Tarjuman-e-Mashriq

ابو جی ( حصہ اول)

تحریر : شہزاد نیر
ماں باپ پر لکھتے ہوئے یادوں کے ایسے تابڑ توڑ حملے ہوتے ہیں کہ قلم شکست کھا جاتا ہے۔ کئی بار لکھنا چھوڑ کر ماضی کی لہروں پر ڈولنا اور یادوں کی رَو میں بہتے چلے جانا اچھا لگتا ہے۔ خیالوں کے سمندر میں ڈوبتے ابھرتے جو کچھ اپنے والد صاحب کے بارے لکھ سکا وہ پیشِ خدمت ہے۔
شناختی کارڈ کے مطابق ابو جی 1948ء میں پیدا ہوئے۔ اس سال کا اندراج بھی دادی کے ایک یاد داشتی بیان کا مرہونِ منّت ہے۔
’’لُوٹ مار ختم ہو گئی تھی۔ ہندو سکھ جا چکے تھے۔ اُدھر سے مسلمان آکر ہندوؤں سکھوں کے گھروں میں آباد ہو چکے تھے جب میرا محمد رفیق پیدا ہوا‘‘۔
شاید یہی سبب تھا کہ ابو جی کے شناختی کارڈ پر صرف پیدائش کا سال درج تھا۔ دن اور مہینے کا کچھ مذکور نہ تھا۔ ہوتا بھی کیسے۔ دادی دادا کو جنوری فروری مارچ آتے نہ تھے، شناختی کار ڈ  و الے پھاگن چیت، اسوج کاتک لکھتے نہ تھے !
ابو جی آٹھ سال کے ہوئے تو اپنے والد کے ساتھ کھیتوں پر جانے لگے۔ ہمارے دادا جی ٹھیکے پر زمین کاشت کرتے تھے۔ ان دنوں ابو کا کام بس کنویں کے بیل
ہنکائے رکھنا تھا۔
کنواں زندگی کے آخری برسوں تک ان کے ساتھ رہا ۔ کنویں کے آلات اور سازوسامان کے نام، تمام کے تمام، عمر بھر انہیں یاد رہے۔ وہ کنویں کو بطور استعارہ استعمال کر کے ہمیں زندگی کی کئی باتیں سکھاتے تھے۔
٭ سر پہ نگران نہ ہو تو کنویں کے بیل بھی رُک جاتے ہیں۔
٭ کاروبار کنویں کی مثال ہوتا ہے۔ ایک بالٹی پانی نکال لو یا ڈال دو، اسے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
٭ کنویں کی ماہل (زنجیر) کے ساتھ کئی ٹِنڈیں (برتن) بندھی ہوتی ہیں۔ ماہل چلتی ہے تو کوئی ٹِنڈ پوری بھری ہوئی آتی ہے، کوئی آدھی تو کوئی پونی۔ سب اپنا اپنا پانی پاڑچھے میں انڈیل دیتی ہیں۔ پھر کچھ پتہ نہیں چلتا کس نے کتنا پانی ڈالا‘‘۔ اس مثال سے وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ ساجھے کے کاروبار میں زیادہ حساب کتاب نہ کرو کہ کون کتنا کام کر رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ چلتے کاروبار میں پروڈکشن بڑھانے پہ دھیان دو کوئی آئٹم زیادہ منافع دے جائے گی تو کوئی کم۔ کنواں چلتا رہے تو پانی بہتا رہے گا۔
٭ کنواں چلا کر یہ بھی دیکھو کہ ساری ٹِنڈیں خشک تو نہیں آ رہیں (کوشش کے ثمر پر بھی نظر رکھو)۔
٭ جب کسی کام کی آمدن اُسی پر خرچ ہو جائے تو کہتے ’’کنویں کی مٹی کنویں پر ہی لگ گئی۔‘‘
ہمارے بچپن میں سردیوں کی لمبی راتوں کی ایک دلچسپ سرگرمی ’’بجھارتیں بُوجھنا‘‘ تھی۔ امّی کے پاس پہیلیوں کا وسیع ذخیرہ تھا۔
’’ماں جمّی نئیں، پُت کوٹھے تے‘‘ (ماں پیدا نہیں ہوئی، بیٹا چھت پر پہنچ گیا)
ہم سب ہار جاتے تو وہ کہتیں ’’آگ اور دھواں‘‘۔
’’ماں لیراں پتیراں، پُت تُگ مُگلا‘‘۔ (ماں کترنوں کی طرح بکھری ہوئی اور بیٹا موٹا تازہ، گول مٹول)۔
پھر یہ جانتے ہوئے کہ ہم یہ بجھارت نہ بوجھ پائیں گے، خود ہی بتا دیتیں ’’تربوز کی بیل اور تربوز”۔
(جاری)
Exit mobile version