تحریر: عمار ایوب راجہ
(ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر)
حضرت امام غزالیؒ کا قول ہے کہ اگر اللہ سارا قران پاک واپس لے لے اور صرف ایک حرف "اعدلو” یعنی عدل کرو باقی رہنے دے تو تب بھی اس کائنات کا نظام چل سکتا ہے۔ قران کریم میں متعدد بار عدل کا حکم آیا ہے۔ "فرمایا! اے داؤد (علیہ السلام ) ہم نے تمہیں حکمرانی عطا کی سو تم لوگوں کے درمیان عدل کرو” ۔اللہ نے اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کے بعد اس امیر یا حاکم کی اطاعت کا حکم دیا ہے جو مخلوق میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی سب سے زیادہ اطاعت کرنے والا ہو۔ فرمان رسول ﷺ کے حوالے سے مفسرین اور محدثین نے لکھا ہے کہ جہنم میں منکرین، منافقین اور شیاطین کے بعد عورتوں اور قاضیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔ اکثر عورتیں غیبت کرتی ہیں اور اپنے شوہروں کی نافرمان ہوتی ہیں۔ اسی طرح قاضی عدل نہیں کرتے اور حکمرانوں سے مراعات لے کر مظلوموں اور محکوموں پر ظلم کرتے ہیں۔ فرمان ربی ہے کہ جب عدل کرو تو اپنے قبیلے، برادری اور خونی رشتوں کا بھی لحاظ نہ کرو۔ مگر موجودہ ریاستی نظام میں ایسا عدل بڑی حد تک محدوم ہو چکا ہے۔ باوجود اس کے عدل کرنے والے قاضیوں کی ایک قلیل تعداد موجود ہے جو دنیاوی لالچ اور ہوس زر کی چمک سے مرغوب ہونے کے بجائے خوف خدا کو ملحوظ خاطر رہتے ہوۓ عدل اور اعتدال میں توازن برقرار رکھتے ہیں۔ اللہ کی کائناتی ریاست عدل اور اعتدال پر استوار ہے۔ ابن خلدون کے مطابق اگر دنیا کی ریاست اللہ کی ریاست کی پرتو نہ ہو تو اس کا برقرار رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔
عدل و مساوات کے بغیر معاشرہ اور ریاست بکھر جاتے ہیں اور قومیں گروہوں میں تقسیم ہو کر بے راہ روی کا شکار جاتی ہیں۔ قانون کی حکمرانی عدل کی محتاج ہوتی ہے۔ قوانین کا نفاذ عدلیہ کرتی ہے اور جہاں قوانین میں سقم ہوں انہیں تدبیر، روایات،اخلاقیات اور حالات کی روشنی میں درست بھی کرتی ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ قاضی معاشرہ اور ریاست کا دل اور دماغ ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ ظالم اور مظلوم کی پرکھ نہیں کر سکتا اور نہ ہی عدل میں اعتدال برقرار رکھ سکتا ہے۔ عدل سے اعتدال نکال جائے تو عدل کا نظام اپنی مقصدیت کھو بیٹھتا ہے۔ بدقسمتی سے قاضیوں کی اکثریت عدل اور اعتدال کی روح سے واقف ہی نہیں ہوتی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ قانون بنانے والے خود قانون کی پاسداری نہیں کرتے قاضی انہی فرسودہ قوانین کے تحت فیصلے کرتے ہیں جو انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔ جو بھی قانون فطرت کے اصولوں اور الہی قوانین سے متصادم ہو اسے استدراجی اور سفلی قانون کہا جاتا ہے۔
لیو ٹالسٹائی لکھتا ہے کہ انسانوں کے بنائے قوانین کا خالصتا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ معاشرے اور ریاست میں عدل اور انصاف قائم ہو۔ قانون بناتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ مفاداتی طبقے کے حقوق پر کوئی آنچ نہ آئے اور برسر اقتدار طبقہ قانون کی آڑ میں اقتدار پر قابض رہے۔ نظریاتی پہلو سے بے شک قانون کا مقصد عدل اور انصاف کا قیام ہی ہوتا ہے مگر عملا ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ قانون کا واحد مقصد مقتدر اعلیٰ کو تحفظ فراہم کرنا اور مراعات یافتہ طبقے کو سہولیات فراہم کرنا ہے۔ قانون کبھی بھی چرواہے اور جاگیردار کے ساتھ یکساں انصاف نہیں کرتا۔ چرواہے کی بکریاں اگر جاگیردار کے کھیت میں چلی جائیں تو اسے سزا ملتی ہے مگر جاگیردار جس قدر چاہے زمین پر قبضہ کر سکتا ہے کیونکہ زمین نہ عوام اور نہ ہی خدا کی ملکیت تصور ہوتی ہے۔ قانون کی نظر میں زمین کا مالک بادشاہ اور حکومت ہے۔ عوام کا کام قانون کا احترام کرنا ہے جو بادشاہ اور جاگیردار مل کر بناتے ہیں۔
قانون صرف اس لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ ایسے لوگوں کا قلع قمع کیا جائے جو عام سطح سے بلند ہو کر سوچتے ہیں اور موجودہ صورتحال کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ سیاسی مجرم اور ملک دشمن تصور کیے جاتے ہیں جن کی سزائیں قانون کی کتابوں میں لکھ دی گئی ہیں۔ قانون عوام کو حکمران کی تابعداری پر مجبور کرتا ہے۔ قانون بنانے والی مجلس کا سربراہ حکمران ہوتا ہے اور اسی کے نام سے قوانین کا اجراء ہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ عدل و مساوات، انسانی حقوق اور آزادی پر تقریریں کرنے والے اور قانون کی کتابیں لکھنے والے دانشور کوئی ایسا قانون واضح نہیں کر سکے جو سب انسانوں کے لیے برابر اور غیر قانونی ہتھکنڈوں سے پاک ہو۔
ٹالسٹائی لکھتا ہے کہ قانون کے شکنجے میں جکڑا انسان بے بسی کے عالم میں خدا یا پھر قاضی کی طرف دیکھتا ہے جو خدا کی زمین پر خدائی اختیارات کا محافظ ہوتا ہے۔ قاضی کی ذہانت جبری قانون کو اصلاحی عمل میں بدلنے کا اختیار رکھتی ہے۔ قاضی کا دل گواہ کے سچے یا جھوٹے ہونے کی گواہی دیتا ہے اور ملزم کا چہرہ اس کی بے گناہی کا سب سے بڑا ثبوت ہوتا ہے۔ اگر قاضی دل کی انکھ سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو تب ہی وہ انصاف کر سکتا ہے۔
کشمیر کی غلامانہ تاریخ کے پانچ سو سالوں میں بھی عدل و اعتدال کی اچھی اور قابل تقلید مثالیں موجود ہیں اور عدلیہ کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ یورپ کا فرسودہ معاشرتی نظام محض عدل کی بنیادوں پر قائم ہے۔ عدل و مساوات کے لحاظ سے چین، جاپان اور سنگاپور کا معیار سب سے بلند ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی 78 سالہ تاریخ میں جسٹس میاں شاہ دین، جسٹس کارنیلس، جسٹس دراب پیٹل اور جسٹس ایم-آر کیانی کے علاوہ عدلیہ کی ساری تاریخ کسی نہ کسی لحاظ سے داغدار ہے۔
انگلینڈ کا رابن ھوڈ، سسلی کا مشہور مافیا، پنجاب کا جگا گجر ، چراغ بالی اور محمد خان ڈاکو، سندھ کا سجاول اور پھل ماچھی اور درجنوں ایسے کردار ہیں جو انتظامیہ کی چیرہ دستیوں اور عدلیہ کے بے حسی کی پیداوار تھے۔ ان پولیس والوں، ڈپٹی کمشنروں اور ججوں کے نام تو کوئی نہیں جانتا مگر ان قانون شکنوں کے انصاف کا آج بھی چرچا ہے۔ ان کرداروں پر کتابیں لکھی گئی، فلمیں اور ڈرامے بنے اور ان کی کچھاریں ثقافتی ورثے کا حصہ بن گئیں۔
مصر کے مشہور مصنف اور دانشور نجیب محفوظ نے لکھا ہے کہ عام آدمی حکومتی جبر اور عدالتی بے رخی سے مایوس ہو کر معاشرے اور ریاست سے انتقام لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ نے اپنی 50 سالہ تاریخ میں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جو عدلیہ کے لیے شرمندگی کا باعث ہو۔ عدالتی فیصلوں اور ججوں کی شخصیت و کردار پر اکثر سوال اٹھائے جاتے ہیں مگر، اگر عدل و اعتدال میں توازن برقرار ہے تو اسے بڑی حد تک نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ آزاد کشمیر کی عدالت عالیہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ یہاں کوئی جسٹس منیر پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی ریاست کی اعلی ترین عدالتوں نے بھٹو کیس جیسے کسی فیصلے پر ندامت اور شرمندگی کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ پاکستان اور آزاد کشمیر کا سیاسی کلچر اور حکومتی نظام ایک جیسا ہی ہے مگر اعلی عدلیہ کا مزاج مختلف اور بڑی حد تک عوام دوست ہے۔ ہماری عدلیہ کے سامنے کشمیر کی ہزاروں سال پرانی عدالتی تاریخ موجود ہے جہاں ظالم اور جابر بادشاہوں کے ادوار میں بھی قاضیوں اور ججوں نے ضرب المثال فیصلے کیے جو تاریخ کا حصہ ہیں۔
کشمیر کی تاریخ میں سید مبارک شاہ بہقی جیسے عادل بھی ہو گزرے ہیں جنہوں نے عیش و عشرت اور حکومتی امور سے غفلت کے جرم میں یوسف شاہ چک کو چھ ماہ کے لیے معزول کر دیا۔ حنیفہ بیگم بنام نیاز علی تھانیدار جیسے مقدمے پر تاریخی فیصلہ 1940 میں ڈوگرا دور میں ہی ہوا۔ نیاز علی تھانیدار کے وکیل قائد اعظم محمد علی جناح نے قانون سے ہٹ کر اسلامی کیلنڈر ، ہندو روایات اور دو خواتین کی گواہی کی بنا پر یہ تاریخی مقدمہ جیت لیا۔
آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ نے نصف صدی کا سفر طے کر لیا ہے جو کسی بھی لحاظ سے آسان نہ تھا۔ امید ہے کہ اعلی عدلیہ کے جج صاحبان اس پرخطر سفر کو آگے بھی ہمت، جرات اور عدل و اعتدال کی قوت سے جاری رکھیں گے۔ وہ حکمرانوں کے نہیں بلکہ عوام کے محافظ بن کر انسانی حقوق کے علمبردار رہیں گے۔ ولی کاشمیری لکھتے ہیں کہ عدالت وہ جگہ ہے جہاں نااُمید کی اُمید بھر آتی ہے اور شیر کے جبڑے سے نکل کر بھاگے ہوئے ہرن کو تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ شیخ سعدی لکھتےہیں کہ۔
"قارون بلاک شد کہ چہل خانہ گنج داشت
نوشین روان نمرد کہ نام نکو گزاشت”
مدت ہوئی 40 خزانوں کا مالک قارون مر گیا۔ نوشیروان عادل کو بھی اس دنیا سے گۓ صدیاں گزر گئیں مگر عدل کی وجہ سے آج بھی اس کا نام زندہ ہے۔