Tarjuman-e-Mashriq

سکردو  سے یارانہ -2

خالد ندیم اللہ رکھی اور آتشی

دوسراحصہ

یہاں ہمیں تھوڑا سا رکنے کی اجازت دیجیئے ہم ذرا دل میں ایک نظر جھانک لیں اورلگے ہاتھوں خالدندیم سے آپ کا تعارف کراتے چلیں ۔ خالدسکردو میں ہمارے ہمدم دیرینہ رہے اور مہ وسال کی کسوٹی پر یہ تعلق دیرپا اورپائیدارثابت ہوا۔ الحمد لِلّہ آج بھی ان سے الفت اور یگانگت کا وہی عالم ہے ۔ بھلے وقتوں میں وہ ایک معروف نجی بینک کی سکردو برانچ کے مینیجرکے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ہمیں ایک عسکری ذمہ داری کے سلسلے میں ہمالیہ کے پہاڑوں سے اتارکرسکردو سے کچھ آگے گمبہ میں عارضی تعیناتی کا پروانہ ملا تھا۔ انہی دنوں کا ذکرہےکہ کسی کام کے سلسلے میں بینک جانا ہوا تو خالد سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے  بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ ایسا اتفاق کہیں اور نہیں ہوا کہ آپ بینک کے دروازے سے اندرداخل ہوں اور نظر تمام درمیانی عہدوں کی رکاوٹیں پھلانگتی ہوئی سیدھی برانچ مینیجر سے جا ٹکرائے اور مینیجر ایک خوشگوار مسکراہٹ کی اوٹ سے، اور وہ بھی اس وقت جب آپ سکردو میں ہوں، ٹھیٹھ پنجابی میں مخاطب ہوکرکہے ’آجاؤ ! سِدّھے ایدھر ہی لنگھ آؤ !‘

اب یہاں مورّخین میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ہماری طرف کے تاریخ دانوں کا اتفاق ہے کہ یہ خالدندیم کی دلکش مسکراہٹ تھی کہ ہم کشاں کشاں ان کی میز کی طرف کھنچے چلے گئے۔ جبکہ خالدندیم آج تک بضد ہیں کہ ہم بینک میں ایک مسکراتا چہرہ لیے داخل ہوئے تھے جس کی شہہ پاکر انہوں نے براہِ راست اور بلاواسطہ اپنی میز پر آنے کی دعوت دے ڈالی۔ تاریخ کی اس ضعیف روایت سے قطع نظر یہ ابتدائی ملاقات ہی اس قدرشاندارتھی کہ اس نے آنے والے وقتوں میں ایک بے غرض دوستی  اور بے لوث یارانے میں ڈھلنا تھا ۔ ہم آج بھی یاد کریں تو خالد سے پہلے ان کی مسکراہٹ ذہن میں آتی ہے۔ کچھ لوگوں کی مسکراہٹ ہونٹوں پر ٹنگی رہتی ہے۔ کچھ گہرے لوگ آنکھوں سے مسکراتے  ہیں ۔ خالد بذاتِ خود ایک ہنستا کھلکھلاتا وجود ہیں۔ آپ اس دلنواز مسکراہٹ کے بغیر خالد کا تصور نہیں کرسکتے۔ سفید ہوتے  بال اور مزید سفید ہوتی مونچھیں، چلنے اور بولنے، جی ہاں دونوں میں ایک بے نیازی اور بے فکری کا کھلنڈرا پن۔ اونچا لمبا ، لااُبالی سا قد، وہی قد جس کے بارے میں مستنصرحسین تارڑ نے ’کے ٹوکہانی ‘ میں لکھا تھا

خالد ضرورت سے زیادہ خوش ہورہاتھا ۔ شاید وہ بھی پہاڑوں میں اپنے سفرکےبارے میں کچھ فکرمندتھا۔ وہ دراز قدتھا اور ایک سفید ہیٹ اس پر ایک کاؤ بوائے کی طرح سجتا تھا ‘

اسی کاؤ بوائے خالدندیم نے تارڑصاحب کے گروپ میں شمال کی پتھریلی اور برفیلی چٹانیں چھانی تھیں اوران وادیوں کے عشق میں گرفتارہواتھا۔ یہی عشق تھا کہ جب ہماری خالدندیم سے ملاقات  ہوئی تو  وہ لگ بھگ دس سال سے  اپنی ذاتی خواہش پرشمالی علاقوں میں اپنی تعیناتی کراتے  رہے تھے۔ کچھ عرصہ گلگت برانچ میں رہ  کر آئے تھے اور اُن دنوں سکردو برانچ کا چارج سنبھالے ہوئے تھے۔ 

قلم چلتا چلتا بہت دور نکل گیا۔ کچھ یادوں اور کچھ لفظ کے نشے کی رو میں بہک کر ہم کہیں کے کہیں نکل گئے۔ تو بات  اللہ رکھی  کی ہورہی تھی۔ سکردو کی خوش رنگ اور دلربا وادی میں سردیوں  کا راج  تھا، ہم اور خالدندیم تھے اور ہمارے سروں پرسوارپہاڑوں کا عشق تھا اور ان سب کے بیچ اللہ رکھی تھی ، جس نے آغازِ بہارمیں خپلوُ واپس آناتھا ۔ خپلوُ، جو سکردو سے بہت دور نہیں تھا۔

پہاڑوں کی زندگی پر  موسم اپنے پورے  رنگوں  اورپوری آب وتاب کے ساتھ  جلوہ گرہوتے  ہیں۔ پربتوں کے مہ وسال میں جہاں گرمیاں زندگی اور حرکت کا پیغام  لاتی ہیں وہیں سردیوں کی آمد ایک جمود طاری کردیتی  ہے۔ وہی سیّاح جو ان وادیوں کی چاہت میں سیزن کے دوران  جوق در جوق امڈ آتے  ہیں ’ آف سیزن ‘ یعنی سردیوں کے موسم میں بے رُخی سے منہ موڑلیتے ہیں۔

؎  ’نہ جا‘ کہ پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ہے

خود پہاڑوں کے باسیوں کے لیے زندگی کرنا ایک جوکھم میں پڑنے کے مترادف ہو جاتا ہے۔ جسے جہاں جگہ ملتی  ہےوہیں کچھ حرارت  اور کچھ سینک کی جستجو میں دبک جاتا ہے۔ اچھی بھلی آؤٹ ڈور زندگی کو اِن ڈور ہوجانے کی بددعا سی ہوجاتی ہے۔ انہی سردیوں کےکچھ دن تو ہم نے اور خالدندیم نے اوّل الذّکرکے ایک کمرے کے گیسٹ روم اور ثانی الذّکرکے کچیّ دیواروں والے دو کمروں کے کوارٹرمیں بالترتیب ٹھٹھرتے اور سکڑتے گزاردئیے (گوکمرہ کچیّ دیواروں کاتھا مگر اس سے ہرگز عسرت یا کسمپرسی دکھانا  مقصود نہیں۔ یہ کوارٹر براہ راست اس وقت کے گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ سے کرائے پر حاصل کیاتھا ۔ جی ہاں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد ندیم کے لینڈلارڈ تھے)۔ کچھ شامیں دیوانِ خاص (ایک ٹورسٹ ہوٹل) میں سکردو کے المشہور سوُپ کی نذرہوگئیں۔ بقول خالد اس سوُپ میں مقامی جڑی بوٹیوں سے کشیدکیا گیا کوئی معجزاتی  نسخہ بھی شامل تھا جو سردی کے اثرات زائل کرنے میں تیربہدف  تھا۔ جبکہ ہمارا خیال  تھا  کہ خالد ساٹھ کے پیٹے  میں ہیں اور آدمی عموماً اس عمرمیں ہر خوردنی چیز میں کرشماتی خواص اور یونانی اثرات کا متلاشی ہوجاتا ہے۔ خدارکھے ہم تو جب ہوں گے تب ہوں گے، ہمیں تو ابھی سے ساٹھ سے اوپر کا ہر آدمی  کچھ پوشیدہ، کچھ پشیمان اور ان دونوں  کے لازمی نتیجے میں ہروقت پریشان نظرآتا  ہے۔ بہرکیف، جب ہم معجزاتی سوُپ پی پی کر اور کے ٹو آئل (فوجی راشن میں سپلائی ہونے والے مٹی کے تیل کا سرکاری نام) کے ہیٹرکی دھوئیں بھری آگ تاپ تاپ  کر واقعتاً ’ اکّ ‘ گئے تو ایک دن گھبراکر باہر نکل آئے   اور سکردو  میں ہم پر جب بھی گھبراہٹ اور اداسی ڈیرا ڈالتی ہم ایک ہی جگہ کا رخ کرتے۔

پہلا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

https://bit.ly/3qq3jld