا ایک باب16دسمبر1971ء کو افتتاح پذیر ہوا ۔ پاک افواج کی ایسٹرن کمانڈ نے لیفٹیننٹ جنرل امیر عبد اللہ خان نیازی کی قیادت میں بھارت اور بنگلہ دیش (مکتی باہنی)کی مشترکہ کمان کے حکم پر ہتھیار رکھ دیئے کیونکہ مزید جنگ جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ بھارت واضح برتری کے ساتھ تمام محاذوں پر موجود تھا ۔ پاکستانی افواج کے لڑاکا دستے 35ہزار کے لگ بھگ تھے ۔ اس کے علاوہ سول آرمرڈ فورسز اور پولیس اور رضاکار وغیرہ بھی تھے ۔ جنگی قیدیوں کی تعداد 90ہزارتھی جنہیں مرحلہ وار بھارت منتقل کر دیا گیا۔

جنگ ستمبر65ء کے دوران عوام کو خوش کرنے کے لئے ایسی کہانیاں عام کر دی گئی تھیں کہ جن میں بیان کیاجاتا تھا کہ فلاں پل پر جب دشمن کے جہا ز بمبار ی کررہے تھے تو ان کے پائلٹس نے دیکھا کہ سبز چوغے والے بابے بم کیچ کر کے ادھر ادھر پھینک رہے تھے ۔ ایک روز سینکڑوں شہری

 ایک ہسپتال میں بھارتی فوج کے ان گرفتار زخمی فوجیوں کو دیکھنے کے لیے امڈ آئے جن کے بارے میں یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ ان کے جسموں پر تلوار سے زخم آئے ہیں ، وغیرہ وغیرہ۔ڈاکٹروں نے بڑی مشکل سے لوگوں کو قائل کیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔یوں ہم جناتی کہانیوں کا من و سلویٰ

 نوش جاں کرکے میٹھی نیند سورہے تھے کہ 1971ء سر پر آن پہنچا ۔ سیاسی اور ابلاغی میدان میں ہماری تیاری صفر تھی ۔ لہذا دنیا بھر میں ہماری رسوائی ہوئی اور سبق یہ ملا کہ سیاسی ، عسکری،معاشی اور ابلاغی حقائق سے آنکھیں بند کر کے فاتحانہ پیش قدمی کی امیدیں کرنا خودفریبی کے مترادف ہے۔

میں1971ء کے آغازہی میں پنجاب یونیورسٹی سے فارغ ہو چکا تھا اور نوائے وقت سے ’’برطرف ‘‘۔ دراصل جنرل یحییٰ خان کے دور میں  صحافیوں کی ایک ملک گیر ہڑتال ہوئی تھی اور مطالبات اور مسائل وہی قدیمی جو آج تک چلے آرہے ہیں۔ نوائے وقت میں ہم محترم سید ظہور عالم شہید کے ’’پیر و کار ‘‘تھے ۔ وہ عملی صحافت میں ہمارے لیے استاد کے درجے پر فائز تھے ۔ہڑتال کے دوران اخبارکی انتظامیہ نے متعدد سرگرم ورکرز کو نکال باہر کیا جن میں اجمل ملک اور میں(صولت رضا)سرفہرست تھے ۔ صحافیوں کی برطرفی کے بعد لاہور میں صحافیوں کے دو اخبار جاری کئے گئے ۔ ایک روزنامہ ’’جاوداں‘‘تھا جسے ظہور عالم شہید اور ان کے قریبی رفیق جناب بشیراحمد اور ارشدکی سربراہی حاصل تھی ۔ میں اور اجمل لک روزنامہ جاوداں میں آگئے۔ دوسرا اخبار روزنامہ آزاد تھا جس کے کرتا دھرتا محترم عبد اللہ ملک ،جناب حمید اختر ، نذیر ناجی صاحب اور عباس اطہرصاحب تھے ۔ ابھی مشرقی پاکستان الگ نہیں ہواتھا اور اخبارات بھی متحدہ پاکستان ہی کی صحافت میں مصروف تھے ۔ معاشی لحاظ سے یہ بڑا کڑا وقت تھا ۔ ہم زیادہ تر پیدل چلتے اور روزنامہ جاوداں کو کامیاب کرنے کے لئے رپورٹر ، سب ایڈیٹر اور کبھی کبھار ضمیمہ نکلتا تو ہاکر کے فرائض بھی انجام دینا شروع کر دیتے تھے ۔ ایک جانب اساتذہ سے عقیدت اور احترام کا رشتہ تھا تو دوسری حقیقت خالی جیب تھی ۔ ایک روز میرے والد صاحب نے خوب لتاڑا۔ پروانہ ملازمت پر تنخواہ چارسوپچیس روپے درج تھی لیکن کئی ماہ سے محض ایک ماہ یا پندرہ دن کی تنخواہ کی امید لگائے بیٹھے تھے۔دوست احباب سے ادھا ر لے کر کام چل رہا تھا ۔ والد صاحب کو تشویش تھی کہ میں تنخواہ کی رقم اجاڑ رہا ہوں۔ کیونکہ 1970-71ء میں یہ معمولی پیسے نہیں تھے ۔ ’’رضی کے ابا‘‘یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے کہ کرہ ارض پر کوئی نوکری ایسی بھی ہوسکتی ہے جہاں صبح سے شام تک کام کرنے کے باوجود تنخواہ نہ ملتی ہو۔بہر حال ایک روز رات گئے اجمل ملک اور میں پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے میکلوڈ روڈ اور ایبٹ روڈ کے سنگم پر واقع ایک دال چاول کے ٹھیلے پر گئے اور ایک پلیٹ کا آرڈر دے دیا ۔ ساتھ دو چمچ بھی طلب کئے ۔ ٹھیلے والے نے ہماری طرف دیکھا اور کہنے لگا تم دونوں یہ ساتھ والے اخبار سے ہو؟ کیونکہ اس اخبار سے جوبھی یہاں آتا ہے وہ ایک پلیٹ کے ساتھ دو چمچ مانگتا ہے ۔ شاید ایک روپے کی پلیٹ تھی ۔ ہم دونوں نے خاموشی سے چاول کھائے اوردوبار ہ اخبار کار خ کیا ۔ رہائش کے لئے سجا د میر کا کمرہ تھا جہاں ہم زمین پر بستر لگاکر کمرسیدھی کرتے ۔ خوش قسمتی سے میر صاحب کی سخاوت کے باعث ہفتے میں دو تین مرتبہ گوالمنڈی کا ناشتہ یا رات گئے مچھلی کباب تناول کرنے کے مواقع مل جاتے تھے ۔

اکتوبر1971ء میں وطن عزیز جنگی ماحول سے گزر رہا تھا ۔ مشرقی پاکستان سے ’’خوش گوار‘‘اطلاعات موصول ہو رہی تھیں ۔ شورش زدہ علاقوں پر بظاہر کنٹرول ہو چکا تھا ۔ لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان کے بعد بھرپورا ٓپریشن کے لئے لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان کو ایسٹرن کمانڈ کی کمان دی گئی تھی۔ انہوں نے نامساعد حالات کے باوجود حالات پر عسکری برتری حاصل کر لی تھی ۔ لیکن بھارتی اثر ورسوخ کا مکمل قلع قمع نہیں کیا جا سکا کیونکہ مقامی آبادی کی اکثریت متحدہ پاکستان کے

 ساتھ اپنا ناطہ توڑ چکی تھی۔ جنرل ٹکا خان کے بعد جنرل نیازی کو کمان دی گئی ، انہوں نے بھی جاری پلان پر ہی عمل درآمد کو فوقیت دی ۔ بات جنگی ماحول کی ہورہی تھی ۔ مغربی پاکستان بالخصوص لاہور میں فاتحانہ کیفیت تھی، ظاہر ہے کہ خبریں یکطرفہ انداز میں نمایاں کی جارہی تھیں ۔ ہم تین چار دوستوں نے آرمی میں کمیشن کے فارم داخل کردیئے ۔ اجمل ملک شامل نہیں تھے ۔ انہوںنے صوبہ سرحد(موجودہ خیبر پختونخواہ)کے صوبائی محکمہ اطلاعات میں ملازمت کے لئے درخواست دائر کی تھی ۔ کمیشن کے ابتدائی امتحانات میڈیکل وغیرہ لاہور ہی میں ہوئے ۔ آخر کار دسمبر1971ء کے پہلے ہفتے میں آئی ایس ایس بی کو ہاٹ کی کال آگئی ۔ آئی ایس ایس بی کوہاٹ میں چار روز قیام رہا متعدد نوعیت کے فنی ، نفسیاتی اور کسرتی امتحانات کا سامنا رہا۔ فائنل انٹرویو میں بورڈ کے سربراہ نے پوچھا کہ ایم اے جنرل ازم اور ورکنگ جرنلسٹ فوج میں کیا کرے گا؟میں نے گفتگو کے دوران محسوس کیا کہ میرے روایتی جوابات سے اراکین مطمئن نہیں ہیں اور بار بار اصرار کر رہے تھے کہ اگرفو ج میں آنا ہی تھا تو زیادہ سے زیادہ گریجوایشن کے بعد درخواست دے سکتے تھے ۔ یہ ایم اے جرنل ازم تو ’’مس فٹ‘‘ہوگا ۔ انٹرویو ختم ہونے کے قریب تھا کہ میں نے واضح کہا کہ اگر اخبار کی ملازمت میں باقاعدہ تنخواہ ملتی رہتی تو میں کبھی کمیشن کے لیے اپلائی نہ کرتا ۔ میرا موقف سنتے ہی اراکین نے مزید سوال داغ دیئے ۔ میرے جوابات ان کے لیے حیران کن اور ناقابل فہم تھے ۔ بہر حال ’’تھینک یو‘‘کی آواز آئی اور میں ناامیدی کی کیفیت سے باہر آگیا۔ اس زمانے میں آئی ایس ایس بی کے رزلٹ سے کوہاٹ میں ہی آگاہ کر دیاجاتا تھا ۔ فائنل انٹرویو گیارہ بجے صبح ہوا اور نتائج کا اعلان چھ بجے شام کیا گیا ۔ ہال میں تقریبا ًدو سو امیدوار تھے ۔ صرف کامیاب امیدواروں کے نمبر اور نام پکارے جارہے تھے ۔ ہال میں میرا نمبر اور نام گونجاتو یقین نہیں آیا۔ کسی نے کمر پر زو ر سے ہاتھ ماراتو میرے اوسان بحال ہوئے اورڈائس پر ایستادہ افسرسے کامیابی کا لیٹر وصول کیا۔ اگلے روز گھر ماڈل ٹائون لاہور واپسی ہوئی تو ہرطرف فضا سوگوار تھی ۔ سقوط ڈھاکہ رونما ہو چکا تھا ۔ 16دسمبر71ء ہماری قومی اور ملی تاریخ کے سیاہ ترین دن ‘مجھے کسی نے نہ مبارکباد دی اور نہ ہی شاباش ۔ہر طرف اداسی ، غم اور حسرت و یاس کا بسیرا تھا ۔ میرے والدین کی مشرقی پاکستان سے بے پناہ خوشگوار یادیں وابستہ تھیں ۔ والدہ کے آنسو رکنے میں نہیں آرہے تھے ۔ ایسے عالم میں گھر والوں نے مجھے پی ایم اے کاکول روانہ کیا ۔ لاہور ریلوے سٹیشن پر والد گرامی او راکلوتے ماموں سعید الحسن نے الوداع کہا ۔ ٹرین علی الصبح حویلیاں ریلوے سٹیشن پر پہنچی ۔ پی ایم اے کی بسیں موجود تھیں۔ سامان سر پر اٹھایا اور بس کی چھت پر مل جل کر ترتیب دیا ۔ یہ’’ ابتدائے عشق لیفٹینی‘‘ تھا۔ آگے بے شمار اندوہناک امتحانات منتظر تھے ۔ پاکستان بھارت کی جنگ اور سقوط ڈھاکہ کے باعث دوسالہ تربیتی کورس کا دورانیہ کم کر کے دس مہینے کر دیا گیا تھا۔ اب دن رات ٹریننگ پروگرامز جاری تھے ، پی ایم اے میں کیڈٹ کے شب و روز کو میں نے 1975ء میں کتابی صورت میں شائع کیا ، اس کتاب کا نام ’’کاکولیات‘‘ہے ، اس کے اب تک 30مصدقہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ غیر مصدقہ ایڈیشن کی تعداد کے بارے میں کچھ لکھنا ممکن نہیں۔ کاکولیات کی اشاعت کی کہانی بہت دلچسپ ہے ۔ دراصل یہ ایک کیڈٹ کے تربیتی دور کے بارے میں پہلی کتاب تھی جو منظر عام پرا ٓئی ۔ اشاعت کے بعد اس پر اعتراضات بھی ہوئے اور اجازت نامے کی طلبی تک بات جا پہنچی۔کاکول میں کیڈٹ لائف کے بارے میں میرا پہلا مضمون پاک فوج کے ترجمان ماہنامہ ’’ہلال ‘‘(اُ س وقت ہفت روزہ)میں ’’روٹ مارچ‘‘کے عنوان سے شائع ہوا ۔اس کے بعد ہلال کے ایڈیٹر اکرام قمر صاحب نے باوجود میری کوشش کے مجھے پیچھے مڑکر دیکھنے نہیں دیا۔ ایک کے بعد دوسری قسط اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا ۔ یوں کاکولیات کا تقریبا ً متن ہلال میں شائع شدہ تھا لہذا اجازت نامے کی پوچھ گچھ تکنیکی بنیاد پر ناکام رہی تاہم اسے حتمی ناکامی سے دوچار کرنے میں آئی ایس پی آر میں لیفٹیننٹ کرنل سید تحصیل احمد (مرحوم ومغفور)کا بھی ہاتھ تھا جنہوں نے واضح الفاظ میں کتاب کی اشاعت کے لئے کلیئرنس سرٹیفکیٹ جار ی کر دیا۔اس حوالے سے مزید تفصیلات تو میں ’’آئی ایس پی آر میں قیام کی رُوداد‘‘کے بیان میں پیش کروں گا۔

میرے خیال سے میری کتاب ’’کاکولیات‘‘کی موجودگی میں پی ایم اے کے شب وروز یہاںدہرانے کا فائدہ نہیں البتہ یہ ذکر ضروری ہے کہ ہمارا کورس 19اگست1972ء کو پاس آئوٹ ہوا۔ میں ایبٹ آباد سے لاہور گھر پہنچ گیا اور چند روز کے بعد الاٹ شدہ یونٹ 23فیلڈ رجمنٹ میں شامل ہونے کے لیے سیالکوٹ چھائونی روانہ ہو گیا۔ ابھی پاک بھارت جنگ سیز فائر کے مراحل سے گزر رہی تھی ۔ یونٹ سیالکوٹ کے محاذ پر تعینات تھی ، میرے علاوہ سیکنڈ لیفٹیننٹ جاوید ا قبال اور سیکنڈ لیفٹیننٹ سعید اصغر کو بھی 23فیلڈ رجمنٹ میں تعینات کر دیا گیا تھا ۔ یہ یونٹ فوج میں ’’گنز آف واہگہ‘‘کے تعارفی نام سے بھی پہچانی جاتی ہے ۔ اس یونٹ نے ستمبر1965ء کی جنگ میں لاہور کے محاذ پر حملہ آور دشمن کے خلاف پہلا گولہ فائر کیا تھا ۔ لاہور کی جنگ میں توپ خانے کا کردار بہت اہم اور کسی حد تک فیصلہ کن بھی تھا۔

یونٹ میں زیادہ مدت قیام نہیں ہوا ۔ ینگ آفیسرز آرٹلری کورس کے لئے نوشہرہ جانے کا حکم صادر ہو گیا۔میرے ہمراہ سیکنڈ لیفٹیننٹ جاویداقبال اور سیکنڈ لیفٹیننٹ سعید اصغر بھی تھے ۔ ہم ایک ساتھ عازم نوشہرہ ہوئے جہاں تعلیم و تربیت کا ایک کٹھن مرحلہ منتظر تھا۔میرے لئے تو یہ مرحلہ انتہائی سنگین تھا کیونکہ میں نے کبھی سائنس نہیں پڑھی تھی۔ابتداء سے ہی آرٹس مضامین کاطالب علم تھا۔پی ایم اے پاسنگ آئوٹ سے قبل کیڈٹس سے پسندیدہ یونٹ کے بارے میں دریافت کیاجاتا ہے ۔ میں نے 23فیلڈ رجمنٹ کی چوائس لکھ دی کیونکہ اس یونٹ میں میرے تایازاد بھائی سید ثمر مہدی میجر کے ر ینک پر فرائض انجام دے رہے تھے۔نوشہرہ جانے سے پہلے یونٹ میں ابتدائی تربیت کا انتظام بھی کیاگیا تھا ۔ ہم میں سے سعید اصغر سب سے زیادہ لائق نوجوان افسر تھا ۔ اس نے یونٹ کے انسٹرکٹرز کو متاثر کیا۔جاویداقبال کو بھی شاباش مل جاتی تھی ، البتہ میرے بارے میں انسٹرکٹر حوالدار کا خیال تھا کہ ’’سر،آپ تو یونٹ کے نا م پر ایک بوجھ ہی ثابت ہوں گے۔ ہم دعا ہی کر سکتے ہیں‘‘۔اس افسردگی کے ماحول میں آرٹلری سکول نوشہرہ میں رپورٹ کی تو دن میں تارے نظر آگئے۔شانے پر ایک پھول آویزاں تھا لیکن ’’رگڑے ‘‘کے لحاظ سے کیڈٹ لائف کا دورپھر لوٹ آیا تھا۔ کلاس رومز میں میجر رینک کے انسٹرکٹر تھے جن کے لیکچر اکثر سر کے اوپر سے ہی گزر جاتے تھے۔ البتہ پریکٹیکل کے دوران ہاتھ پائوں مار لیتا تھا ۔ ابھی تین ماہ ہی گزرے تھے اور تربیتی رگڑا عروج پر تھا کہ سہ پہر کی ’’ٹی بریک‘‘کے موقع پر ایک ہم جماعت کہیں سے پکوڑے سموسے لے کرآیا۔ اخباری کاغذکا لفافہ تھا ۔ بہت دنوں بعد اخبار کا ٹکڑا دیکھائی دیا۔میں نے سموسے رکابی پر رکھ دیئے اور اخبار پڑھنا شروع کر دیا ۔ اچانک میری نظر ایک اشتہار پر گئی جس میں پاک افواج کے لئے پی آر اوز کی اسامیاں مشتہر کی گئی تھیں۔مطلوبہ تعلیم اے ایم صحافت تھی ۔میں نے اخباری ٹکڑا سنبھال لیا اور اگلے روز اشتہار میں دیئے گئے پتے پر ایک خط لکھ دیا ۔ ایک ہفتے کے بعد جواب آگیا اور ہمراہ آرمی کمیشن کا فارم تھا ۔ میں نے کسی سے مشورہ کئے بغیر فارم پُر کیا اور روانہ کردیا۔ چند روز گزر گئے کہ ایک دن کلاس میں آواز گونجی کہ سیکنڈ لیفٹیننٹ صولت رضا کو کمانڈنٹ بلا رہے ہیں ۔ یہ بلاوا انتہائی تشویشناک تھا ۔ میں پی آر او کے فارم وغیرہ کو بھول چکا تھا ۔ کمانڈنٹ کے دفتر میں عسکری ضوابط کے مطابق پہنچایا گیا ۔ سامنے لیفٹیننٹ کرنل غلام حسین قائمقام کمانڈنٹ بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوںنے مجھے دیکھتے ہوئے ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دی جس کے دوران ہر دوسرے جملے کے بعد فرمارہے تھے کہ تم فوج میں رہنے کے قابل نہیں ہو۔ کبھی کمیشنڈ افسر بھی دوبارہ کمیشن کے لئے اپلائی کرتا ہے ۔ میں نے کہا کہ سر مجھے یہ فارم جی ایچ کیو کی متعلقہ برانچ نے بھیجے تھے ۔ میں نے خط میں خود کو سیکنڈ لیفٹیننٹ لکھا تھا۔قائمقا م کمانڈنٹ کی آواز گونجی کہ ’’کوئی کلرک ہوگا تمہاری طرح کا ……..اب ہم تمہارے خلاف ضابطے کی کارروئی کریں گے ‘‘۔ ایک انکوائری افسر مقرر کردیا گیا ہے ۔ تم اپنا تحریری بیان 24گھنٹے میںجمع کروادو ۔ اینڈ گیٹ آئوٹ ۔

قائمقام کمانڈنٹ لیفٹیننٹ کرنل غلام حسین کی بھرپور خاطر تواضع کے بعد سیکنڈ لیفٹیننٹ صولت رضا جب کلاس میں واپس پہنچے تو انسٹرکٹر میجر گلزار پہلے سے تیار تھے ۔ انہوں نے نصاب کی تدریس ترک کر کے غیر نصابی اندا ز میں رہی سہی کسر پوری کر دی ۔ انہوں نے پوری کلاس کو یہ مژدہ سنایا کہ ’’تمہاری صفوں میں ایک کالی بھیڑ موجود ہے جس نے آج سارے توپچی افسروں کی ناک کٹوادی ہے ۔یہ آئی ایس پی آر میں پی آر او بھرتی ہوناچاہتا ہے ۔ بھرتی سے پہلے بھر بھُرتہ بنائیں گے‘‘۔ بہر حال کسی طور لنچ بریک ہوئی تو عارضی طور پر جان میں جان آئی ۔ میں کمرہ میں واپس آیا اور اپنے ایک ہم جماعت سے مشور ہ کیا جو ایل ایل بی تھے توا نہوں نے انکوائری کاجواب تیارکرنے میں مدد کی جس میں یہ دلیل نمایاں کی گئی کہ خط و کتابت سرکاری دفاتر کے مابین ہوئی ہے ۔ اس میں افسر سے دانستہ نہیں بلکہ سہواً غلطی کا احتمال موجود ہے ۔ چند ماہ کی ملازمت کو مد نظر رکھتے ہوئے درگزر کر دیا جائے ،آئندہ افسر محتاط رہے گا۔انکوائری افسرایک سینئر انسٹرکٹر میجر تھے۔ میراخیال تھا کہ وہ بھی بھرپور ’’گولہ باری‘‘کریںگے لیکن موصوف بڑی شفقت سے پیش آئے ۔ دفتر میں موجود ایک خالی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا جو ایک

 سیکنڈ لیفٹیننٹ کے لئے اعزاز کی بات تھی ۔ انہوں نے واجبی سی تنبیہ کی جو شایدفائل کا پیٹ بھرنے کے لئے لازمی تھی ۔ اس کے بعد فائل ایک جانب رکھ کر فرمانے لگے کہ’’ تمہارا موقف درست ہے ۔ آپ بیسک کورس میں جو عرصہ رہ گیا ہے اسے مکمل توجہ کے ساتھ مکمل کریں اور یونٹ واپس جا کر دوبارہ کوشش کرنا۔ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں ایک مرتبہ غلطی کی معافی ہے ۔ وہ توتم کو مل گئی ہے‘‘…… ……………….جاری ہے  

 

 https://bit.ly/2M6dsocپہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں 

Exit mobile version