Tarjuman-e-Mashriq

قائداعظم ؒ کا پاکستان

زیڈ اے سلہری لکھتے ہیں کہ قائد اعظمؒ جانتے تھے کہ پاکستان کے قیام کی صورت میں پاکستان بنانے سے زیادہ پاکستان بچانے کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی ۔ نئی اسلامی ریاست کا نظام چلانے کیلئے ہندووٗں اور انگریزوں پر زیادہ بھروسہ کرنا ممکن نہ ہو گا۔ سول اور فوجی افسروں کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں انگریز اور ہندو کثیر تعداد میں تھے جبکہ مسلمانوں کی تعداد انتہائی قلیل تھی۔ انگریزوں کو پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ کھڑا کرنے میں کوئی دلچسپی نہ ہو گی اور ہندو بھارت کو ترجیح دینگے۔ پنجاب ، سندھ، بلوچستان اور سرحد میں پڑھے لکھے لوگ جاگیردار، تمندار ، بڑے گدی نشین ، سردار ، خان بہادر اور وڈیرا شاہی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ علاقہ جات جنھیں پاکستان کا حصہ بننا تھا وہاں آبادی کے تناسب سے تعلیمی اداروں کی تعداد انتہائی کم تھی جہاں اُستادوں کی زیادہ تعداد ہندووٗں پر مشتمل تھی۔ بہت سے تعلیمی ادارے ہندو سیٹھوں اور سرمائیہ داروں نے کھول رکھے تھے یا پھر اُن کی مالی معاونت اور سرپرستی میں چلتے تھے۔ کوئٹہ ، کراچی، پشاور، لاہور، ڈھاکہ ، سلہٹ ، چٹا گانگ اور مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں پر ہندووٗں کی مکمل اجارہ داری تھی۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں میں علمی شعور تو تھا مگر وہاں ہندو تہذیب و ثقافت کا بھی غلبہ تھا۔ سول اور ملٹری بیورو کریسی میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی جس کی بڑی وجہ تعلیم کی کمی اور جاگیر دارانہ اور غلامانہ معاشرتی نظام تھا۔ با اثر طبقہ اپنے علاقوں میں نہ تو تعلیمی ادارے کھولنے میں دلچسپی رکھتا تھا اور نہ ہی اُن کی مرضی کے بغیر کوئی بچہ تعلیم حاصل کر سکتا تھا ۔ حالت اب بھی ویسی ہی ہے ۔ جگہ جگہ پرائیویٹ انگلش میڈیم سکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھلی ہوئی ہیں ۔ حکومتیں اپنے من پسند ممبران اسمبلی اور وزرا کو یونیورسٹیاں الاٹ کرتی ہیں۔ جو آگے چلکر پانچ سے دس کروڑ میں یونیورسٹی بیچ دیتے ہیں ۔ خفیہ ڈیل کے تحت کچھ رقم پارٹی سربراہان اور بیورو کریسی کو واپس کی جاتی ہے اور کچھ حصہ الاٹ کنندگان الیکشن اخراجات کیلئے رکھ لیتے ہیں ۔ پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں کا معیار انتہائی پست ہے جبکہ سرکاری اداروں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔

زیڈ اے سلہری لکھتے ہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے ہی قائد اعظم ؒ نے قومی ترجیحات کا تعین کرلیا تھا جس میں امن و امان کی بحالی، ریاستی آئین جس کی بنیاد قرآن و سنت کے اصولوں پر استوار ہو گی کے علاوہ کرپشن کا خاتمہ، علمی اداروں کا قیام، معیشت ، صنعت و حرفت ، عدالتی اور انتظامی ڈھانچے کا قیام سرفہرست تھا ۔ بد قسمتی سے پاکستان بننے کے بعد کسی بھی حکومت نے اسطرف توجہ نہ دی۔ حکومتوں ، اداروں اور حکمرانوں کی ترجیحات ذاتی مفادات کے دائروں تک محدود رہیں اور اب بھی ہیں ۔ ترقی اشتہاروں ، تقریروں ، تصویروں ، تحریروں ، سیمیناروں ، جلوسوں اور دوروں تک محدود ہے۔ برعکس اس کے جن ممالک نے بروقت قومی ترجیحات کا تعین کیا اور پھر اُسکا تسلسل جاری رکھا وہ ترقی یافتہ اقوام میں شمار ہوتی ہیں ۔ انڈونیشیا ، ملائشیا ، جنوبی کوریا، بھارت ، چین ، جاپان ، بنگلہ دیش ، عرب امارات اور سنگا پور کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ ہمارے سیاستدانوں ، اداروں کے سربراہوں ، صحافیوں اور دانشوروں کی اولین ترجیح ملکی وسائل لوٹنا اور اثاثے بیرون منتقل کرنا ہے ۔ سیاسی شعبدہ بازی اور کرائے کی حکمرانی پاکستان میں جڑھیں مضبوط کر چکی ہے اور اَب یہی پاکستان اور پاکستانیوں کا مستقبل ہے ۔ حالیہ سروے کے مطابق چھبیس کروڑ پاکستانیوں میں تین کروڑ بھکاری اور ایک کروڑ سرکاری اور نیم سرکاری ملازمین کے علاوہ پانچ لاکھ مراعات یافتہ لوگ ہیں جو سب کے سب عوام اور ملکی وسائل پر بوجھ ہیں ۔ سر الیگزنڈر برن نے سندھ ، پنجاب ، سرحد اور افغانستان کے بعد ثمر قند اور بخارا کی مہم کے دوران پیش آنے والے واقعات سے لیکر ماسکو اور ایران کے حکومتی رویوں ، عام لوگوں کے وطنیت، قومیت آزادی کی اہمیت اور دوسری اقوام اور ممالک کے متعلق خیالات اور عالمی حالات پر ایک لیکچر بادشاہ کی خواہش پر تیار کیا۔ یہ لیکچر تین دِن تک جاری رہا جسے بادشاہ اور کابینہ کے اراکین نے غور سے سُنا۔ اس لیکچر کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے لیفٹینٹ الیگزنڈر برن مصنف ـ‘‘Travel Into Bukhara’’ نے کہا کہ جو قومیں مسلسل غلامی میں رہنے کی عادی ہو جائیں اُن کی سوچ کبھی آزاد نہیں ہو سکتی۔ اُن کے عالم ، مفکر، سیاستدان، حکمران اور اہلِ اُلرائے ذاتی، مفاداتی اور گروہی دائیروں کے مقید ہوتے ہیں ۔ مقصد کے حصول کیلئے وہ کسی بھی طاقتور ملک ، ادارے اور شخصیت سے اتحاد اور اُس کی پناہ میں رہنے کو تیار رہتے ہیں ۔ ایسے لوگ ہوس اقتدار اور حرص زر کے غلام ہوتے ہیں اور وہ اپنی قوم اور قبیلے کو اسکا خوگر بنا لیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں وہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے نوابوں ، جاگیرداروں ، حکمرانوں اور ڈاکووٗں کی مثال دیتا ہے کہ ڈاکو دلیر اور جفاکش ہیں ۔ کسی بھی حکمران بشمول مہاراجہ رنجیت سنگھ کے اُن پر کنٹرول نہیں جبکہ طاقتور طبقہ خواہشمند ہے کہ انگریز سندھ اور بلوچستان کے علاقوں کو اپنی عملداری میں لے ۔

جنرل جیکب ، کرنل سنڈیمن اور کرنل منرو کی مہمات اسی فارمولے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے طے پائیں اور کسی خون خرابے کے بغیر ہی کامیاب ہو گئیں ۔ جنرل چارلس نیپئر نے بغیر کسی ٹھوس وجہ کے سندھیوں کا قتلِ عام کیا جس کے بعد بھی سندھ میں کوئی بڑی بغاوت نہ ہوئی ۔ امیرانِ سندھ ہمیشہ انگریزوں کے وفادار رہے جس کی وجہ سے 1947ء تک اُن کی ریاستیں ، جاگیریں اور گدیاں محفوظ اور مضبوط رہیں ۔

ماضی کی تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کا موجودہ نظام حکومت بھی کمپنی بہادر کے اصولوں پر استوار ہے۔ اگرچہ ملکی نظام ایک آئینی دستاویز کے حوالے سے چلایا جا رہا ہے مگر مقتدرہ اپنی خواہشات اور ترجیحات کے پیش نظر آئین میں رد و بدل کا اختیار رکھتی ہے ۔ جو آئین مقتدرہ کی مرضی کا محتاج ہو اسے کسی بھی صورت میں معائدہ عمرانی نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی ایسی حکومت جمہوری یا عمرانی کہلوانے کی حقدار ہو سکتی ہے ۔ یہ المیہ صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ دُنیا کے بیشتر ممالک میں جمہوریت جبر کی علامت بن رہی ہے ۔ غربت، تنگدستی ، بیماری اور دھشت گردی کے علاوہ طویل اور بے مقصد جنگی رجحان نے عوام اُلناس کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیوں نہ چینی یا روسی ماڈل کو بہتر انداز میں اپنا کر خوشحالی کی زندگی بسر کی جائے۔

زیڈ اے سلہری لکھتے ہیں کہ دوسرے مرحلے میں پاکستان، چین ، روس ، افغانستان اور ایران بھی ایک بلاک کا حصہ بن سکتے ہیں ۔ آزادی کے بعد بھارت ہمیں اپنے وسائل استعمال کرنے کی راہ میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے اسلیے ضروری ہو گا کہ ہم دیگر ممالک سے ملکر اپنے وسائل کو ترقی کیلئے استعمال کریں تا کہ جلد ہی خود کفالت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں ۔ زیڈ اے سلہری نے لکھا کہ اسلامی نظریہ ہی اتحاد کی علامت ہے۔ اسلامی نظریہ حیات ایک وسیع اور عالمگیر نظریہ ہے جسے ہر نظریے پر فوقیت حاصل ہے۔ پاکستان کا وجود ایک ایسے خطہ زمین پر قائم ہو گا جو اسلام کے اٹل نظریے پر ایمان رکھنے والوں کا صدیوں سے مسکن رہا ہے۔ سندھ، پنجاب، بلوچستان ، کشمیر اور چین کے ملحقہ علاقوں میں مسلمانوں کی کثیر تعداد موجود ہے ۔ افغانستان ، ایران، سعودی عرب، مصر ، ترکی اور آگے چلکر وسطحی ایشیائی ریاستیں ایک ہی آئیڈیالوجی کے ماننے والوں پر مشتمل ہیں ۔

وک ہام ‘‘Wickham’’ کی تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لندن کانفرنس میں اِس امر پر غور کیا گیا کہ کامن آئیڈیالوجی کے بغیر فیڈریشن کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ آئیڈیالوجی پر مبنی اتحاد جبری نہیں بلکہ رضا کارانہ اور عوامی خواہشات و عقائد پر قائم ہو سکتا ہے۔ اب یہ قیادت پر ہی منحصر ہے کہ وہ کس طرح عام لوگوں کے دِلوں میں نظریے اور عقیدے کی شمع روشن کرتی ہے اور اُسے وسعت دیتے ہوئے امن و ترقی کا ضامن بنانے میں کامیاب ہوتی ہے ۔ اگر ملکی سطح پر وسائل کو ملکر ترقی دی جائے اور پھر اُس کی منصفانہ تقسیم سے عام آدمی فیض یاب ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ عقیدہ اور نظریہ امن ، ترقی ، خوشحالی ، عدل و انصاف کا نہ صرف ضامن بن جائے بلکہ پڑوسی ممالک بھی اس سے فائدہ اٹھا کر امن و خوشحالی میں حصہ دار بن جائیں ۔

سرد جنگ کے دوران سابق سوویت یونین نے کیمونسٹ آئیڈیالوجی پر مبنی ایک مصنوعی اتحاد قائم کیا مگر سوشلسٹ کیمونسٹ آئیڈیالوجی کی بنیاد جبر اور عوامی خواہشات و عقائد کی نفی پر استوار کی گئی ۔ دیکھنے میں آیا کہ چین سمیت جن ممالک نے اس آئیڈیالوجی سے کنارہ کشی اختیار کی وہ نہ صرف کامیابی کی شاہراہ پر لوٹ آئیں بلکہ کامن آئیڈیالوجی کے ثمرات سے مستفیض ہو کر عالمی سطح پر ترقی و خوشحالی کی ضامن بن گئیں ۔ بھارت سابق سوویٹ یونین کا اہم اتحادی تو رہا ہے مگر کوئی بھی بھارتی حکومت ہندو آئیڈیالوجی اور چانکیائی فکر فلسفے سے منحرف نہ ہوئی۔ بھارت نے اپنی الگ آئیڈیالوجی پر قائم رہتے ہوئے سوشلسٹ اور کیپٹلسٹ بلاکوں سے بھرپور فائدہ آٹھایا اور ترقی کی کئی منازل طے کرتے ہوئے دنیا کا اہم ملک بن گیا ۔

زیڈ اے سلہری مشہور امریکی سفارتکا ر مسٹر والٹر لپ مین ‘‘Walter Lippmann’’ کی کتاب ‘‘امریکہ کی خارجہ پالیسی ’’ ‘‘The U.S. Foreign Policy’’ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اینگلو سیکسن فیڈریشن ایک حقیقت ہے ۔ ہم ایک ہی زبان بولتے ہیں امریکیوں کی رگوں میں مقدس پاکیزہ برطانوی خون دوڑتا ہے ۔ قدرتی طور پر ہم امن پسند قوم ہیں اگرچہ ہمارے درمیان وسیع سمندر حائل ہے۔ ہم ایک ہی نسل ، ایک ہی قبیلے اور خاندان کے لوگ ہیں جن کی سوچ و فکر ، فائدہ و نقصان ، دکھ درد، تکالیف ، پریشانی حتٰی کہ خوشیاں اور شادمانیاں مشترک ہیں ۔ اسکا مظاہرہ دو بڑی جنگوں کے دوران ہو چکا ہے ۔ زمینی اور سمندری فاصلے بے معنی ہیں ۔ ہمارے خون کی کشش ہمیشہ ہمیں ایک دوسرے سے قریب رکھتی ہے اور آئیندہ بھی رکھے گی ۔

اینگلوسیکسن رشتہ و تعلق جسے وہ فیڈریشن کا نام دیتا ہے ، وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو گا اور یہی تعلق فیڈریشن کی صورت میں ہماری ترقی اور قوت کا باعث ہو گی۔ مسٹر وک ہام ‘‘Mr. Wickham’’ نے اسے عالمی امن کا ایجنڈا قرار دیااور مشہور اینگلو انڈین نیوز پیپر ‘‘ دِی سٹیٹسمین ’’ ‘‘The Statesman’’ نے لکھا کہ 1941ء میں چرچل نے یورپ اور خاصکر فرانس کو ایسی ہی تجویز پیش کی کہ کیوں نہ فرانس اور برطانیہ کے عوام کی مشترکہ شہریت تسلیم کر لی جائے مگر فرانس نے اسے تسلیم نہ کیا۔

امریکی سفارتکار ‘‘Mr.Stetlinius’’ نے اس موضوع پر برطانوی وزرا سے طویل مذاکرات کے بعد واشنگٹن پہنچتے ہی بیان دیا کہ برطانیہ اور امریکہ مستقبل میں یک جان و قالب کی صورت میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے ۔ عالمی اور علاقائی سطح پر اُن کی ترجیحات یکساں ہونگی ۔

زیڈ اے سلہری لکھتے ہیں کہ قائد اعظم ؒ اِن ملاقاتوں اور ان کے نتیجے میں عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ وہ نہ صرف پاکستان کے مستقبل بلکہ عالم اسلام کو پیش آنیوالی مشکلات کا بھی جائیزہ لے رہے تھے ۔ جسطرح برطانیہ اور امریکہ سارے یورپ کو اپنی گرفت میں لیکر عالمی سطح پر ایک من پسند امن کی منصوبہ بندی کر رہے تھے ویسے ہی قائداعظم ؒ پاکستان، افغانستان ، ایران ، ترکی اور سعودی عرب پر مبنی ایک مضبوط اسلامی بلاک اور پھر روس، چین اور مصر تک اسکا دائیرہ کار بڑہاتے کی خواہش رکھتے تھے ۔ چرچل اور روزویلٹ کیلئے یہ کام آسان تھا مگر اِسلامی ممالک کو یکجا کرنا ہمالیہ سر کرنے کے مترادف تھا۔ ایران، ترکی، سعودی عربیہ اور مصر گونا گوں مسائل کا شکار تھے ۔ سوائے ایران کے سبھی اسلامی ممالک کے معدنی خزانے ابھی تک ریت کے سمندروں کے نتیجے تھے۔ سعودی عرب، ایران اور ترکی کے باہمی اختلافات کو مغربی طاقتیں مزید خلفشار اور انتشار میں بدل رہیں تھیں۔ اسرائیل کا قیام چرچل کی پہلی ترجیح تھی جسے روس، امریکہ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔ ایران اور ترکی معاشی پریشانیوں میں مبتلا تھے جبکہ افغانستان پاکستان کے قیام کا شدید مخالف تھا۔ فقیر آف ایپی کی صورت میں اُس کے پاس ایک مہرا تھا جسے وہ کانگرس ، جمعیت العلمائے اسلام ہند ، برٹش انڈین حکومت اور پاکستان مخالف مسلمان لیڈروں کی مدد سے استعمال کر رہا تھا۔ باوجود اس کے قائداعظم ؒ کو عوام پر اور عوام کو قائداعظم ؒ کے کردار و عمل پر مکمل بھروسہ تھا۔ ایک طرف فقیر آف ایپی ‘‘پہلے پختونستان اور پھرپاکستان’’ کا نعرہ لگا رہا تھا اور دوسری جانب امیر آف کابل کے قتل کی منصوبہ بندی میں بھی شریک تھا۔ عبدالرحمٰن درپا خیل ‘‘تاریخ وزیرستان’’ اور میر منشی سلطان محمد خان کی تصنیف ‘‘دی لائف آف عبدالرحمٰن امیر آف کابل ’’ اس سلسلے کی اہم دستاویزات ہیں ۔ لکھتے ہیں کہ اِن مشکلات کے باوجود قائداعظم ؒ کا وجدان متزلزل نہ ہوا اور نہ ہی کسی موقع پر اُنھہوں نے مایوسی کا اظہار کیا۔

کچھ پاکستانی صحافی پیر بگاڑا مرحوم کے ایک انٹرویو کا اکثر حوالہ دیتے ہیں کہ قاہرہ میں چرچل نے پنجاب کے یونینسٹ وزیراعظم سر سکندر حیات سے ملاقات کے دوران عندیہ دیا کہ عالمی جنگ کے دوران مسلمانوں نے جو قربانیاں دی ہیں اُس کے صلے میں ہم جلد ہی ہندوستان کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیں گے ۔ یہ ہماری طرف سے مسلمانوں کیلئے بلڈ منی یا بلڈ ٹرافی ہو گی ۔ شاید ہی دُنیا کے کسی ملک میں ایسے صحافی ہوں جو ایک ایسے شخص کی باتوں پر اپنی گھٹیا ذھنیت کا اظہار کرتے ہوں جسکا تحریک آزادی سے کبھی کوئی تعلق ہی نہ رہا ہو ۔ جس کی پرورش ہی انگریزوں نے کی ہو اور جو پیرانہ سالی کی وجہ سے اپنے ہو اس پر بھی قابو نہ رکھتا ہو۔ سہیل وڑائچ صحافیوں کے اسی گروپ سے تعلق رکھتا ہے جو خود کردار کے حوالے سے مشکوک جانے جاتے ہیں ۔ انگریزوں نے تو آخری دم تک کوشش کی تھی کہ آزادی مرحلہ وار ہو اور ہندوستان کسی بھی صورت میں تقسیم نہ ہو سکے ۔ اسلامی نظریاتی مملکت پاکستان کی ڈیمانڈ بڑھنے کے ساتھ ہی حکومت برطانیہ اور آل انڈیا کانگرس کے رہنماوں اور سوچ و فکر کے اداروں کی پریشانی میں بھی اضافہ ہوتا گیا ۔ جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ پانچ اسلامی ممالک میں سے کوئی بھی ملک آزادانہ اور خود مختارانہ رائے نہیں رکھتا تھا اور ہر لحاظ سے امریکی اور برطانوی دباوٗ میں تھا ۔ پڑوسی ملک افغانستان تو پاکستان کے نام کو ہی نفرت اور حقارت سے دیکھتا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ اُس کی سرحدیں کسی بھی صورت میں ہندوستان سے جُدا ہوں ۔

لندن ، دلی اور کئی دوسرے مقامات پر منعقدہ اجلاسوں میں کوشش کی گئی کہ اوّل اسلامی نظریاتی پاکستان نامی کسی الگ ملک کا قیام ہی نا ممکن بنا یا جائے اور اگر پاکستان کو آزادی دی بھی جائے تو اسے انڈین فیڈریشن یا یونائٹیڈ سٹیٹس آف انڈیا کا حصہ بننے پر مجبور کیا جائے۔

بمبئی کانفرنس میں فیصلہ ہوا کہ فیڈریشن کی صورت میں معیشت ، تجارت، صنعت و حرفت پر ہندووٗں کی اجارہ داری قائم رکھی جائے چونکہ مسلمانوں میں کوئی بڑا صنعت کار، ماہر معاشیات و تجارت نہیں اور نہ ہی شمال مغربی ہندوستان میں کوئی بڑی صنعت اور تجارتی منڈی ہے۔ اِس کانفرنس کا مقصد مسلمانوں کو ہر لحاظ سے ہندووٗں کا غلام اور محتاج بنانا تھا۔ اگرچہ جناب زیڈ اے سلہری نے ان کانفرنسوں کی کوئی واضع تاریخ تو نہیں لکھی مگر مفصل احوال اور بھیانک نتائج کا ذکر کیا ہے۔ تقسیم ہند کے فارمولوں میں ایک فارمولہ یہ بھی تھا کہ ہندوستان کو چار بڑے حصوں میں تقسیم کیا جائے جسکا صدر مقام دلی ہو۔ ہر صوبے کا الگ صدر مقام اور اندرونی لحاظ سے مکمل خود مختاری ہو۔ یہ تقسیم دریاوٗں کے بہاوٗ کو مدِ نظر رکھ کر کی جائے تا کہ صوبے ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اُٹھا سکیں ۔ ریلوئے ، فوج اور دیگر بڑے انتظامی ادارے مرکز کے کنٹرول میں رہیں تا کہ ہندوستان کا دفاع مضبوط اور معیشت ترقی کر سکے۔

اس فارمولے کی مخالفت کرتے ہوئے ڈاکٹر امبتھ کار جو کہ دلت لیڈر تھے نے کہا کہ یہ ایسے ہی ہے کہ یونائٹیڈ سٹیٹس آف امریکہ میں حکومت تو ڈیموکریٹک ہو اور ملک کا نظام سوشلسٹ ، کیمونسٹ نظریات کے تحت چلایا جائے۔ دوسری صورت میں روس میں کیپٹلسٹ نظام رائج کیا جائے اور حکومت سوشلسٹوں اور کیمونسٹوں کی ہو۔

قائداعظم ؒ نے ایسے من گھڑت فارمولوں کے جواب میں فرمایا کہ اگر مسلمان صوبوں نے تنگ آکر بغاوت کر دی تو اسکا منظر 1857ء کی جنگ آزادی سے بڑھ کر بھیانک ہو گا۔ ہندوستان میں اتنا خون بہے گا کہ دنیا دو عالمی جنگوں سمیت تاریخ میں رونما ہونے والے سارے خونی اور خوفناک واقعات بھول جائے گی ۔

‘‘The Implications of Pakistan’’ کے باب میں لکھتے ہیں کہ

"The Muslim Demand of Pakistan has provoked some objections from the British and Hindus. Firstly, both insisted that geographically India is one. Secondly, Economically Pakistan will not be self-sufficient. Thirdly, Its defence will be poor.”

برطانیہ نے لارڈ للینٹھ گرو ‘‘Lord Linlithgrue’’ اور لارڈ ویول ‘‘Lord Wavell’’ کے بیانات کے حوالے سے زور دیا کہ کسی بھی ملک کا جغرافیہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا چونکہ کسی بھی زمین کی جغرافیائی حیثیت مقدس ہوتی ہے ۔ قائد اعظم ؒ نے فرمایا کہ پھر یہ نظریہ کیوں پھیلایا گیا کہ‘‘ برطانوی راج پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا ’’ جن ازاد اور خود مختار ملکوں اور لوگوں پر یہ راج مسلط کیا گیا آخر اُن کی جذباتی اور مقدس حیثیت کیوں پامال کی گئی۔

یہ نظریہ ایک ڈھنگوسلہ ہے جسکا واضع مقصد یہی ہے کہ یہ چال حکومت برطانیہ کی خواہشات کے عین مطابق ہے۔ ہندووٗں کی خواہشات کے جواب میں ڈاکٹر امبتھ کار نے لکھا کہ شمالی ہندوستان آریہ ورت کا حصہ ہے اور ہندووٗں کا اس خطے سے مذہبی ، روحانی اور جذباتی رشتہ ہے جو توڑا نہیں جا سکتا ۔ جو لوگ تاریخ کے حوالے دیتے ہیں کیا وہ نہیں جانتے کہ کسی دور میں شمالی ہندوستان بشمول افغانستان ہندوستان کا حصہ تھا اور اُس حصے کے بسنے والے ہندو یا پھر بدھ مت کے پیروکار تھے۔ پھر یہی علاقہ تبت سے بحیرہ عرب اور جمنا وادی تک کشمیر کا حصہ رہا اور ساڑھے تین سو سال قبل مسیح میں سکندر اعظم کی آمد تک یہی علاقہ ایرانی سلطنت میں شامل تھا ۔ ہمارے تاریخ دان کیوں بھول جاتے ہیں کہ 762سال پہلے مسلمان حملہ آوروں نے کس مقصد کیلئے ان علاقوں پر حملہ کیا اور اسے عالمی اسلامی ریاست کا حصہ بنایا جسکا مرکز ہزاروں میل دور مدینہ تھا ۔

ڈاکٹر امبتھ کار لکھتے ہیں کہ ان حملوں نے اس خطہ زمین پر بسنے والوں کی تہذیب ، تمدن، ثقافت و روایات ہی بدل ڈالیں ۔ اب ان علاقوں کا کلچر اور عوامی کردار صدیوں بعد بدلنا مشکل ہے اور اِن کیلئے الگ وطن ‘‘پاکستان’’ کا حصول ہی آزادی ہند کی صورت میں بہترین حل ہے ۔ کمزور معیشت کے سوال پر قائد اعظم ؒ نے جواب دیا کہ عالمی جنگ کے اختتام پر کسی بھی ملک کی معیشت اتنی مضبوط نہ ہو گی کہ وہ اپنے عوام اور اتحادیوں کی مشکلات اکیلے حل کر سکے۔ اس مسئلے پر روس ، امریکہ اور برطانیہ پہلے سے ہی تبادلہ خیالات کر رہے ہیں کہ عالمی سطح پر کوئی ایسا ادارہ قائم کیا جائے جو کم آمدنی اور کمزور وسائل رکھنے والے ممالک کی مدد کر ے تا کہ وہ اپنے پاوٗں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت پیدا کر سکیں ۔ یقیناً پاکستان بھی اِن عالمی معاشی اداروں سے مدد لیکر اپنے وسائل بروئے کار لانے کی صلاحیت پیدا کر لے گا۔

مسٹر ڈونلڈ نکلسن چیرمین آف امریکن وار پروڈکشن بورڈ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کو چاہے کہ جنگ کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں صنعت کاری کیلئے امداد کا اعلان کرے تا کہ امریکہ اِن صنعتوں سے نہ صرف فائدہ اُٹھا سکے بلکہ سفارتی ، تجارتی اور سیاسی روابط قائم کرنے میں کامیاب رہے ۔ امریکہ کا یہ دوستانہ رویہ دنیا میں نئے اخلاقی روابط پیدا کرنے اور نئی روایات قائم کرنے کا باعث ہو گا۔ ڈاکٹر امبتھ کار نے اپنے تبصرے میں کہا کہ اگر امریکہ اور عالمی معاشی ادارے ایسا کرینگے تو یقیناً پاکستان جلد ہی معاشی لحاظ سے ایک خود کفیل ملک ہو گا۔ ولی کاشمیری لکھتے ہیں کہ اگر پاکستان آج تک معاشی لحاظ سے کمزور اور دنیا کا مقروض ترین ملک ہے تو اِس کی ذمہ داری نااھل ، ہوس پرست، کرپٹ، بد دیانت اور تاجرانہ ذھنیت کی قیادت اور غلامانہ ذھنیت کی عوام ہے۔

اسی اعتراض کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ جس خطہ زمین پر پاکستان کے قیام کی مانگ کی جا رہی ہے۔ وہاں کوئی کارخانہ اور فیکٹری ہی نہیں ۔ ہندوستان کی ساری صنعتیں کانپور، دلی اور زیادہ تر وسطی اور جنوبی ہند کے علاوہ بنگال کے ان حصوں میں ہیں جو ہر لحاظ سے بھارت کا حصہ رہینگے ۔ پاکستان کے قیام کی صورت میں مسلمان اِس صنعتی نعمت سے محروم ہو کر غربت، تنگ دستی اور بڑے پیمانے پر بیروزگاری کا شکار ہو جائینگے۔

قائداعظم ؒنے فرمایا کہ مغلیہ دور میں بلا تعصب بنگال ، وسطی ہند اور دیگر علاقوں میں زمینی پیداوار کے لحاظ سے صنعتیں لگائی گئیں جن پر انگریزوں نے قبضہ کیا اور ہندو تاجروں اور سرمائیہ کاروں کی مدد سے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ برطانیہ دو سو سال سے اس ملک پر حکومت کر رہا ہے مگر اسے شمالی ہندوستان میں صنعتیں لگانے کا کبھی خیال کیوں نہیں آیا۔ ہندوستان میں روئی کی سب سے زیادہ پیداوار مغربی پنجاب میں ہوتی ہے مگر کارخانے کانپور، بنارس اور دلی میں قائم کیے گئے تا کہ وہاں کے مقامی باشندے ان صنعتوں سے فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔ اگر یہی کارخانے لائلپور ، منٹگمری اور لاہور میں قائم کیے جاتے تو آج یہ من گھڑت اور بد نیتی پر مبنی اعتراض نہ اُٹھایا جاتا۔

قائداعظم ؒ نے فرمایا کہ کیا دنیا کے سارے ملک اپنی جغرافیائی ، قومی اور ریاستی شناخت کے ساتھ ہی صنعتی ملک بن گئے تھے ۔ یقیناً روس، امریکہ، برطانیہ اور جرمنی روز اوّل سے ہی صنعتی ملک نہ تھے ۔ قومیں غیرت ، ھمیت، عزت و آزادی اور خود مختاری کے ماحول میں اپنا معاشرہ اور ملک سنوارتی ہیں اور علم و ہنر کی قوت سے صنعتی ، تجارتی اور دفاعی لحاظ سے مضبوط اور خوشحال ہو جاتی ہیں ۔ مغلوں کی آمد سے پہلے ہندوستان سونے کی چڑیا نہ تھا اور نہ ہی مسلمانوں کو ہندووٗں اور دیگر مذاھب کے ماننے والوں پر معاشی برتری تھی۔

صنعت کاری، کاشتکاری اور خوشحالی کے دروازے سب پر کھلے تھے۔ سرکاری اداروں میں علمیت اور قابلیت کی بنا پر نوکریاں اور عہدے دیے جاتے تھے نہ کہ مذھب اور عقیدے کی بنا پر۔ فرمایا کہ معاشی توازن کی بنیاد سیاسی استحکام پر ہے۔ پاکستان ایک اسلامی سیاسی وحدت کی بنیادوں پر استوار ہو گا جو اسلامی معیشت اور تجارت کا اعلیٰ نمونہ پیش کریگا۔

لکھتے ہیں کہ قائد اعظم ؒ کی سوچ و فکر پر مبنی ایک اخبار نے دلچسپ مضمون شائع کیا ہے:

"So easily Pakistan can be tomorrow what it is not today-that is, Industrialised. It is not doomed for ever because its past rulers were not painstaking enough to worry about its Industries”

آگے چلکر "How and Why”کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے افرادی قوت ، ہنر مندوں کی تعداد ، زمینی وسائل ، محنت ، لگن اور ایسے اداروں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہنر مندوں کی تعلیم اور تربیت کر سکیں ۔ عوام میں جذبہ حمیت ہو تو پیسہ پیسہ جمع کرکے سرمائیہ جمع کیا جا سکتا ہے۔ بے شک صنعتیں کسی بھی قوم کی خود مختاری کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہیں ۔ ہمیں اب سے ہی شمالی ہند میں صنعتکاری کیلئے منصوبہ بندی کرنا ہوگی تاکہ آزادی کے فوراً بعد ہم قومی تعمیر نو کے منصوبوں کو جنگی بنیادوں پر شروع کر سکیں ۔ شمالی ہند کے وہ علاقے جہاں آزاد مسلم پاکستان قائم ہو گا قدرتی خزانوں سے مالا مال ہے ۔ ہماری سب سے بڑی طاقت ہمارے دریاوٗں کا پانی ہو گا۔ سستی اور وافر مقدار میں برقی توانائی کے بغیر اور سماجی ترقی کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہوتی۔ ہم دریاوٗں پر بجلی گھر قائم کرینگے تو دنیا کا ہر ملک اِس میں سرمائیہ کاری کا خواہاں ہو گا۔ پاکستان کو اللہ نے دریاوٗں کی صورت میں بڑی قوت سے نوازا ہے ۔ انشا اللہ آزادی کے بعد ہم نہ صرف برقی قوت میں خود کفالت حاصلی کرلینگے بلکہ ہندوستان، ایران، اور افغانستان کو بجلی مہیا کرنے والا ملک ہونگے۔

کوئلہ اور لوہا صنعتی ترقی کا اہم جُز ہے۔ سندھ، سرحد، بلوچستان، پنجاب اور بنگال میں وافر مقدار میں کوئلہ موجود ہے۔ بنگال ، بلوچستان اور آسام کا کوئلہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اسی طرح بلوچستان ، آسام اور سرحد کے جنوب مشرقی علاقوں تیل اور گیس کے ذخائیر موجود ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں تیل کے ذخائیر اسقدر ہیں کہ ہم اپنی ضروریات میں خود کفالت کے بعد ہندوستان کو بھی پیٹرولیم مصنوعات مہیا کر سکیں گے۔ مضمون میں لکھا گیا کہ دو ٹن کوئلے سے ایک ٹن لوہا پگھلایا جا سکتا ہے۔ سٹیل ملوں کے قیام کیلئے لوہا ہی بنیادی قوت ہے مگر دنیا میں ایسے بھی ملک ہیں جہاں لوہا سرے سے موجود ہی نہیں مگر پھر بھی وہ دنیا کے بڑے صنعتی ممالک میں شامل ہیں ۔ اس کی بہترین مثال جاپان اور اٹلی ہیں جبکہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال اور بہترین افرادی قوت رکھنے والا ملک ہو گا۔ قدرت نے ہماری آبادی اور ضروریات سے زیادہ وسائل ہماری مٹی میں پوشیدہ کر رکھے ہیں اور یہی وسائل ہماری خوشحالی اور دفاع کے ضامن ہوں گے۔ ایک دوسرے موقع پر علامہ اقبالؒ اور سر راس مسعود کے دورہ افغانستان کے حوالے سے لکھا گیا کہ علامہ نے افغان بادشاہ نادر شاہ اور اُن کے سرداروں کو مشورہ دیا کہ آپ لوگ اپنی آزادی سے فائدہ اُٹھائیں ۔ ایک مضبوط ، خوشحال ، ترقی یافتہ اور پُر امن افغانستان عالم اسلام اور عالمی امن کیلئے ضروری ہے۔ اللہ نے آپ کو آزادی کی نعمت کے ساتھ قدرتی وسائل سے بھی نواز رکھا ہے۔ آپ ایک دلیر ، جفا کش اور بہادر قوم ہیں ۔ مدرسوں کی تعلیم کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی پر توجہ دیں اور ٹیکنیکل اداروں کا قیام عمل میں لائیں قیمتی پتھروں کی تجارت پر زیادہ بھروسہ نہ کریں بلکہ تیل اور گیس کے ذخائیر بروئے کار لائیں ۔ نادر شاہ نے علامہ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ یورپی ممالک جو تیل و گیس کے کنویں کھودنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اُن کی شرائط آزادی گروی رکھنے کے مترادف ہیں ۔ وہ جسقدر معاوضہ طلب کرتے ہیں ہمارے پاس اتنا سرمائیہ نہیں ۔ دوسری صورت میں وہ طویل عرصہ تک ان وسائل پر اجارہ داری کی رعائت طلب کرتے جو فی الحال ہمارے لیے ممکن نہیں ۔ اس سلسلے میں میری روسی سفیر سے ملاقاتیں ہو چکی ہیں دیکھے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ ایران کی بد امنی کی وجہ اُسکا تیل ہے۔ ایک طرف روس اور دوسری طرف برطانیہ تیل کی دولت پر قبضے کی جنگ لڑ رہا ہے۔

سر راس مسعود نے کہا کہ مغربی ممالک میں میرے کئی کمپنیوں کے سربراہان سے رابطے ہیں ۔ میں پوری کوشش کرونگا کہ آپ کی اُن سے ملاقات ہو اور بہتر شرائط پر آپ اپنے وسائل سے فائدہ اُٹھا سکیں ۔ بد قسمتی سے علامہ اقبالؒ کی قیادت میں یہ وفد جس میں سر داس مسعود اور علامہ سید سلمان ندوی شامل تھے براستہ غزنی، قندہار، کوئٹہ سے ہوتے ملتان پہنچے تو یہ درد ناک خبر ملی کہ امیر کابل نادر شاہ کو ایک نوجوان عبدالحق ہزارے نے قتل کر دیا ہے۔ اس قتل کے نتیجے ہیں افغانستان میں بد امنی پھیل گئی اور ہزارہ قوم کا قتل عام شروع ہو گیا ۔ انگریزوں اور کانگرس کا تیسرا اعتراض کمزور دفاع تھا۔ قائداعظم ؒ نے فرمایا کہ ہمارا دین ہماری دفاعی قوت ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے مال ، جان اور وطن کی حفاظت کرے۔ کیا غزوہ بدر اور غزوہ تبوک وسائل کی برتری کی بنا پر لڑے گئے تھے؟۔ ہر قل روم کے خلاف اللہ کے نبی ؐ نے کوچ فرمایا تو مدینہ میں قحط تھا ۔ طویل صحرائی سفر اور وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ دوسری طرف دنیا کی دوسری بڑی قوت سلطنت روما تھی مگر مسلمانوں کا جذبہ جہاد اور استقلال دیکھتے ہوئے ہرقل روم نے اپنی فوجیں محاذ سے ہٹالیں ۔

جنگیں صرف فوجی برتری سے نہیں بلکہ قومی جراٗت ، جذبے اور قربانی سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں ۔ ہٹلر اور چرچل کی تقریروں کا موازنہ کیا جائے تو دونوں ایک ہی بات کرتے ہیں اور وہ بات نیشلزم ہے جسے ہم نسلی برتری ، حمیت اور حُب الوطنی بھی کہہ سکتے ہیں ۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہو گا جس کے شمال مغرب سے لیکر جنوب مغرب تک دواسلامی ملک افغانستان اور ایران ہونگے ۔ جنوب میں بحیرہ عرب اور اسلامی جزیرہ نما عرب اور شمال میں چین ہو گا۔ چین ایک عظیم ثقافتی اور تاریخی روایات کا حامل ملک ہے جس نے کبھی بھی ہند پر حملہ نہیں کیا۔ انگریزوں سے پہلے ترکوں اور مغلوں کے چین کیساتھ دوستانہ تعلقات رہے ہیں ۔ ہمیں اُمید ہے کہ آزادی کے بعد دیگر اقوام کی طرح ہندوستان بھی ہماری آزادی کا احترام کریگا۔ ہم ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اُٹھائینگے اور ملکر دوستانہ ماحول میں ترقی کی منازل طے کرینگے۔ جوں جوں ہمارے وسائل ترقی کرینگے ہماری دفاعی قوت میں بھی اضافہ ہو گا۔ مسلمان جس لگن سے مسلم لیگ کے سپاہی بن کر الگ وطن کیلئے یک زبان ہیں ویسے ہی ملکر زندگی کے ہر میدان میں ترقی کی منازل طے کرینگے ۔ سائنس و ٹیکنالوجی ہو یا کوئی دوسری صنعت اسکا دارومدار علم پر ہے۔ علم مومن مسلمان کی میراث ہے اور ہمارا دین ہمیں علم و آگاہی کا حکم دیتا ہے۔ آج یورپ سمیت جہاں بھی سائنس و ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں اُس کی بنیادمسلمانوں نے ہی رکھی۔ ہم جس علم کے بانی ہیں اسے پھر سے راج کرنا ہمارے لیے مشکل نہ ہوگا۔

شاید قائداعظم ؒ کے پاکستان کی کہانی کا یہی اختتام تھا۔ 14اگست 1947ء کے بعد برطانوی سامراج کی سیاسی چال کامیاب ہوئی اور 23مارچ 1940ء کے بعد اور کچھ اُس سے پہلے جنرل نکلسن کے پیرو کار گدی نشینوں ، جاگیرداروں ، تمن داروں ، خان بہادروں ، سرداروں اور نوابوں کی اولادوں نے دھڑادھڑ مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ دوسری کھیپ انگریزوں کی پروردہ سول بیوروکریسی اور نودولتیے سیٹھوں اور سیاستدانوں کی تھی جنھہوں نے ملکر قائداعظمؒ کے پاکستان پر قبضہ کرلیا۔ ایک طرف وزیراعظم لیاقت علی خان اور دوسری طرف ڈیفنس سیکرٹری اسکندر مرزا نے اپنے اپنے محاذ سنبھال کر قائد اعظمؒ کو اُن کی زندگی میں ہی ریاست کے خارجی اور داخلی معاملات سے بے خبر رکھنا شروع کر دیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور مسئلہ کشمیر ان ہی لوگوں کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے۔ قائداعظم ؒ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جو وقت و حالات کے طوفانوں نے کھوکھلی کردی۔ آج کا پاکستان سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے جسکی بنیادی وجہ نا اھل ، خود غرض اور ہوس پرست قیادت اور غلامانہ ذہنیت  کی عوام ہے.

Exit mobile version