Tarjuman-e-Mashriq

ہمارا بھلکڑ پن

تحریر : ڈاکٹر لیاقت مرزا

ایک دن یکدم یہ خیال کسی شیطانی سوچ کی طرح ذہن سے ٹکرایا کہ شاید ہم میں نسیان (بھولنے کی بیماری)کی علامات ظاہر ہورہی ہیں, پہلےتو یہ سوچ کردِل شاد ہوا کہ چلو…….. بڑے بڑے محقّقین، ادباء، شعرا، سائنسدانوں، فلسفیوں اور… ہم میں کوئی تو قدرِمشترک پیدا ہوئی، پھر جب اس بیماری کے دور رس اثرات پرغور کیا تو یہ تشویش لاحق ہوئی کہ ایسا نہ ہو، ہم دنیا کا ہاسا بلکہ تماشا ہی بن جائیں‫‫.اسی فکر میں غلطاں بھاگم بھاگ اپنےرازدان حکیم صاحب سے رجوع کیا، انہوں نے کوئی الٹی سیدھی معجون تجویز کرنے سے پہلے ڈھیروں الٹے سیدھے سوالات کا چھٹّا ہمارے منہ پر دے مارا….جن کے جواب میں ہمیں حکیم صاحب کو کچھ مزید رازوں کا امین بنانا پڑا کہ……
ہم عمر کے اس حصے میں پچھلے دنوں ہی داخل ہوئے ہیں جہاں سٹھیانے کے لئے مزید کچھ نہیں کرنا پڑتا،بس اس پیٹے میں داخل ہونا ہی کافی ہوتا ہے،بلکہ ہمیں تو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ فیس بک پر اس بار دسیوں نہیں سینکڑوں سالگرہ مبارک باد کے پیغامات آئے، مگر یہ خوشی اس وقت کافور ہو گئی جب ہماری بچی کُھچی مَت دُور کی کوڑی لائی کہ…
"یہ دوست احباب تو آپ کے سٹھیانے کا پچھلے ساٹھ برس سے انتظار کررہے تھے”
ہمارے ساتھ ایک اور المیہ روپذیر ہوا ہے کہ ہمیں حسین چہرے تو یادرہتے ہیں مگر ان کے ساتھ وابستہ یادیں بھول جاتے ہیں‫،یہ تک بھول جاتے ہیں کہ کب، کہاں اور کیونکر یہ صورت بھلی لگی تھی…………مگر ہمارے ایک غائب دماغ دیرینہ دوست کے ساتھ معاملہ کچھ اس کے برعکس ہے،وہ کسی سے ملاقات میں کہہ اُٹھے
"معاف کیجئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے آپ کانام تو یاد ہے مگر صورت بھول گیا ہوں”
روزگارِ حیات چلانے میں کچھ اتنی مشکل پیش نہیں آتی کیونکہ اتنی الاطُول ڈاکٹری کرنے کے بعد اس میں اب دماغ کا اتنا عمل دخل نہیں رہا، صرف زبان اور قلم سے ہی کام چل جاتا ہے ( اللہ میاں ہمارے مریضوں پر رحم کرے،ان کی عمریں دراز اور دل فراخ رکھے)….جیسے
جناب حفیظ جالندھری کچھ ایسی ہی علامات لیکر حکیم چشتی کے پاس گئے تو حکیم صاحب نے پرہیز پوچھنے پر کہا کہ
"کچھ دن کوئی دماغی کام نہ کرنا”
حفیظ جالندھری ان دنوں شاہنامہ اسلام لکھ رہے تھے، پوچھتے ہیں
"کیا شاہنامہ اسلام لکھ سکتا ہوں”
حکیم صاحب فرماتے ہیں
"ہاں وہ جاری رکھیں”
آخر کار حکیم صاحب ہمارے ضعفِ حافظہ کی داستان سن کر بمشکل اپنی چُڑمُڑ کرتی خاندانی کُرسی سے اُٹھے اور ایک پرانی سی شیشی سے کچھ گولیاں اور ساتھ میں "قرشی”کی ‘دماغی’ حوالے کی.
حسبِ ہدایت استعمال کےکچھ دن بعد سوچا، کیوں نہ اب تریاقِ نسیان و سٹھیان نسخے کی افادیت کو چیک کیا جائے…….ایک بی بی ہر حال میں قبول….صورت میڈیکل چیک اپ کے لئے آئی، چہرہ شناسا سا بلکہ ایسے لگا جیسے ہم اس حوّا کی بیٹی کو عالمِ نوخیزی سے ہی جانتے ہیں‫‫.۔۔۔۔۔یہ سوچتے ہی دل مسرت سے بھر گیا کہ دوائی خاطر خواہ اثر دکھا رہی ہے، اور بھولی بسری یادیں واپس آ رہی ہیں۔۔۔اب جبکہ سب کچھ یاد آ چکا تھا،بلڈ پریشر چیک کرتےہوئے بلا تکلّف پوچھ لیا
"کل طارق صاحب بازار میں ملے تھے،ٹھیک تو ہیں؟ کچھ بیمار بیمار سے لگ رہے تھے” جواب میں بظاہر اس معصوم صورت مگر بے مروّت خاتون نے موٹی آنکھوں سےہمیں ایسی بےرحم گُھوری سے نوازا کہ کچھ لمحوں کے لئے تو ہم بغلیں جھانکنے پر مجبور ہو گئے۔۔لگا۔۔۔۔۔۔۔ کچھ گڑبڑ ہو گئی ہے، فوراً یوٹرن لیا اور بات گول مول کرنے کی کوشش میں اگلا سوال بے سوچے سمجھے داغ دیا
"بچے ٹھیک ٹھاک ہیں نا؟ خشک سردی پڑ رہی ہے، آجکل ذرا احتیاط کی ضرورت ہے”
ساکت حسن اب بھی خاموش تھا اور یہ سکوت ہمارے اندر ایک ہنگامہ بپا کئے ہوئے تھا جو صدیوں پر بھاری لگ رہا تھا اور ہم سوال پر سوال داغ کر شرمندگی کے گڑے میں گِرنے سے بچنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے مگر باطنی طور ہر پوری طرح بدحواسی کا شکار ہو چکے تھے۔۔۔۔آخر کئی ساعتوں بعد کفر ٹوٹا اور نیک بخت حیرانی بھرے دیدے سکیڑکر پوچھتی ہے
"کون طارق، کس کے بچے”
اب ہم بغلیں جھانکنے سے فارغ ہو کر ایک نئے مخمصے کا شکار ہو چکے تھے کہ کل بازار میں ملنے والے طارق صاحب کون تھے؟ اگر طارق صاحب وہی تھے جو ہم سمجھے تھے تو یہ خاتون اس کی بیوی کیوں نہیں ہے اور اگر یہ اس کی بیوی نہیں ہے تو کِس کی بیوی ہے؟ یا اللہ، یہ کیا ماجرا ہے، ہم کِس الجھنوں کے جال میں پھنس گئے ہیں،دماغ نے رہا سہا کام کرنا بھی چھوڑ دیا، لگ رہا تھا ہم اس بند گلی سے کبھی نہ نکل پائیں گے،گویا کہ ہم بھلکڑ پن سے مکمل غیر حاضر دماغی کی کیفیت میں داخل ہو چکے تھے، اسی عالمِ لاموجود میں۔۔۔۔۔اندھے کنویں کی گہرائی سے اُبھرتی ہوئی کوئی آواز دوبارہ گئی گزری سماعتوں سے ٹکرائی
"ڈاکٹر ۔۔۔۔میری تو ابھی شادی نہیں ہوئی”
بھلااب سُن کون رہا تھا،گویا سانپ سونگھے بغیر ہی سکتے کا عالم تھا۔۔۔۔۔۔کب ہم نےنسخہ لکھا، کب وہ نامعلوم بی بی خانم باہر کو پدھاری، ہم اس سارے عمل سے قطعاً بے خبر ہیں۔
ہوش آنے پر سب سے پہلا وعدہ اپنے آپ سے یہ کیا کہ آٰیئندہ کسی اجلّ حکیم یا اس کے کسی لونڈے سے دوا نہیں لیں گے بلکہ دعاؤں سے کام چلائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے بھی۔۔۔۔۔ ہم تو صرف سٹھیائے ہیں۔۔۔۔اس دنیا میں تو سترے بترے بھی سرِ عام پِھر رہےہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے جوش ملیح آبادی (ہاں وہی۔۔”یادوں کی برات” والے)لکھتے ہیں،
"کئی مہینے پہلے کی بات ہےتاروں کی چھاؤں میں ٹہلنے کے لئے نکلا تھا، واپسی پر اپنے گھر کا راستہ بھول گیا وہ تو کہئے ایک ہم عمر ٹہلتے ہوئے مل گئے، میں نے ان سے پوچھا کہ یہیں کہیں برساتی نالے کے کنارے ایک گنبد والا مکان ہے، کیا آپ اس کا راستہ بتا سکتے ہیں، انہوں نے کہا کیا آپ جوش صاحب کے مکان میں جانا چاہتے ہیں میں نے کہا جی ہاں اور اس نیک مرد نے مجھ کو میرے گھر تک پہنچایا، اس نے کہا میرا نام نصیر احمد ہے آج سے چالیس بیالیس برس پیشتر میں نے جوش صاحب کو آگرے میں دیکھا تھا، انہیں میرا سلام کہہ دیجیے گا اور میں نےفرطِ شرم سے یہ نہ بتایا کہ میں ہی جوش ہوں” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو دوستو۔۔۔۔۔ہم کہاں کے بیچارے ٹھہرے