سربکف –عبیدہ سید کی نظر میں
راجہ انور کی شخصیت فارسی کے اس شعر کے مصداق ہے
تراش از تیشه ی خود جاده ی خویش
به راه دیگران رفتن عذاب است
(ترجمہ)
”اپنے تیشے سے پتھر تراش کر اپنا راستہ الگ بناؤ ، دوسروں کے بنائے ہوئے راستوں پر چلنا حرام ہے ”
راجہ انوار کی شخصیت کا خاص جوہر انکی ندرت پسندی . ان کے اندر تخلیقی قوت اور جدت کی حس ہے . وہ ایسے کام کرنا پسند کرتا ہے جو دوسرے نہ کر رہے ہوں . علامہ اقبال نے بھی یہی پیغام دیا
” اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے ”
نئے رستے تلاش کرنے کے لیے ندرت فکر اور عزم محکم کی ضرورت ہوتی ہے اور راجہ انوار کی ‘ سر بکف’ ایک ایسی ہی کاوش ہے . جب کوئی اہل قلم ادیب، شاعر ، افسانہ نگار کسی دوسرے کی زندگی پر قلم اٹھاتا ہے تو اس کی تحریر میں ادب کی چاشنی اور ذوق لطافت بھی پایا جاتا ہے ، اس کے باعث پڑھنے والا اس تحریر کے سحر میں کھو جاتا ہے . ایک اچھا شاعر و ادیب وہ ہے جو کوزے میں دریا بند کرے اور حقیقی تلخیوں سمیت بیان کرے ، اچھی تحریر وہی ہے جو دل کو چھو لے بلکہ انہیں تسخیر کر کے روح تک سرائیت کر جائے اور راجہ انوار کی تحریر میں یہی سب خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں . ان کی تحریریں ایسے ہیں جیسے آسمانوں سے تبسم گرتی ہے اور فضاءمیں چاندنی پھیل جاتی ہے
ان کی تحریر سربکف پڑھنے کے بعد مجھے ایسے لگا کہ راجہ انوار کا تعلق کیپٹن جاوید سے دل کا رشتہ ہے ، ذہن کا یا روح کا یا صرف محبت اور انسانیت کا ، لیکن راجہ انوار نے حق ادا کر دیا
میں سربکف پڑھنے لگی تو تو مجھے لگا جیسے فضاء میں قربانی کا نعرہ بلند ہو رہا ہے ، میں کیپٹن جاوید کو عرصے سے جانتی ہوں ، وہ میرے گھر کا ایک فرد ہے ، میں نے محسوس کیا کہ میں خود اس سے مخاطب ہوں ، میں اس کے ساتھ ساتھ زندگی کو دیکھ رہی ہوں . اس جگہ اس ماحول کی باسی ہوں . میں سفر کر رہی تھی شروع سے آخر تک ، اس کی خواہش” میری قبر کچی رکھنا ” اور اپنے بیٹے کے بارے میں خواہش کرنا کہ” جنید حافظ قران بنے اور حمزہ آرمی میں کمیشن لے” اور ” میری شہادت کے بعد تم ( یعنی سپاہی نصیر) میرے گاؤں کی مسجد میں اذان دینا میں سنوں گا ” اور بھی کئی ایسی باتیں جن کو پڑھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا رہا . میں کیوں روئی؟ جبکہ وہ شہید ہے اور ہمیشہ زندہ ہے ، لیکن میں راجہ انوار کی تحریر کی سادگی سے متاثر ہوئی ، اور میں اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکی . اس کی وجہ صاف راجہ انوار کی اپنی شخصیت بھی اس تحریر میں آئینے کی طرح واضح نظر آتی ہے. یہ نوجوان ایسا ہے اس میں نہ بناوٹ ہے نہ تصنح. یہ اپنی تربیت خود کرتا ہے اس کے کئی رنگ اور کئی جہتیں ہیں
اچھا شاعر ، اچھا ادیب ، اچھا صحافی ، اچھا دوست اور اچھا انسان ہے . دل پر چوٹ لگی ہو تو مسکرا کر دوسروں کو خوش آمدید کہنا ، اندر کے دکھ کو پل میں چھپا لینا ، رشتوں کے تقدس کو سمجھنا ، یہ صفات تو قلندرانہ ہیں . میں راجہ انوار کو مبارکباد دیتی ہوں ، ہر ایک پہلو سے خوش رہو لیکن یاد رکھنا
عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں
وضاحت : یہ تبصرہ محترمہ عبیدہ سید نے دو ہزار سات میں لکھا اور مجھ تک پہنچا مگر ایک فائل میں غائب ہو گیا . آج پرانی فائلیں دیکھ رہا تھا تو یہ نظر آیا . یہ آپ کی سماعتوں کی نذر ہیں . عبیدہ جی ایک مصنفہ، شاعرہ، ٹی وی اور ریڈیو کی جانی معنی شخصیت اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن لاہور میں سابقہ کنٹرولر کرنٹ افیئرز تھیں