آج کے کالم میں آزاد کشمیر کے سب سے زیادہ آبادی والے اور آہندہ انتخابات میں چھ حلقوں پر مشتمل ضلع کوٹلی کے مسائل پر چند گزار شات پیش کرنے کے جسارت کر رہا ہوں ، اس میں شک نہیں کہ پاکستان اور آزاد کشمیر میں بے شمار مسائل ہیں ان مسائل سے نبٹا آسان نہیں ہے ،لیکن ناممکن بھی نہیں ہے ،البتہ بہت سے مسائل ایسے ہیں جو ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں اگر ہم بہتر منصوبہ بندی کرکے ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے مخلصانہ کوشش کرتے اور ان میں کوئی کرپشن نہ کی جاتی یا نہ کرپشن کرنے دی جاتی تو منصوبہ جات بر وقت پایہ تکمیل تک پہنچ جاتے ، بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوتا ہماری کرپشن کی وجہ سے نہ تو یہ منصوبہ جات آسانی سے وقت پر اور کم اخراجات سے پایہ تکمیل تک پہنچ سکتے ہیں، قارئین کرام کوئی بھی پروجیکٹ ہو تو اسے بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ نیک نیتی کے ساتھ شروع کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کی پروجیکٹ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو ہمارے غیر ذمہ دارانہ اور سوچنے کی صلاحیتوں سے عاری رویوں کی وجہ سے کوٹلی مسائل کی اماجگاہ بنا ہوا ہے، ادھر اداروں کے اوپر بیٹھے ہوے لوگ بھی سفارشی اور نااہل ہوتے ہیں جن کا اپنا کوئی ویژن نہیں ہوتا اور وہ اپنی اور اپنے آقاؤں کی جیبوں کو بھرتے رہتے ہیں ، قارئین کی دلچسپی کیلے تقریباً چالیس سال قبل ہماری بلدیاتی لیڈر شپ نے شہر کے عین وسط میں (اب کچہری کے قریب) ذبیعہ خانہ بنا دیا گیاتھا اس پاس کے لوگوں کے پر امن احتجاج کے باوجود اس وقت کے انتظامیہ نے سنی ان سنی کردیا اور تیس سال لوگوں کو بد بو اور نالہ میں شہر کا گندہ اور بدبو دار پانی ڈال کر زندگیاں اجیرن بنا دی گئی تھی یہ گندہ نالہ اب بھی سارے شہر کے گند کو لے کر آبادیوں سے گزر کر دریا سے جا ملتا ہے ، آبادی کے بڑھ جانے پر چند سال قبل ذبیعہ خانہ کو نالہ بان جو اب بلدیہ کوٹلی کی حدود میں ہے لے جایا گیا تھا ، اس طرح شہر کے کوڑا کرکٹ کو موضع کہوالی اور بڑالی کے درمیان پھینکا جاتا رہا سڑک کے کنارے گندگی کے ڈھیر کی اور بدبو کی وجہ سے اب گندگی اور کوڑا کرکٹ کو اب اس علاقے کے قریب کسی اور جگہ کو منتخب کیا گیا ہے یہ جگہ بھی آبادی کے قریب ہے اس پر لوگ احتجاج کر رہے ہیں دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے ، اس وقت کوٹلی کا ایک بڑا مسلۂ سکندر حیات سپورٹس سٹیدیم کا ہے جو منصوبے کے مطابق 2009 کو مکمل ہونا تھا ،اب اس منصوبے 16 سال سے زاہد عرصہ ہوگیا اور دور دور تک اس کےمکمل ہونے کے آثار دکھائے نہیں دیتے ان سولوں سالوں میں سات وزراء اعظم آئے اور کوٹلی کے سات نمائندوں کی موجودگی میں سٹیڈیم کی ابتدا نہ ہو سکی ، قارئین کرام اس وقت آزاد کشمیر کے نوجوان بے راہ روی کا شکار ہوکر غیر اخلاقی کاموں میں پڑ کر معاشرے کیلئے درد سر بنتے جارہے ہیں، برائے مہربانی قوم کے معماروں اور مستقبل کو اس طرح تباہ نہ ہونے دیں اور کوٹلی کے اس بڑے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر نوجوانوں کو مثبت سر گرمیوں میں حصہ لینے کے موقعہ فراہم کیا جائے موجودہ حکومت اس پراجیکٹ پر توجہ دے ، قارئین کرام کیا وجہ ہے کہ مظفر آباد میرپور اور باغ میں سٹیڈیم بن گئے ہیں اور کوٹلی کا کیوں نہ بن سکا کیا کوٹلی سیاسی طور بانجھ ضلع ہے کوٹلی کے لوگوں کے ساتھ سوتیلا پن کیوں ؟ اس وقت نوجوان چھوٹے چھوٹے ناہموار اور پتھریلے میدانوں میں کرکٹ والی بال اور فٹبال کھیل کر کیا خاک آگے بڑسکیں گئے ، ان نوجوانوں کو بہتر سہولتیں مہیا کی جائیں اور سٹیڈیم کی تعمیر جلد سے جلد کی جائیے ،کوٹلی کی سڑکوں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر ہی ہیں میں خاص طور پر کوٹلی سرۂوٹہ آگے کھوئی رٹہ تک اسی طرح کوٹلی نکیال اور دیگر رابطہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، آئے روز کوٹلی کے عوام گندی نالیوں اور ان میں کھڑا بدبودار پانی جو کیچڑ بن چکا ہوتا ہے کی صفائی کا رونا روتے ہیں یہ سارے معاملات انتظامیہ محکمہ شاہرات کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ، پینے کا صاف پانی بھی ایک دیرینہ مسلۂ ہے اس مسلۂ کا حل مستقل بنیادوں پر ہونا چاہیے دریا کے کنارے آباد شہر کے لوگ صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رئیے ہیں کیا یہ کوٹلی کے لوگوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہے اللہ بھلا کرے کوٹلی کے اور اورسیز کے مخیر حضرات جنہوں نے اپنی مدد اپ کے تحت ایک درجن کے قریب ٹیوب ویل کھدوا کر لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا ہے یہ لوگ قابل تقلید ہیں، کوٹلی میں صاف پینے کے پانی کا میگا پراجیکٹ ناکام کیوں ہوا اس کی تحقیق ہونی چاہیے ، آخر میں کوٹلی میں سرکاری سکولوں کی عمارتوں کا از سر نو جاہزہ لیا جائے کہ کون سے سکول کی عمارت پرانی ہے اور یا اس کو رینویشن کی ضرورت ہے برطانیہ میں گلہار شریف اور گرد نواح کے رہاشیوں نے گرلز ہائی سکول گلہار شریف کی عمارت کو خستہ حالت قرار دیا ہے محکمہ تعلیم عمارت کا معائنہ کرائے اگر عمارت خستہ حالت میں ہے تو نئی عمارت بنائی جائے۔
کوٹلی کے مسائل
پرانی پوسٹ