Tarjuman-e-Mashriq

بدخشاں سے بہاولپور

بدخشاں سے بہاولپور


محمد ایوب


(ایک اقتباس )

حصہ اول

 

پیر صاحب کے ادارے سے میرا پہلا تعارف اچھے اورعلمی ماحول میں ہوا۔ پھر بہت سالوں تک میں اس ادارے سے منسلک رہا۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جہاں نوجوانوں کی آمد کا سلسلہ ہو وہاں شک و شبہات بھی جنم لیتے ہیں۔ بہت سے دوستوں کو میرا اکیڈیمی جانا اور خاص کر شبنم سے ملنا پسند نہ تھا۔ اکیڈیمی کے اندر بھی رنجشیں اور شکوے تھے۔ ٹوٹے دلوں اور زخمی روحوں کی بھی کمی نہ تھی۔ جو ٹوٹ کر روٹھ جاتے تھے وہ بھی اپنے وقت پر موجود ہوتے اور نظروں کی زبان سے دل کی بات کہتے اور چائے کا کپ ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیتے۔

                  اکیڈمی یا آستانہ ایک نشہ تھا جہاں کوئی نشہ آور چیز استعمال نہ ہوتی تھی۔ بظاہر خود غرض، بے پرواہ، ماڈرن ماحول کی پیداوار، کھلے دل اور دماغ کے حامل مرد وزن کسی ایسے رشتے سے منسلک تھے جس سے ٹوٹ کر الگ ہونا ناممکن تھا۔ یہاں دوستیاں بدلتی، ٹوٹتیں اور پھربدلتی تھیں مگر رشتہ و تعلق کبھی نہ ٹوٹتا تھا۔ نشتیں بدل جاتیں، نظریں ملتیں مگر شکوہ زبان پر نہ آتا۔ کاروں کے ماڈل بدلتے تو کپڑوں کے ڈیزائن بھی بدل جاتے۔ ہر نئی آنے والی نئی خوشبو کا جھونکا لاتی مگر کبھی کسی نے کپڑوں، گاڑیوں، خوشبوؤں اور پرانے مسترد شدہ اور نئے دوستوں کا ذکر نہ چھیڑا۔ یہاں صرف نئی کتابوں، نئے علمی رجحانات، مقالہ جات، تاریخ، ادب، فلسفہ و فکر اور سیاسیات پر بات ہوتی۔

                  کون کس کی گاڑی پر آیا اور کون کس کی گاڑی پر بیٹھ کر گئی سوائے رخسانہ، پیرصاحب کی سیکرٹری اور سارہ خان کے کسی کو غرض نہ تھی۔ گیارہ سال تک بہت کچھ بدلتا رہا مگر شبنم میں کوئی بدلاؤ نہ آیا۔ پہلے ایک رکشے والا بابا پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دیتا تھاجسے وہ تین سو روپے ماہانہ دیتی تھی۔ پھر بابے کا بیٹا آگیا اور کرایہ پانچ سو ہوگیا۔

                  گیارہ سال پہلے ایک چھوٹی لڑکی اپنی بہن کے ساتھ اکیڈیمی میں انگلش پڑھنے آتی تھی۔ وہ چھٹے گریڈ کی طالبہ تھی اور کسی پرائیویٹ سکول میں پڑھتی تھی۔ اکیڈیمی کے علمی ماحول میں کسی کو خبر نہ ہوئی کہ وہ کب جوان ہوئی اور میڈیکل کالج میں چلی گئی۔ ایک دن کسی نے اسے ڈاکٹر صاحبہ کہہ کر چھیڑا تو وہ پھر سے نشہ آور ذہنوں میں لوٹ آئی۔ کسی نے حیرت سے کہااُوطبیان تم کتنی بڑی ہوگئی ہو۔ اس روز پہلی بار پتہ چلا کہ لڑکی کا نام طبیان ہے۔ میرے لیے یہ نیا نام تھا۔ شبنم سے مطلب پوچھا تو کہنے لگی کہ قبائلی علاقوں اور افغانستان میں یہ نام عام ہے۔ اس کا مطلب طبی علوم کا مجموعہ ہے۔ یہ نام ترکوں اور ایرانیوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ مولانا رومؒ کی لے پالک بیٹی کا نام کیمیأ تھا۔ ایلاشفق نے اپنی مشہور کتاب "عشق کے چالیس چراغ” میں کیمیأکی زندگی پر بہت کچھ لکھا جو ناقابل یقین ہے۔ پاس بیٹھی نجمہ نے کہا کہ اگر ایلاشفق کیمیأ کی جسمانی ساخت اور نسوانی خواہشات کا تڑکا نہ لگاتی تو مشہور کیسے ہوتی۔ قوینا کا دارالعلوم تو سب جانتے تھے مگر چند سوگز کی دوری پر طوائف کا کوٹھا اور صحراکے گلاب کا ذکر ایلا کے تخیل کی ترجمانی سے محروم رہ جاتا۔

                  نجمہ نے کہا میرے پاس عمیرا احمد کی مشہور کتاب پیر کامل کا چوبیسواں ایڈیشن ہے۔ میں نے ہر جاننے اور ملنے والے کے گھر میں یہ کتاب دیکھی۔ یقینا ہر لائیبریری میں بھی اس کا نسخہ موجود ہوگا مگر پڑھی کم ہی گئی ہے۔ مجھے یہ کتاب کسی نے تحفے میں دی جسے کسی عائشہ کنول نے سالگرہ کے موقع پر دی تھی۔

                  کیا خبر کہ عائشہ کنول کو تحفے میں ہی ملی ہو۔ شبنم نے کہا۔

                  ہوسکتا ہے۔ نجمہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔

                  ہمارے ہاں کتاب بینی کا شوق ہی نہیں رہا۔ لائیبریریوں میں کوئی نہیں جاتا اور نہ ہی کتاب خریدنے کا رجحان ہے۔ کتاب لکھنا آسان اور پڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو سیاست اور حکومت کرتے ہیں وہ بھی کم ہی پڑھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیوروکریسی انہیں اپنی مرضی سے استعمال کرتی ہے اور دونوں طبقے مل کر ملکی وسائل ہڑپ کرتے ہیں۔

                  تم حمیرا احمد کی کتاب پر بات کر رہی تھی۔ شبنم نے کہا۔

ایلاشفق اور حمیرا احمد کے خیالات میں کافی حد تک مماثلت ہے۔ فرق اتنا ہے کہ ایلاشفق کا تعلق لبرل ترک معاشرے سے ہے اور وہ انگریزی زبان میں لکھتی ہے۔ وہ خود کہتی ہیں کہ اگرمیں ترکی میں لکھوں تو شعور پر نقش تصویر کو تحریری شکل میں ڈھالنا مشکل ہوگا۔ ہمارے سامنے تہمینہ درانی کی تحریر بلیس فہمی کی مثال موجود ہے۔ کتاب کے ہیرو پیرصاحب نے جو کچھ اپنی بیوی کے ساتھ کیا اسے انگلش میں تو بیان کیا جا سکتا ہے مگر اردو ترجمہ مشکل ہوگا۔ منٹو نے اردو میں لکھا تو مقدمات کا سامنا کیا۔ خشونت سنگھ نے انگلش میں لکھا مگر اردو ترجموں میں کافی حد تک احتیاط برتی گئی۔ واجدہ تبسم نے اردو میں لکھا چونکہ بھارت میں اس کی گنجائش موجود ہے۔ کشور ناہید، قراۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی نے اپنے خیالات کی حدود کا تعین کیا اور ایک قدم باہر نہ رکھا۔

                  ایلاشفق اور عمیرا احمد نے روحانیت کی بنیاد مادیت پر رکھی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دلہن کے بغیر ڈولی سجا کر ویرانے میں رکھ دی جائے۔ ایلاعشق مجازی کا چراغ لے کر عشق حقیقی کے سفر پر نکلی مگر اپنی برہنگی پر توجہ نہ دی۔ عمیرا احمد نے 150آئی کیو لیول کے سالار سکندر کے کمرے کو برہنہ عورتوں کی تصویروں سے سجایا، خودکشیاں کرنے پر ابھارا، لوفر لفنگوں کی محفل کا ہیرو بنایا اور پھر جنسی تسکین کے لئے اسے ہیرامنڈی لے گئی۔ لکھتی ہیں کہ سالار سکندر ایک امیر اور اچھے خاندان کا لڑکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اچھے خاندان کے لئے امیر ہونا شرط ہے۔ وہ جس ہستی سے مخاطب ہے وہ ان کی دعا ہی بھول گئی۔ آپﷺ اکثر فرماتے تھے، اے میرے ربّ قیامت کے دن مجھے غریبوں سے اٹھانا۔ آپ ﷺکے گھرانے سے بڑا کس کا گھرانہ اور آپﷺ سے بڑا اور اچھا خاندان کس کا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ اے لوگواللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو۔ امام جعفر صادقؓ نے فرمایا اللہ کی رسی ہم یعنی اہل بیت رسولﷺ ہیں۔

                  آپﷺ سے پوچھا گیا کہ یارسول اللہﷺ آپﷺ کے اہل بیت کی پہچھان کیا ہوگی۔ فرمایا وہ خوبصورت ہونگے۔ سخی ہونگے، صاحب بصیرت ہونگے اور صاحب علم ہونگے۔ سارے علوم ظاہریہ و باطنیہ کا سرچشمہ قرآن اور آپﷺ صاحب قرآن اور معلم قرآن ہیں۔ فرمایا میں علم کا گھر اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔ سائنس قرآن کے مقابلے میں ادنیٰ علم اور قرآنی علوم کی ہی ایک جز ہے۔ انسان کے علم کی حد ختم ہوجاتی ہے تو وہ اسے سٹون ایج، ڈارک ایج، زمانہ قبل از تاریخ، میٹافزکس اور پیرا سائیکالوجی کے نام دے کر جان چھڑا لیتا ہے۔ سائنس کے سارے معلوم علم ایک حد تک انسانوں کے علاوہ حیوانات، جمادات اور نباتات تک محدود ہیں جبکہ اسی کائنات میں جنات اور ملائکہ کا وجود بھی ہے مگر سائنسدان اپنی محدود علمی معلومات کی بنا پر ان کے وجود سے ہی منکر ہیں۔ اس بات کا اندیشہ بہرحال موجود ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کسی غیر مرئی قوت کی زد میں آکر اپنا وجود ہی کھو دے۔ اس کے اثرات کا یکسر خاتمہ ہوجائے اور فضأ میں موجود لہریں اپنا رخ بدل لیں یا اپنی قوت سے ریڈیائی لہروں اور صوتی اثرات کا خاتمہ کردیں۔

                  مادی علوم کی حد انسانی عقل و شعور سے باہر نہیں۔ جیسا کہ پہلے کہا ہے کہ شعور، تحت الشعور اور لاشعور کی تعریف ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ قرآنی الٰہی بیان کے مطابق انسانی شعور مادی ہے۔ جو کچھ اس کے سامنے ہے اس کی پرکھ عقل سے ہے اور جو سوچ و فکر ہے وہ شعور کے پردے پر نقش ہے جس کا اظہار عقل اور علم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

                  سگمنڈ اور اس کے مقلدین کے مطابق ناول نگاروں، شاعروں اور افسانہ نگاروں میں تخلیقی صلاحتیں عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں جس کا تعلق ان کی نفسیا ت اور حس لطیف سے ہوتا ہے۔ یہ حس لطیف روح حیوانی کے تابع ہو تو تخلیقی عمل کی نوعیت روح رحمانی کے تابع تخلیقی عمل سے الگ اور مختلف ہوتا ہے۔

                  ناول نگار، شاعر، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار جب تک اپنی تخلیق کا حصہ نہ ہو اور اپنی خواہشات کا اظہار نہ کرے اس کا تخیل ادھورا اور تصور دھندلا رہ جاتا ہے۔ ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار اپنے ہی معاشرے، ماحول، تہذیب وثقافت اور تاریخ کی ترجمانی کرتا ہے اور جب تک اس کا مشاہدہ مکمل نہ ہو اس کی تحریر حقیقت کی ترجمانی سے قاصر رہتی ہے۔

                  عمیرا احمد کی تحریر پیر کامل نہ تو احمدی یا قادیانی فرقے کی مکمل سٹڈی ہے اور نہ ہی اس تحریر کا پاکستانی معاشرے اور دینی اقدار سے کوئی تعلق ہے۔ ہم نے بہت سی قادیانی اور عیسائی لڑکیاں دیکھی ہیں جو نعت خوان ہیں۔ نعت پڑھتے ہوئے ان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور ان کی زبان سے نکلے الفاظ دل کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں۔ قادیانی سب سے زیادہ درود شریف پڑھنے والے ہیں مگر باوجود اس کے ختم نبوتﷺ پر یقین نہ رکھنے کی وجہ سے دین اسلام سے خارج ہیں۔ عمیرا احمد نے لکھا کہ امامہ کو ڈاکٹر جلال سے نہیں بلکہ عشق رسولﷺ سے غرض تھی۔ اس میں شک نہیں کہ عشق مجازی عشق حقیقی کا پہلا زینہ ہے۔ عالم ناسوت کی اکتالیس منزلیں طے کرنے کے بعد ہی عالم ملکوت تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ عالم ملکوت کی پہلی منزل دربار رسولﷺ اور اجلاس باطنی اوّل ہے۔ جہاں ہر ولی ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ جسے اس اجلاس تک رسائی نہیں ہوتی وہ ہر گز ولی نہیں ہوسکتا ہے۔

                  آتش عشق کا بیان عاشق ہی کر سکتا ہے چونکہ وہ علم الیقین، حق الیقین اور عین الیقین کی منزل سے گزر کر ہی وادی عشق میں داخل ہوتا ہے اور اگلی منزل کا تعین کرتا ہے۔

                  امامہ کا عشق سسی، سوہنی اور لیلا کا عشق کیسے ہوسکتا ہے۔ اگر منزل ڈاکٹر جلال تھا تو وہ خود کسی منزل کی تلاش میں نہ تھا۔وہ تو ویسا ہی ڈاکٹر تھا جیسے عام ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ ڈگری کا حصول اور دولت کی ہوس۔ قوال اور نعت خواں کونسے عشق رسولﷺ کے نشے میں سرشار ہوتے ہیں۔ شاہدہ منی بھی نعت خواںہے اور ڈاکٹر اجمل نیازی کی پسندیدہ آواز ہے۔ نعت خواں، قاری اور قوال اپنی آواز کی قیمت لگاتے ہیں۔ ہوائی جہازوں میں بزنس کلاس کے ٹکٹ، ائیرپورٹ سے فائیو سٹار ہوٹلوں تک ائیرکنڈیشنڈ گاڑیاں اور پھر ہر شو کے الگ روپے، ڈالر، پونڈ اور یورو۔

                  یہی حال شاعروں کا ہے جبکہ ادیب آخری نمبر پر آتے ہیں۔ اردو لکھنے والوں کو بھارت تک رسائی تھی مگر اب وہاں بھی پابندیاں ہیں۔ وہاں صرف ان کالم نگاروں اور ٹیلیویژن پر پاکستان، اسلام، پاک فوج اور نظریہ پاکستان کے خلاف لکھنے اور بولنے والے صحافیوں اور اینکروں کی مارکیٹ ہے جو بھارتی دانشوروں کی بانسری پر ہوس و حرض کا راگ الاپتے ہیں۔ میر جعفر، میر صادق اور پورنیا کی روحانی اولاد قادیانیوں اور احمدیوں سے بھی خطر ناک ہے۔ احمدیوں اور قادیانیوں کا ایک مذہب اور عقیدہ تو ہے۔ صحافت اور دانش کی منڈی میں بیٹھے بیوپاریوں اور ملک دشمن آئیڈیالوجی کے ہاکروں کا کوئی دین و مذہب ہی نہیں۔ مال و دولت اور شہرت ان کا عقیدہ ہے۔ جو زیادہ بولی دے اس کی قصیدہ گوئی  کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔

                  امامہ کا عشق اگر اچھی آواز سے تھا تو وہ عشق تھا ہی نہیں۔ اگر یہ عشق عمیرا احمد کا تھا تو ادھورا تھا۔ اچھا اور امیر خاندان، سپر کلاس، برہنہ تصویریں، میوزک، خودکشیاں، شراب و کباب، لوفرلفنگوں کی محفلیں، دولت و شہرت کا پرچار، عالیشان محل نما گھر اور دیگر خرافات محدود نو دولتیے گھرانوں کا خاصہ ہے۔ جہاں رزق حال ہی نہ ہو وہاں عشق حقیقی کا تصور ہی محال ہے۔ عشق حقیقی یعنی روح رحمانی کا ذرہ ہر انسانی جسم میں موجود ہے چونکہ ہر جسم خالق کائنات کی تخلیق ہے۔ اللہ چاہے تو کافر اورمشرک پر بھی اپنی رحمت کی بارش کر دے۔ وہ سبب پیدا کرتا ہے۔ اس کے اسباب لامحدود ہیں۔ اس کا راستہ صراط مستقیم ہے اور اس کا ہر سبب عام لوگوں کی سمجھ میں آجاتا ہے۔ امامہ کا جلال سے سالار تک سفر بحرعشق کے کناروں کا چکر ہے جس کی تہہ میں عشق حقیقی کا گوہرنایاب ہے۔

                  امامہ کو سالار تو مل گیا مگر گوہر نایاب عشق حقیقی کے سمندر میںہی پڑا رہا۔ عشق حقیقی کی پہلی جھلک پر ناسوتی آندھیاں چل پڑتی ہیں اور اس قدر گردوغبار چھا جاتا ہے کہ دوسری جھلک کا حصول انتہائی مشکل اور کبھی کبھی ناممکن ہوجاتا ہے۔ گرد بیٹھ جاتی ہے تو مجاز حقیقت کے بہروپ میں سامنے آجاتا ہے۔ یہی وہ منزل ہے جہاں پیرکامل کی رہنمائی سے ہی اصل منزل کا تعین ہوتا ہے۔

                  آپﷺ کو پیر کامل کہنے میں گناہ یا گستاخی تو نہیں مگر ایک محدود معنی کے لفظ میں لامحدود ہستی کا بیان آپﷺ کی شان کے مطابق نہیں۔ پیران کامل و اکمل تو وہ ہستیاں ہیں جو طالبان حق، عاشقان رسول ﷺاور راہ سلوک کے مسافروں کی اصلاح کرتی ہیں۔

                  ہم دیکھتے ہیں کہ پڑھے لکھے لوگ اکثر اپنی تقریروں اور تحریروں میں اللہ میاں لکھتے ہیں اور کہتے ہیں۔ جن جاہلوں کو اللہ کی شان اور اس کی عظمت و کبریائی کے بیان کا سلیقہ نہیں ان کی زبان اور بیان میں کیا اثر ہوگا۔

                  قرآن کریم میں بیان ہوا ہے کہ سب اچھے نام میرے ہیں۔ اللہ کہو یا رحمن  اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ خالق و مالک کے ہزاروں اور لاکھوں صفاتی نام ہیں مگر میاں ایک اضافی اختراع ہے جس کے کوئی معنی نہیں۔

                  سورہ البقرہ میں فرمایا کہ یہودی علمأ آپ ﷺکی مجلس میں بیٹھتے اور جب کوئی بات سمجھ نہ آتی تو آپﷺ کی توجہ کے لئے لفظ "راعنا” جس کا مطلب دوبارہ کہیے یا پھر کہیے تھا کہتے۔ اسی لفظ "راعنا”کے اور بھی مطلب تھے اور انداز بیاں بدلنے سے مزید معنی نکل آتے جن میں گستاخی کا عنصر تھا۔ یہود کی دیکھا دیکھی اصحاب رسول ﷺبھی کبھی کبھی یہی لفظ کہہ دیتے جس پر اللہ کی غیرت جوش میں آگئی۔ فرمایا اور "راعنا”مت کہو۔ اس کی جگہ "اُنظر” کی تلقین ہوئی تو اصحاب پاک نے اس سے بھی اجتناب کیا اور بے وجہ سوال و جواب کا سلسلہ ہی ختم کردیا۔ عاشقان رسولﷺ کو ہر گز گوارہ نہ تھا کہ وہ شان رسولﷺ سے ہٹ کر کوئی بات کریں اگرچہ اس میں کوئی گناہ یا گستاخی نہ تھی۔ چہ جائیکہ ایک شخص جو محض نعت خواں تو ہے مگر اس کے دل میں عشق رسولﷺ کی کوئی چنگاری ہی نہیں سے عشق حقیقی کی روشنی کی توقع کی جائے۔

                  جس شخص کا مطمع نظر دنیا کا حصول ہو اس کی میٹھی زبان سوائے چکمہ بازی کے کیا ہوسکتا ہے۔ شاید عمیرا احمد نے قادیانیوں کے اخلاق، طوراطوار، زبان و بیان اور دیگر معمولات کا حقیقی مشاہدہ نہیں کیا یا پھر صرف نظر کیا ہے۔ عام زندگی میں تو یہی دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی قادیانی یا احمدی لڑکی کسی غیر قادیانی سے شادی کی خواہش کرے تو اس کے والدین ہر گز معترض نہیں ہوتے۔ ایسی لڑکیاں بھی ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود مسلمانوں بلکہ سیّدوں کے گھروں بیاہی ہیں۔

                  ناول نگاری اور افسانہ نگاری کی اپنی ضرورتیں ہیں اور بعض اوقات لکھنے والوں کے مشاہدے یا خواہشات و نفسیات پر کچھ خارجی عوامل اثر انداز ہو کر ان کے اصل بیان کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ ادب کی کوئی بھی صنف ہو ،اسے لکھنے اور بیان کرنے میں کچھ دقتیں پیش آتی ہیں جو عام قاری کے مطالعہ پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔ ادب کی دنیا میں داستان کے بعد ناول نگاری کا رواج ہوا جس کی ابتدأ مغربی دنیا سے ہوئی۔ ناول کے پلاٹ ،حسن بیان، منازل، کرداروں کے چناؤ اور ان کی روزمرہ زندگیوں میں اونچ نیچ، زماں و مکاں کی پابندی، معاشرے کی تصویر کشی، انسانی فطرت اور دیگر عوامل پر بحث ہمارا مقصد نہیں۔

                  اگر ہم ناول یا کسی بھی تحریر میں مذہبی رنگ اور دینی اقدار کے حوالے سے اپنا پلاٹ ترتیب دیں تو سب سے پہلے دین کے بنیادی اصولوں اور آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ قرآن کریم میں بیس ایسے مقامات ہیں جہاں زیر، زبر، پیش یا تلفظ کی غلطی سے قاری کلمہ کفر کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ چونکہ ہم لوگ عجمی ہیں اور بسا اوقات کچھ الفاظ ہماری زبان پر مشکل سے آتے ہیں یا پھر مادری زبان کی طرز پر ادا ہوجاتے ہیں۔ اساتذہ کی ہدایت ہے کہ تلاوت قرآن کے بعد استغفار کی جائے اور سہواً ہونے والی غلطیوں کی اللہ سے معافی کی درخواست کی جائے۔ وہ غفور الرحیم ہے۔ ضروری ہے کہ سرور کائنات ﷺسے منسوب کسی بھی تحریر کو منظر عام پر لانے سے پہلے سیرت پاک ﷺکا مطالعہ کیا جائے اور آپﷺ سے متعلق تحریر میں کوئی ایسا لفظ نہ لکھا جائے جو بے وزن، کمزور یا شان رسالتﷺ سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ رحمت الالعالمٰینﷺ کے رتبے پر فائز ہستی کو پیر کامل کے درجے پر کیسے فائز کیا جاسکتا ہے۔ آپﷺ کو خالق کل وکن نے جس رتبے پر فائز کیا کسی انسان میں کیا جرأت ہو سکتی ہے کہ وہ محض اپنی شہرت اور دولت کے حصول کے مد نظر ان کے رتبے میں کمی کا باعث بن جائے۔

                  آپ ﷺکا وجود وجہ تخلیق کائنات ہے۔ آپﷺ امام الانبیأ اور خاتم النبین ہیں۔ صوفیأ، علمائے حق اور اولیائے کاملین جنہیں ہم پیرکامل، پیر اکمل،ابدال، غوث، قطب، قطب الاقطاب، مرشد اور دیگر ناموں سے پکارتے ہیں وہ سب کے سب آپ ﷺہی دراقدس سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ ہر پیر کسی پیر کامرید ہوتا ہے۔ آپﷺ کی شان پیری کے زمرے میں نہیں آتی۔

                  اور 150آئی کیو لیول۔ کسی نے سوال کیا؟

                  نجمہ نے ہنس کر جواب دیا شاید یہ کہانی کی ضرورت ہو۔شیخ سعدیؒ نے تیس برس محنت مزدوری کی اور پھر تیس برس تک علم حاصل کرتے رہے اور عمر کے آخری تیس برس تحریر و تصنیف میں مشغول رہے۔ وہ نہ تو کسی امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور نہ ہی کسی نے ان کا آئی کیو لیول ٹیسٹ کیا۔

                  کوئٹہ میں ہمارے پڑوسی فوج سے ریٹائیرڈ ہوئے ایک میجر صاحب ہیں۔ پچیس سال فوج میں نوکری کی، پنتالیس سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہوئے۔ کوئٹہ چھاؤنی میں واقع ڈیری فارم کے مدرسے سے قرآن حفظ کیا اور کوئٹہ یونیورسٹی سے ہی ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ سکالرشب پر جرمنی چلے گئے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد جرمنی میں ہی کسی یونیورسٹی میں استاد ہیں۔ ایک بار پوچھا کہ آپ فوج میں تو میجر کے عہدے تک ہی پہنچ سکے؟

                  کہنے لگے میں ایورج آئی کیو لیول کا افسر تھا۔

                  جناب واصف علی واصف انگلش میں ایورج تھے اس لیے انگلش کا پرچہ پاس نہ کر سکے۔ آپ نے ایک انگلش میڈیم تعلیمی ادارہ قائم کیا جہاں وہ خود انگلش کے استاد تھے۔ آپ کا پڑھانے کا انداز اتنا پرتاثیر او ر عمدہ تھا کہ ہزاروں طلبأ نے آپ سے انگلش پڑھ کر انگلش لٹریچر میں ماسٹر ڈگریاں حاصل کیں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ پتہ نہیں کہ جناب واصف علی واصف کا آئی کیو لیول کیا تھا۔ امام غزالیؒ کی عمر باون برس ہوئی اور آپ نے باون کتابیں لکھیں۔ کچھ کتابیں اور ان پر لکھی جانے والی شرعیں باون سے بچپن جلدوں پر مشتمل ہیں۔ ایک اندازے کی مطابق اگر کوئی شخص ایک سو پچیس سال کی عمر پائے اور سوسال تک مسلسل امام غزالیؒ کا مطالعہ کرے تو وہ ساری کتب پڑھنے سے قاصر رہے گا۔ میں نے تہران یونیورسٹی میں مسلم سکالرز کی تحریروں کی ایک فہرست کتابی شکل میں دیکھی جو ایک ہزار صفحات پر مشتمل تھی۔ بہت سے مصنفین نے سو سے ڈیڑھ سو کتابیں لکھیں جن کی عمریں اسی سال سے بھی کم تھیں۔ اکثریت نے فلکیات، نجوم، طب، بحری امور، تاریخ، جغرافیہ، ہیت، حساب، فلسفہ، نباتات، جمادات، حیوانات، نفسیات، الجبرا، زمین کی ساخت، آبی ذخائرو فوائد، جنگلی حیات، طبعیات اور معاشیات کے علاوہ ایسے علوم پر بھی لکھا جو ابھی تک جدید علوم کی دسترس میں نہیں آئے۔ پتہ نہیں ان سب کا آئی کیو لیول کیا تھا؟….. –جاری ہے  

Exit mobile version