Tarjuman-e-Mashriq

ریاست میں اداروں کا قیام اور ضرورت-2

یہی احوال دیگر یورپی اور طاقتور اقوام کا ہے۔ چین جیسے عظیم ملک پر نسبتاً چھوٹے ملک جاپان نے قبضہ کرلیا اور پھر ہزاروں میل دور بیٹھے برطانیہ نے بھی چین پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ افیون جیسی لعنت میں ساری چینی قوم کو مبتلا کرکے ذہنی اور جسمانی لحاظ سے مفلوج کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔ جلد ہی چینی قوم کو سن یات سن، ماوزئے تنگ، چو این لائی اور مارشل چوتا جیسے قائدین میسر آئے جن کی رہنمائی میں چینی قوم نے نہ صرف جنگ افیون میں کامیابی حاصل کی بلکہ آمریت کیخلاف طویل جنگ کے بعد آزادی ، خود مختاری ، خود داری اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہُوئی ۔
عصبیت انسانی پیدائش کے بنیادی اجزاٗ کا قوت بخش عنصر ہے۔ انسان کی پیدائش مادے سے ہوئی جسے روح حیوانی کی قوت سے زندگی عطا کی گئی ۔ انسان اور دیگر مخلوق ارضی و سماوی میں فرق کی وجہ ‘‘نفخت فِی مِن رُوحی’’یعنی اللہ خالق کائینات کی طرف سے ایک اضافی روح جسکی قوت روح حیوانی جو کائینات کی ہر چھوٹی بڑی شے میں موجود ہے سے ہزاروں گنا زیادہ ہے۔ روح کیا ہے ؟ کوئی حکیم یا سائنسدان ظاہری مادی علم سے اسکا احاطہ نہیں کر سکتا ۔
قرآنِ کریم ‘‘سورۃ بنی اسرائیل آیت 86’’ میں فرمایا ‘‘روح امر رَبی ’’ یعنی اللہ کا حکم ہے جسکی تمہیں سمجھ نہیں چونکہ تمہارا علم محدود ہے ۔ جدید سائنسی علوم سے یہ تو ثابت ہے کہ انسان اور دیگر ارضی مخلوق زمینی اجزاٗ کے جوہر سے ہی پیدا ہوئی اور ہر مخلوق کے جسمانی اجزاٗ میں فرق ہے۔ انسان واحد ارضی مخلوق ہے جس کے جسمانی اجزائے ترکیبی میں زمینی اجزاٗ کے سوا نوری اجزاٗ بھی شامل ہیں جسے نورِ الہی یا روح رحمانی کہا گیا ہے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے حیوانی روح عطا کی گئی جو دیگر زمینی مخلوق میں بھی ہے مگر سوچ و فکر اور جزاٗ و سزا کا نظام صرف انسانوں کے لیے ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر روح رحمانی ہر شخص کا پیدائشی وصف ہے تو سارے انسان عصبیت، عقیدت، علمیت، سیاست، عقلیت اور فضیلت کے لحاظ سے یکساں کیوں نہیں؟ اگر ہم اللہ سے اس کے کلام قرآن کے ذریعے ہم کلام ہوں تو قدرت کاملہ جن میں تخلیق کائینات کے عمل سے پہلے اور بعد کے مراحل شامل ہیں کا جواب مل سکتا ہے ۔ موجودہ دور جسے جدید سائنس کا دور کہا جاتا ہے اور بظاہر انسان جدید علوم کے سحر میں مبتلا ہو کر اللہ خالق ومالک سے ہی نہیں بلکہ اپنی ذات سے بھی دوری اختیار کر چکا ہے ۔ اللہ نے حضرت آدم کو جنت سے زمین پر ڈال دیا تو فرمایا ‘‘البقراۃ 36 ’’ اترو زمین پر اب تمہارا یہی ٹھکانہ ہے اور تم ایک دوسرے کے دُشمن ہو گے۔ پھر فرمایا‘‘ سورۃ الاعراف آیت 21’’ اے لوگو شیطان تمہارا کھلا دُشمن ہے جس نے تمہارے باپ اور ماں (آدم ؑ اور حواؓ ) کوبرہنہ کیا اور اللہ نے اُنھیں ستر پوشی کیلئے پوشاک عطا کی اور اُن پر لباس اتارا ۔ پھر فرمایا تقوی یعنی پرہیز گاری بہترین لباس ہے ۔ تخلیقِ آدم ؑ سے پہلے یہ کائینات ہرلحاظ سے مکمل ہو چکی تھی۔ فرمایا تخلیقِ کائینات سے پہلے میرا تخت پانی پر تھا ۔ انسان اس پانی یا سمندر کی وسعتوں اور گہرائیوں کا ہی اندازہ نہیں کر سکتا تو اسے اللہ کے تخت کی کیا سمجھ ہو گی۔ قرآن حکیم کا ایک ایک لفظ قابلِ غور ہے مگر انسان اپنی ظاہری قوت جسے روح حیوانی یعنی زندگی برقرار رکھنے والی قوت کہتے ہیں میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اپنی عقل ، فہم و فراست اور علم سے اسکا احاطہ کر سکے ۔ مگر اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کو سمجھنے کا اختیار بھی انسان کو دے رکھا ہے اور یہ اختیار روح رحمانی کی قوت ہے ۔ اللہ نے انسان کو عقل و شعور کے ذریعے روح رحمانی کو سمجھنے اور اِس قوت سے اللہ کی تخلیق کردہ کائینات کے خفیہ رازوں تک پہنچنے کے طریقہ کار سے بھی آگاہ کیا مگر انسان مادی لذات اور شیطانی حربوں اور چالوں میں اسقدر جھکڑ جاتا ہے کہ وہ صرف ظاہری مادی علوم کی کرشمہ سازیوں کے دائرے سے نکل کر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم رہتا ہے۔
تحریر کے ابتدائیے میں ہی ہم نے تاریخ دانوں کے اخذ کردہ مختلف تہذیبی ادوار کا ذکر کیا ہے جنھیں دیگر محققین نے بڑی حد تک نہ صرف رد کیا بلکہ سوچ و فکر کرنے والوں کی صلاحیتوں پر بھی نشان لگا دیا۔ اس کی بڑی وجہ انسانی تاریخ کے دیگر پہلووٗں کو نظر انداز کرنا اور قیاس آرائیوں پر مبنی نتائج اخذ کرنا ہے۔ دُنیا کے بڑے حصے پر آباد انسان خُدا کے بعد خُدا کے بھیجے ہُوئے پیغمبروں اور الہامی کتابوں پر یقین تو رکھتا ہے مگر وہ خدا، خدا کے رسولوں اور کتابِ ہدایت میں درج خُدائی احکامات پر یقین کے بعد اُسپر عمل نہیں کرتا اور مادی لذات کے تابع احکامات الہی میں من گھڑت تاویلات اور تشریحات کے اصولوں پر گامزن ہے۔
وہ لوگ جو خدا پر یقین ہی نہیں رکھتے اور یونانی فلاسفہ کے نظریہ مادیت پر عمل پیرا ہیں اُن کی پچھلی نسلیں اللہ پر ایمان رکھنے والوں کی اولادیں تھیں ۔ وہ قومیں جیسے قوم عاد ، ثمود ، آلِ فرعون یعنی وہ قبطی جو فرعون کی خدائی کے قائل تھے ، قومِ لوط ، اصحاب رس، قوم ِ تُبہ اور قومِ نوح اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے تو پہلے ہی تباہ ہو چکیں تھیں ۔ وہ جو بچ گئے وہ اہلِ ایمان ہی تھے مگر اُن میں سے پھر کفر و شرک کرنے والے پیدا ہوئے جن کے پیروکار قیامت تک اپنے مادی مسالک اور ملحدانہ نظریات پر قائم رہینگے۔
سورۃ عنکبوت آیت 21میں فرمایا ‘‘ اے نبیؐ انھیں کہہ دو کہ وہ زمین میں پھریں اور دیکھیں کہ اللہ نے پیدائش کیسے شروع کی۔ وہ اللہ خالق و مالک زبردست حکمت والا ہے ۔ جیسے پہلے مخلوق پیدا کی ویسے ہی اسے مارنے کے بعد پھر پیدا کر سکتا ہے چونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ’’
سورۃ القصص آیت 57سے آگے اہل مکہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم میری قوت اور طاقت پر یقین نہیں رکھتے ہو کہ اگر ہم نے دین اسلام قبول کر لیا تو ہماری اہمیت ختم ہو جائیگی ۔ سارے عرب کے قبائل ہمارے دُشمن ہو جائینگے اور ہماری تجارت ختم ہو جائے گی ۔ مشرکین مکہ نے حضورؐ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ حق پر ہیں مگر آپؐ کاکہا مان لیا تو عرب کے خونخوار قبائل ہم پر چڑھ دوڑیں گے۔
فرمایا کیا میں نے تمہیں حرمت اور امن والے شہر میں پناہ نہیں دی ؟۔ دُنیابھر سے رزق کے اسباب جن میں میوے شامل ہیں تمہاری طرف چلے آتے ہیں ۔ کیا تم اِس کی سمجھ نہیں رکھتے ۔ پھر فرمایا کتنی بستیاں جو اپنی خوشحالی پر ناز کرتی تھیں اور اُن کے مکین اتراتے پھرتے تھے اور نافرمان تھے ۔ اُنھیں اللہ نے غارت کر دیا۔ اُن کی عیش و عشرت کو خاک میں ملا دیا۔ اُن کے گھر ویران ہو گئے اور کھنڈر بن گئے ۔ سوائے چند لوگوں کے کوئی باقی نہ بچا ۔ تم عرب قبائل کے خوف کی وجہ سے نہیں مانتے ۔ پھر فرمایا اللہ کسی بستی کو تباہ نہیں کرتا جب تک اُس کے پاس کوئی پیغام رساں یعنی ہدایت کا راستہ دکھانے والا نہ بھیجے ۔ یعنی یہ اللہ کا اصول ہے کہ وہ ہدایت کے واضع پیغام کے بعد ہی تباہی و بربادی کا حکم دیتا ہے ۔ کبھی وباٗ و امراض کی صورت میں ، کبھی غلامی اور رسوائی کی صورت میں، کبھی آسمانی و زمینی آفات و بلیات کی صورت میں ، کبھی قحط کی صورت میں اور کبھی جنگوں اور ایک دوسرے پر غلبے کی صورت میں۔ وہ قومیں جو اللہ کے احکامات کی پیروی نہیں کرتی ہیں اور اپنی عصبیت کے معیار کو برقرار رکھتی ہیں ، اپنی سوچ و فکر میں عقلیت ، علمیت ، سیاست اور فضیلت کو شامل رکھتی ہیں وہ اللہ کے پیغام پر بھی غور کرتی اور اپنے معاملات درست کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔
قرآنی تاریخ کے مطابق ملکہ سبا (بلقیس) کو حضرتِ سلمان ؑ کا خط ملا تو اُس نے اپنے سرداروں کا اجلاس طلب کیا اور سلمان ؑ کا خط سامنے رکھ دیا ۔ سرداروں نے باہم مشورے سے رائے دی کہ ہم ایک طاقت ور قوم ہیں اور مقابلے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہ سنکر ملکہ نے کہا کہ جنگیں ہمیشہ تباہی کا سامان لاتی ہیں ۔ ملک اور شہر برباد ہو جاتے ہیں ، عزت دار سردار اور معزز لوگ بے عزت اور بے توقیر ہو جاتے ہیں ۔ اگر ہم حضور ؐ اور خلفائے راشدین کے دور سے پہلے اور بعد کے حالات کا جائزہ لیں تو ملکہ سّبا کا بیان جو قرآن کریم میں بیان ہُوا ہے، حکمرانوں ، سیاستدانوں اور امور مملکت چلانے والوں کیلئے جامع پیغام اور قابل تقلید سبق ہے ۔
(جاری ہے)

Exit mobile version