Tarjuman-e-Mashriq

مستنصر حسین تارڑ ۔ احوال ایک ملاقات کا

یہ جو تارڑ صاحب ہیں نا ۔ یہ میری وجہ سے مشہور ہیں ۔ ابھی آئیں گے تو پوچھ لینا۔ ملک صاحب (انہوں نے اپنا تعارف ایسے کروایا تھا۔۔ میری بھی پہلی ملاقات تھی وہاں موجود سب لوگوں سے)
میں جواب کی بجائے ایک ہلکی مسکراہٹ دے کر ساتھ پڑی کرسی کی جانب متوجہ ہوئی۔ اس پر لکھے ہوئے تاریخی الفاظ کی تصویر لینے لگی تو طارق صاحب نے فوراً چوکنا کیا کہ تارڑ صاحب اسکو برا مناتے ہیں ۔ وہ آجائیں تو تصویر مت اتارنا۔ میں نے کہا جی اچھا۔
ابھی میں تصّور میں ایک بہت ہی کھڑوس بڈھے مصنف کا تخیّل قائم ہونے سے روکنے میں مصروف تھی کہ شعیب صاحب بولے تارڑ صاحب آپکا تعارف پوچھیں تو اپنا تعارف کرانا۔ یہ نہیں بتا دینا کہ آپ میرے ساتھ آئیں ہیں۔ یا آپکو میں نے بلایا ہے۔ وہ بہت ناراض ہوتے ہیں۔
اور ہاں انکو یوں بھی نہیں کہنا کہ میں نے آپکی بہت کتابیں پڑھیں ہیں یا میں آپکی بہت بڑی فالور ہوں۔ فلاں فلاں ۔
میں نے دل میں سوچا ابھی تک میں نے لاہور آوارگی کے علاوہ کوئی کتاب انکی پوری نہیں پڑھی ۔ جو پڑھی ہے وہ بھی صرف لاہور کی محبت میں ۔ تارڑ صاحب کی کتاب پڑھنے کے شوق میں نہیں۔ لیکن مجھے پتہ ہے تارڑ صاحب کے پائے کا مصنف لکھے گا تو میرے لاہور میں سے لاہور اُبل اُبل کر باہر آئے گا۔جس نے نہیں بھی دیوانہ ہونا وہ بھی اسکی محبت میں گرفتار ہوگا۔ باقی کتب میں سے زیادہ تر صرف اقباسات ہی پڑھے ہیں۔ میں تو ایسی شوخی مار بھی نہیں سکتی۔ کہ جی میں نے آپکو بہت پڑھا ہے ۔
ادھر سے ایک اور صاحب فرمانے لگے کہ وہ ایک بات پکڑ لین تو بار باردہراتے ہیں۔ لہٰذا سمجھ کر بولنا۔ بس پھر کیا تھا جو تصویر تارڑ صاحب کے رویے کی خیال میں بن رہی تھی وہ پکی ہوگئی ۔
اسی اثنا میں میرے سامنے بیٹھی خاتون ,(نام خود نہیں لکھ رہی۔ مجھے ان سے مل کر بہت اچھا لگا۔ بہترین اخلاق اور بہترین وضع قطع) نے اپنے کرتے کی جیب سے سگریٹ نکالا اور اس کو سلگانے کے لیے لائٹر کے ساتھ جستجو کرنے لگیں ۔ مجھے فوراً اپنے ایک کالیگ کا خیال آیا جب انہوں نے مجھ سے ازراہِ معلومات پوچھا تھا کہ ہاسٹل کی لڑکیاں کافی ایڈوانسڈ ہوتی ہیں تو کبھی آپ نے بھی سگریٹ وغیرہ کا کش لگایا ہے؟ مجھے انکی بات شدید ناگوار گزری تھی ۔ شاید اس طرح کی سچویشن کے لیے ہی انہوں نے پوچھا ہوگا۔
ابھی دماغ میں انہی خیالات کی جھڑپیں جاری تھی کہ محترمہ کے کش کا دھواں سامنے پڑی میز پار کر کہ سیدھا میرے پھیپڑوں میں جا پہنچا۔
یہاں تو میں نے ایک بار سوچا کہ ابھی کچھ نہیں بگڑا اٹھ کر چلے جاتے ہیں. ہڑبڑا کر اپنی کرسی سے اُٹھی تو کافی آگئی۔ پہلا گھونٹ بھرا ہی تھا کہ سب ایک جانب دیکھنے لگے کہ آگئے ہیں تارڑ صاحب۔
پانچ چار چاہنے والوں کے جھرمٹ میں ایک ادھیڑ عمر جوان بزرگ چلے آرہے ہیں۔ تصوّر بدلنا شروع ہوا۔ وہ جو سب نے اپنی اپنی آپ بیتی سنا کر مجھے ڈرایا تھا غلط ثابت ہونے لگی۔
آتے ہی پہلے ایک صاحب سے مخاطب ہوئے۔ کہا ۔ جو لوٹا تم نے بھیجا تھا وہ اتنی جلدی بھر گیا ہے؟ میں نے تو اتنا بھر کے نہیں بھیجا تھا۔
وہ صاحب بولے کہ ابھی خالی ہو کر پھر آئے گا۔
اس سے میری جو بات سمجھ میں آئی وہ یہی تھی کہ کوئی شاگرد کسی کے ریفرنس سے ایک دن آیا اور پھر بھاگ گیا۔
اتنے میں کسی نے کہ دیا کہ یہ ملک صاحب کہتے ہیں آپ انکی وجہ سے مشہور ہیں۔ فوراً بولے صحیح کہتے ہیں۔ (بڑے لوگوں کی بڑی باتیں)
عید کے بعد یہ پہلی باقاعدہ نشست تھی۔ تو سب سے الگ الگ مخاطب ہو کر حال دریافت کیا اور طارق صاحب کی کلاس بھی لی کہ میرا شیڈیول پوچھ کر کل خود کیوں نہیں آئے تم۔
مجھے اس میں یہ لطیف بات لگی کہ نا صرف انکو سب کا معلوم ہے بلکہ انتظار بھی رہتا ہے۔
خیر سب بیٹھ چکے تو نئے آنے والوں میں سب سے پہلے مجھے تعارف کا کہا۔ میں نے فوراً ہی تعارف کروا کر کتاب پیش کی جو انوّار راجہ صاحب نے بطور امانت انکو پہنچانے کے لیے دی تھی۔ وصول کر کے دوبارہ پوچھا کونسے ہسپتال میں ہوتی ہو بیٹا۔ میں نے بتایا فلاں ہسپتال میں ۔ ماشاءاللہ ماشااللہ۔
تصویر بنائی گئی۔ لگتے ہاتھ میں نے آٹوگراف بھی لے لیا۔ پھر اجازت لی اور واپسی۔
الغرض یہ کہ مجھ سے اتنے پیار سے پیش آئے کہ سب کی کہانیاں میرے معاملے میں تو غلط ہی ثابت ہوئیں لیکن ان کے سُننے کے چکر میں ماڈل ٹاؤن پارک کی خوبصورتی دیکھنا رہ گیا۔ پہلی بار جانا ہوا تھا۔ ۔
جاتے جاتے بتاتی جاؤں کرسی پر تکیہ تارڑ لکھا ہوا تھا۔ پہلے میں سمجھی کہ تارڑ صاحب کی کرسی کو نمایاں کرنے کے لیے لکھا ہے۔ بعد میں غور کرنے پر پتہ چلا کہ وہ سب کرسیوں پر لکھا تھا۔
دو باتیں میں نے دیکھی۔ اصلی نسلی لوگ اب بھی ادب کے تقاضے جانتے ہیں۔
ادب اور ادیب دونوں ہی کی قلت ہے آج کی دنیا میں۔ لیکن اگر کسی کو ادب والوں کی صحبت نصیب ہوجائے وہ خوش قسمت ہے۔ اور میرے خیال میں تکیہ تارڑ کی نشست کے ریگولر شرکاء تارڑ صاحب سمیت اس لیے خوش نصیب ہیں کہ انکو اپنے انداز سے سوچنے والے مِلے ۔ سامعین کو تارڑ صاحب اور تارڑ صاحب کو سامعین ۔
لاہور کے ایک پارک کے عین وسط میں اپنی الگ دنیا بسائے بیٹھے ہیں۔ نا انکو پروا ہے دنیا میں کیا ہورہاہے ہے اور نا ہی انکو اس سے فرق پڑتا ہے۔ کیوں کے اُنکے دنیا تو وہ بارہ پندرہ کرسیوں میں گھومتی ہے۔ جن پر تشریف رکھنے والے ایک آدھ میری طرح کے شریک کے علاوہ مر کر ہی ساتھ چھوڑتے ہیں۔ ۔
آج آتے ہیں کچھ سیکھتے ہیں۔ گھر جا کر اسکو سوچ بچار کے بعد گھر چھوڑ آتے ہیں ۔ کل پھر آ جاتے ہیں کچھ نیا سیکھنے۔
تو یہ تھا جناب مستنصر حسین تارڑ ملاقات کا احوال۔ زیر نظر تصویر میں میرے لیے آٹوگراف لکھا جا رہا ہے۔ کبھی موقع ملا تو اپنی زندگی کا کچھ حصہ میں بھی وقف کروں گی ادب سیکھنے اور سکھانے کے لیے ۔
اور مزید کچھ تصویری جھلکیاں میں یوٹیوب پر شیئر کر دوں گی۔ ملاحظہ فرمائیں۔
 ۔
Exit mobile version