تاج برطانیہ کے دور میں بر صغیر میں برٹش آرمی میں بھرتی کیلئے گھر گھر مہم کا آغاز کیا گیا۔بھرتی کرنے والے ایک میراثی کے گھر پہنچے۔میراثی کی بیوی کو جب انہوں نے بتایا کہ ہم آپ کے پاس ملکہ برطانیہ کا پیغام ے کر آئے ہیں آپ اپنے بیٹے کو برٹش انڈین آرمی میں بھرتی کروائیں۔میراثن نے کہا میں اپنے بیٹے کو ضرور بھرتی کراؤں گی۔براہ کرم آ پ میرا بھی ایک پیغام ملکہ برطانیہ کی خدمت میں پہنچا دیں انہیں عرض کرنا کہ اگر بات ہم میراثیوں تک آن پہچی ہے تو اب آپ حکومت چھوڑ کر کوئی اور کام ڈھونڈ لیں۔
نامور صحافی سہیل وڑائچ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ نے ایک ”دن جیو کے ساتھ“ پروگرام میں ملک کے چیدہ چیدہ سیاستدانوں کے انٹر ویو ز کیے ان میں سے کوئی آپ کو غدار سیاستدان بھی ملا؟اس پر اس مرد رویش نے جواب دیا میں غداروں سے نہیں ملتا۔
بالاآخر میاں نواز شریف کی نا اہلی سے ان کے مخالفین کے من کی مراد برآئی۔انہیں نا اہل ہوئے تین ہفتے سے اوپر ہو گئے ہیں مگر آج بھی ٹی وی سکرینیں،خبارات کے صفحات اور سوشل میڈیا ان کے ذکر ِ خیر سے سے خالی نہیں ہیں۔ایسا لگتا ہے باقی دنیا میں کچھ اور ہو ہی نہیں رہا۔امریکہ پاکستان کے بارے میں کیا ارداے رکھتا ہے۔ایران کے کیا تحفظات ہیں بھارت بارڈر سے لے کر سفارتی سطح پر ہمیں کہاں لے آیا ہے۔کوئی خبر نہیں بس فکر ہے تو میاں صاحب کی مبینہ چوری کی۔میڈیا کے ساتھ ہمارے”غیر ملکی ہم وطن“ بھی پیش پیش ہیں جیسے انہوں نے یورپ اور امریکہ میں اوج ثریا کو چھو لیا ہے اور اب ہمیں بھاشن دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے پاس اتنی دولت ہے کہ ہر سول حکمران نے لوٹا اور یہ ختم ہونے میں نہیں آ رہی ۔بقول ان دانشوروں کے بے نظیر بھٹو نے اس ملک کو لوٹا ساری دولت باہر کے ملکوں میں جمع کروا دی۔ایک بات مجھے سمجھ نہیں آتی ذوالفقا علی بھٹو شہید پاکستان کے ہی نہیں بلکہ اہیشاء کے بڑے زمینداروں میں سے ایک تھے۔مشرق کی بیٹی میں بے نظیر بھٹو اپنی زمینوں کے بارے لکھتی ہیں کہ ایک انگریز حکمران ٹرین میں سفر کر رہا تھا اس نے اپنے سیکرٹری سے کہا جب ٹرین بھٹو ز کی زمینوں سے گزر جائے تو مجھے جگا دینا۔وہ انگریز سو کر جاگا تو اپنی سیکرٹری سے پوچھا کیا بھٹو کی زمینیں ختم ہو گئیں اس نے کہا نہیں ابھی نہیں آپ پھر سو جائیں ۔مغرب کی تعلیم یافتہ بے نظیر بھٹو کو آ خر کیا مصیبت پڑی تھی کہ وہ سیاست میں آئیں۔سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق وہ ملک کو لوٹنا چاتی تھیں۔دو بار وزیر اعظم بننے کے بعد محترمہ شہید نے جلاوطن رہیں۔انہوں نے اکیلے اپنے بچوں کی دیکھ بھا ل کی جبکہ آصف علی زرداری جیل میں تھے۔دولت کے چاہے کتنے ہی انبار ہوں اس گھر کا تصور کریں جس گھر میں بچے باپ کے بغیر ہی پل بڑھ رہے ہوں۔وہ عورت بھی کیا عظیم عورت تھی جو سیاسی جماعت کی باگ ڈرو سنھبالے ہوئے تھی اور تن تنہا اپنے بچوں کی پرورش بھی کر رہی تھی ۔جب وہ مشرف دور میں کراچی ائر پورٹ پر اتریں تو ان کے آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔کیا یہ آنسو دولت کی چاہ میں تھے؟وہ عظیم عورت جس نے اپنے والد کو تختہ دار جھولتے دیکھا جس کا شوہر شادی کے بعد زیادہ تر جیل میں رہا اور بٰیمار والدہ آخر کار خو د شہادت کو گلے لگا لیا وہ کتنی لالچی تھی؟ اگر وہ چاہتیں تو دنیا کے کسی بھی ملک میں شاہانہ زندگی بسر کر سکتی تھیں۔اب توآصف علی زرداری کے پاس لا تعداد دولت کے خزانے ہوں گے پھر کیا پڑی ہے کہ اپنے بچوں کو اس آگ میں جھونک رہے ہیں؟
میاں نواز شریف کا خاندان پاکستان بننے سے قبل کاروبار سے منسلک رہا ہے۔سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق وہ ایک معمولی سے کاروباری تھے ان کے پاس جتنی بھی دولت آئی ہے وہ کرپشن سے ہی آئی ہے۔سیاست میں داخلہ چاہے دنیا کاکوئی بھی ملک ہو دولت کے بغیر نا ممکن ہے۔جنرل ضیاء کی اگر نظر انتخاب میاں صاحب پر پڑی ہو گی ان کے خاندانی پس منظر کی وجہ سے ہی ایسا ممکن ہوا ہو گا۔ایک قلاش آدمی انقلابی شاعر اور ادیب توہو سکتا ہے مگر سیاستدان نہیں ہو سکتا۔
بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کوئی فرشتے نہیں تھے انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ جو روش اپنائی اس کا خمیازہ دونوں نے خوب بھگتا۔دونوں ہی جلا وطن ہوئے۔میاں نواز شریف تو اپنے والد کے جنازے کو کندھا بھی نہ دے سکے تھے۔دونوں رہنماؤں نے جلا وطنی کے دور میں چارٹر آف ڈیمو کریسی پر سائن کیے اور آئندہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کی عزت و تو قیر کرنے کی یقین دہانی کروائی۔اس ملک کی بد قسمتی کہ جب بھی کسی آدمی سے اس کو فائدہ پہنچنا ہوتا ہے اسے کوئی نہ کوئی حادثہ کا پیش آ جاتا ہے ۔ببے نظیر شہید ہوئیں تو ملک کی سیاست میں خلا پیدا ہو گیا۔ملک کو مسائل سے بے نظیر اور میاں نواز شریف ہی نکال سکتے تھے۔
بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں پر بھارت سے گٹھ جوڑ کے الزام لگتے رہے ہیں۔میاں نواز شریف کے بارے میں تو والیم کا دس کا بہت شور شرابہ تھا اس میں ان کے ملک دشمن قوتوں کے ساتھ روابط کا احوال ہے اس لیے عام نہیں کیا جا رہا تھا۔میرے خٰیال میں اسے رازمیں رکھنا ہی سب سے بڑی غداری تھی۔وہ بھی سامنے آگیا اس میں سے بھی وہی کچھ نکلا جو پہلے تھا۔ہر دور میں سول حکمرانوں پر ہی غداری کے الزامات لگتے ہیں۔امریکہ تو ہمارا مائی باپ ہے اس کے بارے میں کوئی منہ نہیں کھول سکتا البتہ بھارت سے تو ہم ہر قسم کے تعلقات ختم کر سکتے ہیں۔ڈکٹیٹر تو کم از کم بھارت سے سفارتی تعلقات ختم کر دیتے تاکہ نہ ہم میں سے کوئی وہاں جائے اور نہ ہی وہاں سے کوئی ادھر آئے۔اسرائیل کے ساتھ بھی تو ہمارے سفارتی تعلقات نہیں ہیں اس سے ہمیں کیا فرق پڑ جانا تھا۔رہی قومی دولت لوٹنے کی بات تو اب میاں صاحب کی اپنی اولاد بوڑھی ہو رہی ہے ان کیلئے اب اس عمر میں میاں صاحب کتنی دولت جمع کرتے۔جبکہ بقول شخصے انہوں نے سابقہ ادوار میں ہی اتنی دولت جمع کی وہوئی ہے۔
میں نے کہیں بھی نہیں پڑھا سنا یا دیکھا کوئی بندہ ایک ساتھ ڈاکٹڑ ،انجنئیر اور پائلٹ بھی ہے۔یا پھر کسی انسان نے پہلے کرکٹ کھیلی ہواس میں کامیابی کے بعد اس نے فٹبال کھیلا اور اس میں بھی وہ بام عروج کو پہنچا۔عمران خان سے قدرت نے جو کام لینا تھا وہ لے چکی۔وہ کرکٹ کے لینجنڈ ہیں انہوں نے شوکت خانم بنایا کمال کر دیا۔سیاست ایک سائنس ہے۔جسے سمجھنے کیلیے زندگی درکار ہے۔میرا نہیں خیال وہ اسے سمجھ پائے ہیں۔
وہ سیاسی قوتیں جو پاکستان بنانے کی مخالف تھیں انہوں نے پاکستان کو تسلیم کر لیا مگر پاکستانی عوام نے انہیں آج تک تسلیم نہیں کیا۔جماعت اسلامی سے بہتر منظم اور ایماندار کوئی جماعت نہیں ہو سکتی لیکن لوگ ان پر پاکستان بننے کی مخالفت کی وجہ سے اعتبار نہیں کرتے۔اے این پی بھی اسی صف میں ہے۔
سیاسی مخالفین نے اپنی بے قرای و ببے چینی میں میاں نواز شریف کو سیاست سے باہر تو کر دیا مگر اب تک وہ عوام کے سامنے ملک کو سیدھی راہ پر ڈالنے والا خفیہ فارمولا سامنے نہیں لا پائے۔ان کے چہروں سے پیشیمانی عیاں ہے جیسے کسی بڑے جرم میں شریک ہوگئے ہوں اور انہیں کوئی بری طرح استعمال کر گیا ہے ۔عمران خان کا یوم تشکر دوسرے دن ہی انہی کی جماعت کی خاتون رکن پارلیمنٹ کی وجہ سے یوم تفکر میں بدل گیا۔اس جلسہ میں عمران خان کی انگلی میں قیمتی پتھر کی انگوٹھی کے علاوہ اور کوئی تبدیلی نہیں نظر آئی۔انہوں نے قوم سے چھ وعدے کیے جو درجن بھر چھوٹے چھوٹے وعدوں کا مجموعہ تھے۔
کسی سیاستدان کا گاؤں میں کوئی بڑا سیاسی مخالف تھا۔اس سے کسی نے کہا جناب اسے مروا کیوں نہیں دیتے تو انہوں نے کہا میں اس کی بالکل بھی جازت نہیں دوں گا میرا دشمن بھی میرے معیار کا ہونا چاہیے۔عمران خان اور دیگر کے پاس گو نواز گو فامولہ بھی نہیں رہا۔لوگ ان سے پوچھتے ہیں اب آپ اپنی پٹاری سے وہ شاہکار نکالو جس سے ہمارے حالات سدھر سکیں۔جب کچھ بھی نہیں بن پاتا تو وہ عوام کو کم پڑھا لکھا کہہ کر وقت گزار لیتے ہیں۔یہ سیاستدان اور نام نہاد دانشور کیوں نہیں سمجھتے کہ بنیادی ضروریات ان پڑھ اور پڑھے لکھوں کی ایک جیسی ہوتی ہیں۔
میاں نواز شریف کے مخالفین کو یہ بات آخر کیوں سمجھ نہیں آئی پی پی پی جسے دو ڈکٹیٹر ضیا ء الحق اور مشرف دو صدور اسحٰق خان اور لغاری ختم نہیں پائے اسے ووٹ کی پرچی نے سندھ تک محدود کر دیا۔
وہ لوگ جو کہتے ہیں یہ ملک قائد اعظم کے بغیر بھی چلتا رہا ہے تو ان کی فہم و فراست پر رونا آتا ہے۔چلتا تو بے شک رہا ہے مگر کیسا چلتا رہا ہے اس کا بھی کوئی ادراک ہے؟ کسی گھر کا سربراہ اچانک کسی حادثہ کا شکار ہو جائے تو اس گھر کو سنبھلنے میں دیر لگتی ہے۔ملک چلانا کوئی کھیل ہے ایک نہ سہی تو دوسرا چلا لے گا۔2018کے انتخابات میں کتنا وقت رہ گیا تھا۔جو حشر پی پی پی کا ہوا تھا وہی ن لیگ کا بھی ہو جاتا۔ جلدی بازی میں لگتا ہے سبھی نے گرم گھونٹ پی لیا جس سے ہونٹ اور زبان اب جل رہے ہیں۔
ملک کا سنجیدہ طبقہ اس بات کا رونا روتا ہے کہ پاکستان جب بنا تو قائد اعظم اپنی زندگی میں ہیں چند سطریں آئین کی لکھ دیتے تو اس ملک کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔لیکن قدرت نے انہیں اس کہ مہلت ہی نہ دی۔بعد میں آنے والے تجربات ہی کرتے رہے۔جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
اگر پی ٹی ائی اور قادری کے جلسوں میں شیخ رشید نے ہی تقریریں کرنی ہیں تو ہمارا پیغام ان رہنماؤں کیلئے وہی ہے جو ملکہ برطانیہ کو میراثن نے دیا تھا۔تو پھر آپ لوگ کوئی اور کام ڈھونڈ لیں سیاست آپ کے بس کی بات نہیں۔
اہل نا اہل
پرانی پوسٹ