جب سے امریکہ بمعہ نیٹو افغانستان کو طالبان کے حوالے کر گئے یا یوں کہیئے کہ جب سے طالبان نے امریکہ کو بمعہ نیٹو کابل بدر کر دیا میڈیا میں طالبان حکومت کی کامیابی یا ناکامی کے ساتھ ساتھ کشمیر بھی خبروں میں آنے لگا اور بھارت و پاکستان کے درمیان کشمیر پہ ایک طرف تو نئی جنگ کی چہ می گوئیاں جنم لینے لگیں جبکہ دوسری طرف دونوں ممالک کے درمیان مستقبل میں قیام امن کے خواب بھی دبے دبے لفظوں میں سنائی دئے جانے لگے ہیں ۔ جنگی ذہن کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یا تو انغانستان میں اپنی رسوائی و پسپائی کی خفت مٹانے کی خاطر بھارت پاکستان سے کشمیر کے محاذ پہ جنگ چھیڑ سکتا ہے یا پھر پاکستان طالبان کے دوبارہ آجانے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے بھارت کو جنگ میں الجھا سکتا ہے ۔ دونوں ممالک میں آئندہ کیا کوئی نئی جنگ ہونے والی ہے یا دونوں ممالک ایک دیرپا امن کی جانب بڑھیں گے؟ اس سوال کا جواب اس سارے خطے کے ماضی ، حال اور مستقبل کے مجموعی حالات کے علاوہ دونوں ممالک کی سیاسی ، دفاعی اور معاشی صورتحال میں پوشیدہ ہے جو ذیل کی تحریر میں جستجو کی متقاضی ہے۔
اگر پاکستان کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سیاسی ، معاشی یا دفاعی تمام حالات پاکستان کے عین موافق ہیں ۔ طالبان کی افغانستان میں واپسی اور امریکہ و نیٹو سمیت وہاں سے بھارت کی پسپائی و رسوائی پاکستان کے لئے ایک انمول برتری ہے ۔ بھارت جو امریکہ کی سرپرستی میں افغانستان میں پاکستان سے ملحقہ تمام صوبوں میں اپنے کونصل خانے یا جاسوسی کے اڈے اور ٹریننگ کیمپس قائم کر چکا تھا جن سے تیار کردہ جاسوسوں اور دہشت گردوں کے ذریعے پورے پاکستان بالخصوص ہمارے صوبہ بلوچستان میں بڑی سرگرمی سے مصروف عمل تھا ۔ اس کام میں اسے پاکستان میں موجود ملک دشمن غداروں کی بھی درپردہ حمایت حاصل تھی ۔ امریکی ڈرون حملوں کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان اور ہندوستانی جاسوسوں اور دہشت گردوں کی کاروائیوں کی وجہ سے پاکستان ایک انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار تھا ۔ چنانچہ پاکستان آرمی کو سوات ، جنوبی و شمالی وزیرستان کو صاف کرنے میں خاصہ وقت لگا جس کے لئے پاکستان کو ہزاروں قیمتی جانوں اور ملکی معیشت پہ بھاری بوجھ برداشت کرنا پڑا ۔ پاکستان نے بھارت کی طرف سے پھیلائی گئی دہشت گردی کے درجنوں ثبوت اقوام عالم کو مہیا کئے لیکن کہیں شنوائی نہ ہوئی کیونکہ پاکستان کے خلاف شروع کی گئی اس بدمعاشی کو عالمی طاقتوں کی مکمل شہہ حاصل تھی جو پاکستان کو داخلی انتشار میں مبتلا کرنے کے علاوہ پاکستان میں چین کی طرف سے شروع کئے گئے سی پیک کو سبوتاژ کرنا اولین ترجیح تھی ۔اب جب معجزاتی طور پہ افغانستان کے حالات نے کروٹ لی اور بھارت کو اپنی تمام انویسٹمنت سمیت وہاں سے خاک چاٹ کر بھاگنا پڑا تو یہ پاکستان کو ایک زبردست دفاعی برتری حاصل ہوئی ہے اور محفوظ افغان بارڈر سے اپنی تمام فوج کو کشمیر ، پنجاب یا سندھ بارڈر پہ لا سکتا ہے ۔ لہذا دفاعی اعتبار سے ایک ایٹمی طاقت ہونے کے علاوہ پاکستان آرمی کا مورال اس وقت انتہائی بلندیوں پہ ہے جسے پلوامہ واقعے کے بعد بھارت کی سرجیکل سٹرائیکس یا گھس کر مارنے کے غرور کو خاک میں ملانے کے بعد مزید تقویت ملی ہے ۔
اب اگر میں جنگی جنوں سے نکل کر سوچوں تو پاکستان کو ہر گز ہر گز جنگ سے گریز کرتے ہوئے کشمیر پہ سیاسی اور سفارتی محاذ پہ سرگرم رہنا چایئے اور دنیا کے ہر پلیٹ فارم پہ مسئلہ کشمیر پہ لڑنا چائیے ۔ جنگ نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ ملکی معیشت ہے ۔ ملک ابھی بھی پچھلی حکومتوں کے قرضوں اور انکے ادوار میں کی گئی کرپشن کی وجہ سے انتہائی نامساعد حالات سے گذرتے ہوئے بمشکل معیشت کو سنبھالنے کے قابل ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ کووڈ کی وجہ سے بھی ایک تکلیف دہ صورتحال سے ابھی تک گذر رہا ہے ۔ ایسے میں مستقبل قریب میں کوئی جنگ ایک ناقابل برداشت بوجھ ہوگی ۔ اس کے علاوہ سی پیک ، ہمارے گوادر پورٹ اور بجلی کے لئے شروع کئے گئے میگا پراجیکٹس سست روی کا شکار ہوسکتے ہیں ۔ اور ملکی معیشت ایسے کسی تعطل کے قابل نہیں ہے ۔ اوپر بیان کردہ سیاسی ، معاشی اور دفاعی سوچ کے علاوہ ایک بنیادی عنصر مذہبی یا انسانی سوچ کا بھی ہے اور وہ یہ کہ کشمیر بارڈر کے دونوں طرف مسلمان کشمیری بستے ہیں اور جنگ خواہ بھارت شروع کرے یا پاکستان لیکن سرحدی علاقوں سے تمام تر انخلاٗ کے باوجود ہمارے کشمیری بھائیوں کا ہی جانی نقصان سب سے زیادہ ہوگا لہذا پاکستان کبھی اپنے مسلمان بہن بھائیوں کو بلاوجہ جنگ کا ایندھن نہیں بنائے گا۔
دوسری طرف اگر بھارت کے نقطئہ نظر سے سوچا جائے تو اس کی حالت انتہائی قابل رحم ہے ۔ سیاسی لحاظ سے مودی حکومت شدید دباوٗ میں ہے ۔ افغانستان میں اتنی سرمایہ کاری کا ڈوب جانا اور وہاں سے منہ چھپا کر بھاگنا مودی حکومت کے لئے بڑی حزیمت کا باعث بن رہا ہے ۔ پنجاب کے کسانوں ، جن میں اکثریت سکھوں کی ہے ، اور خالصتان تحریک کی وجہ سے بھی بھارت ایک شکنجے میں ہے ۔ ملکی معیشت کو سب سے بڑا دھچکہ کرونا نے دیا ہے اور بھارت کا چہرہ بری طرح مسخ کر دیا ہے ۔ دفاعی لحاذ سے بھی ہندوستان گہری کھائی میں پڑا ہے ۔ چین کے ساتھ سرحدی چپقلش ، کشمیر میں گوریلہ کاروائیاں ، پلوامہ کے بعد اس کی افواج کا گرتا ہوا مورال ، ایک طاقتور ایٹمی پاکستان کا سامنا اور پھر خود اپنے ہی میڈیا میں انڈین آرمی کی کوتاہیوں اور ان کے جنگی سامان بشمول ائیر فورس پہ شدید تنقید سمیت وہ تمام عناصر ہیں جو نریندر مودی کو جنگ شروع کرنے سے پہلے دس دفعہ سوچنے پہ مجبور کریں گے۔
لیکن یہ سب کچھ کہنے کے باوجود کبھی کبھار کوئی چھوٹی سی چنگاری بھی کسی بڑی آگ کا باعث بن سکتی ہے ۔ اور عالمی سیاست میں کوئی انجانی کوتاہی بھی تباہی کو دعوت دے سکتی ہے۔ اللہ کرے مودی کا ذہنی توازن سہی رہے اور وہ عالمی فورم پہ اپنی خفت مٹانے کے لئے کوئی ایسی بھونڈی حرکت نہ کر بیٹھے جو دو ایٹمی ممالک کو تباہی کی طرف لے جائے۔ یہاں میں اپنے ذہن میں موجود ایک اور الجھن کا اظہار بھی ضروری سمجھتا ہوں اور وہ ہے مغربی پراپیگنڈہ۔۔ اس وقت امریکہ ، برطانیہ ، نیٹو ممالک اور ہنود و یہود کی تمام مشنری افغان جنگ کی ناکامی کا ملبہ پاکستان اور آئی ایس آئی پہ ڈالنے میں مصروف ہے۔ ایسے میں کہیں سے کوئی ایسی سازش بھی ہوسکتی ہے جو پہلے سے ہی ، سیاسی وجوہ کی بنا پہ ، گرے لسٹ میں جکڑے پاکستان کو مزید پابندیوں کا شکار کردے اور اپنی اسلحہ ساز صنعت کا مفاد سامنے رکھتے ہوئے انڈیا کی پیٹھ ٹھونک کر پاکستان کو سبق سکھانے کی ٹھان لی جائے ۔ لیکن اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو پھر نہ صرف یہ پاکستان کی آخری جنگ ہوگی بلکہ یہ تیسری جنگ عظیم کا بھی پیش خیمہ ہوگی جس کا بعد دنیا امریکہ افغانستان جنگ تو ایک طرف ہیرو شیما کو بھی بھول جائے گی۔