عوام میں انسانی رویوں کو پرکھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے عام لوگ طرح طرح کے مسائل میں اُلجھے ہوئے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے شاطر سیاستدان ، تاجر ، صنعت کار حتیٰ کہ فروعی استدراجی علوم کے عامل اُن پر غلبہ حاصل کر لیتے ہیں ۔ سیاستدان عوام کو عدل و انصاف ، خوشحالی امن و آزادی کا حکم دیکر ووٹ حاصل کرتے ہیں اور حکمران بن کر عوام کا بچا ہوا سرمایہ بھی لوٹ لیتے ہیں۔ سیاستدان اپنی حکومتی مدت پوری کرتے ہیں اور پھر اپنا جھوٹا منشور لیکر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں اور عوام ہرباردھوکہ کھاتے اور ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ غربت و افلاس اور طرح طرح کی نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہو کر دین سے بھی دور ہو جاتے ہیں ۔ سیاستدانوں میں اکثریت تاجروں صنعت کاروں اور معاشرے کے بد نام افراد اور غنڈہ گردوں کی ہے۔ ہر سیاسی جماعت میں غنڈوں کی ایک فوج بھرتی کی جاتی ہے جنہیں وکیلوں ، صحافیوں اور ججوں کی حمائت حاصل ہوتی ہے۔ مایوسی کی حالت میں عام آدمی کا سہارا کوئی پیر ، فقیر ، درویش ، خانقاہ یا آستانہ ہی رہ جاتا ہے۔
فی زمانہ ایسے مشائخ ، پیر ، پیر زادے ، متولی اور عالم دین بھی ہیں جو خود دھوکہ دہی کی بنیاد پر الیکشن لڑتے ہیں چونکہ وہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ممبر اور اُمیدوار بھی ہوتے ہیں۔ اُن کا منشور قرآن و سنت نہیں بلکہ سیاسی جماعت کا منشور ہوتا ہے جس کی بنیاد دھوکے ، فریب اور فراڈ پر رکھی جاتی ہے۔ سیاسی جماعت پر چاہے دین کا لیبل لگا ہو یا سیکولر زم کا ، اُس کی بنیاد چانکیائی اور میکاولین نظریات پر ہی استوار ہوتی ہے ۔ پچھلے صفحات پراولیائے اللہ کے مراتب و درجات کا ذکر ہوا ہے۔
حضرت غوث الاعظم ؒ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’ غنیہ الطالبین ‘‘ میں صوفیا کی اقسام بھی لکھی ہیں۔ اسی طرح حضرت داتا گنج بخش ؒ نے اہل تصوف کی تین اقسام کشف المحجوت میں درج کیں ہیں ۔ آپ ؒ فرماتے ہیں کہ پہلی قسم صوفی ، دوسری متصوف اور تیسری مستصوف ہے۔ صوفی وہ ہے جو اپنے وجود سے فارغ ہو کر حق کے ساتھ باقی ہو جاتا ہے ۔ وہ خواہشات ولذات سے آزاد ہو کر حقائق میں جذب ہو جاتاہے۔
متصوف وہ ہے جو تزکیہ و مجاہد ہ کے ذریعے اس مقام کی جستجو میں ہے۔ مستصوف کے متعلق لکھتے ہیں کہ اُس کی مثال مکھی اور بھیڑیے جیسی ہے۔ یہ لوگ صوفیوں کی نقالی کرتے ہیں یعنی جعلی اور نقلی پیر ، درویش ، سائیں ، سادھوں ، صوفی سنت اور ڈھونگی فقیر بن کر بھڑوں کی طرح عوام کا خون چوستے ہیں اور پھر بھیڑیوں کی طرح اُنکا شکا ر کرتے ہیں۔
جس طرح ہر دور میں چیز یں ناخالص ہوئیں ، شروفساد کا غلبہ ہوا اور پھر آپ ﷺ کی امت کے ولیوں نے طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کیا۔ حضرت معین الدین ابن عربی ؒ ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ، حضرت داتا گنج بخش ؒ، حضرت نظا م الدین اولیاؒ سلطان الہند اور حضرت مجد د الف ثانیؒ کی مثالیں ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ دنیاوی لذات و شہوات کے سمندر میں غوطہ زن مستصوف بھی اپنے آپ کو صوفی ، ابدال ، غوث اور قطب کہتے ہیں اور آستانوں پر بیٹھ کر مایوس لوگوں کو تعویز ، ذکر و اذکار اور وظائف بھی دیتے ہیں جو اکثر بے اثر ہوتے ہیں۔
دعائے حز ب البحر رسالہ دلائل الخیرات میں درج کیا گیا ہے جس میں فقرانے قصیدہ بردہ شریف کا بھی اضافہ کر دیا ہے۔ حز ب البحر میں حروف مقطعات کے علاوہ مقہوری الفاظ بھی شامل ہیں جس میں قہر و غضب اور غصے کا عنصر شامل ہے۔ اگرچہ یہ الفاظ قرآن کریم سے ہی اخذ کردہ ہیں جو کفار، منکرین اور منافقین کے لیے خداکے قہر و غضب اور دنیا و آخر میں سخت ترین عذاب کے لیے استعمال ہوئے ہیں ۔
بعض اوقات ہم ایسی تکالیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس میں ہمار قصور یا غلطی بھی شامل ہوتی ہے۔ خاندان اور معاشرے میں رہتے ہوئے کچھ غلط فہمیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں جس کا حل بھی موجود ہوتاہے۔ علمائے حق نے لکھا اور بیان کیا ہے کہ اصل صوفی اور ولی کبھی بد دعانہیں دیتا بلکہ شدید ترین مخالفین کے لیے بھی اصلاح کی دعا مانگتا ہے۔ علمائے حق نے اس کی مثال حضور ﷺ کے سفر طائف کی دی ہے۔ جب طائف کے سرداروں نے آپ ﷺ کو اذیت دی اور جسم اطہر زخموں سے چور ہو گیا تو اس موقع پر حضرت جبریل امین ؑ حاضر ہو گئے ۔ فرمایا اگرآپ ﷺ حکم دیں تو ملک الجبال طائف کے دونوں پہاڑوں کے درمیان اہل طائف کو کچل دے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ لوگ نا واقف ہیں انہیں سمجھ نہیں ۔ مجھے اُمید ہے کہ ان میں سے اہل ایمان اُٹھیں گئے ۔ میدان بدر میں عتبہ و شیبہ کے واصل جہنم ہونے کے باوجود اہل طائف باز نہ آئے اور اسلام دشمنی میں پیش پیش رہے ۔ آخر کار فتح مکہ کے بعد غزوہ طائف اور غزوہ بنو ثقیف نے ان کے دل بدل دیے۔
وہ لوگ جن کے خلاف جہاد کا حکم ہوا یا جنہیں شریعت کے مطابق قتل کرنے یا لا تعلقی کا حکم ہو ا یا وہ لوگ جو شرکش ہوئے اور مخلوق خدا کو انفرادی یا اجتماعی اذیتیں دینے کا باعث بنے انہیں اس حال میں بد دعا دی جائے کہ اللہ مخلوق کی حفاظت اور فرد معاشرے کے حقوق کی حفاظت کرے اور ظالموں ، جابر وں او ر خدائی کے دعویدار حکمرانوں اور بے انصاف لوگوں سے نجات دلائے۔
قرآن کریم اور تاریخ اسلامی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب فقرانے نہ صرف عملی جہاد میں حصہ لیا بلکہ اللہ سے فصل کرم کی دعا کیساتھ ظالموں اور غاصبوں سے نجات کے لئے بھی التجا کی۔ قرآن کریم میں ایسی آیا ت موجود ہیں جن میں کفار اور اُن کے ہمنوا مشرکین اور منافقین کی تباہی و بربادی کا ذکر ہے ۔ اللہ کے ناموںمیں جبار اور قہار بھی شامل ہے اور ان ناموں کے عالم و عامل بھی موجود ہیں۔ اللہ کے ناموں میں قوی اور عزیز ایسے نام ہیں جن میں قوت اور برتری کا عنصر غالب ہے۔ اللہ کے ان اوصاف کا نبیوں اور ولیوں کے سوا کوئی عالم ، سائنس دان ، ہیت دان یا محقق احاطہ نہیں کر سکتا ۔
دعائے حزب البحر کے عاملین کی تعداد بہت کم ہے ۔ جس کی وجہ مستصوف پیروں ، فقیروں اور شعبدہ بازوں کی بہتات ہے۔ ان بازاری اور ڈھونگی شعبدہ بازوں میں ایسی جرات نہیںہو سکتی کہ وہ اپنے بے بس او رنفسیاتی امراض میں مبتلا مریضوں کو ایسے وظائف دیں جن کی انہیں خو دسمجھ نہیں۔ اگر کوئی شخص ، مرد یا عورت اس وظیفے کا شوق رکھے اور اپسے مرشد کی رہنمائی بھی حاصل نہ ہوتو اُس کے لیے وظیفے کی زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔ وظیفے کی زکوٰۃ لذات وشہوت سے علیحدگی ، نفس امارہ کو کچلنے کے لیے نفلی عبادات کا اہتمام ، طہارت و پاکیزگی ، نیند پر غلبہ ، لغو گفتگو کرنے اور سننے سے پرہیز ، نتہائی میں مراقبہ اور نماز کی پابند ی کیساتھ قرآن کریم سے رہنمائی ضروری ہے۔ کوئی بھی انسان جب خلو ص نیت سے اللہ سے رجوع کرتا ہے تو قدرت اُس کی رہنمائی کاسبب بھی پیدا کردیتی ہے۔ سب سے عمدہ مثال مولانا رومؒ کی ہے۔ مولانا ؒکے ظاہری علم کا برتن چھلکنے لگا تو اللہ نے رہنمائی کے لیے شمس تبریز ؒ کو بھیج دیا۔ حضرت رابعہ بصریؒ کسی کی کنیز تھیں ۔ مالک ضرورت سے زیادہ مشقت ڈال دیتا۔ سارا دن کام کرتیں اور جب مالک سو جاتا تو آپؒ اندھیرے میں مصلیٰ بچھا کر عبادت الہٰی میں مصرف ہو جاتیں۔ ایک رات مالک کی آنکھ کھل گئی ۔ دیکھا کہ گھر کا ایک حصہ نور سے منور ہے۔ حضرت رابعہ ؓ رب تعالیٰ سے مخاطب ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ اے میرے ربّ میں کنیز ہوں اور مجھ پر کام کا بوجھ ہے۔ میں تیری یاد سے غافل نہیں مگر مالک کے حکم کی بجا آوری مجھ پر فرض ہے۔تو میری حالت سے بے خبر نہیں اور میری مجبوریاں جانتا ہے۔ بس رات کا یہی وقت تیری یاد کے لیے بچتا ہے تو اسے قبول کر ۔ مالک نے سنا تو خوفزدہ ہوگیا۔ صبح سویرے حضرت رابعہ ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی طلب کی اور درخواست کی کہ آپ میرے گھر ٹھہر نا پسند کریں تو عمر بھر آپ کی خدمت کرونگا۔ اگر جانا چاہیں تو آپ آزاد ہیں۔ جہاں چاہیں چلی جائیں۔
انسان جب اللہ سے رجوع کر لیتا ہے تو اللہ کی رحمت جوش میں آجاتی ہے۔ فقرااور صوفیا کی تصانیف میں ایسے ہزاروں واقعات درج ہیںجنہیں پڑھنے والوں کی تعداد کم رہ گئی ہے۔ خاتو ن اول بشریٰ بی بی نے امام شازلیؒ لائبریری اور تحقیقی مرکز کا سنگ بنیاد رکھا تو نامور کالم نگاروں نے بشریٰ بی بی اور شیخ ابوالحسن شازلی ؒکا تعلق ڈھونڈنے کی کوشش شروع کر دی۔ نواز لیگ سے تعلق رکھنے والیں شعلہ بیان مشین گنوں کو عمران خان اور بیگم بشریٰ پر تنقید کا سنہری موقع میسر آیا۔ مریم کی مرید نیوں نے اسے ایک ڈھونگ قرار دیا اور جو منہ میں آیا اگل دیا۔
میاں محمد بخش رومی کشمیرؒ نے ایسے لوگوں کے متعلق لکھا کہ :۔
جس وچ گجی رمز نہ ہوئے درد منداں دے حالوں
بہتر چپ محمد بخشا سخن اُجھہے نالوں
گجی رمز یعنی گہری سوچ و فکر تو اب دانشوروں میں بھی نہیں رہی جبکہ سیاستدان کی پیدائش ہی ایسے ماحول میں ہوتی ہے جہاں پھکڑپن کو دانش و حکمت سمجھا جاتا ہے۔ حضرت رابعہ بصریؒ کی خادمہ نے ہنڈیا چڑھائی مگر گھر میں پیاز نہ تھا۔ پڑوسی سے پیاز مانگنے نکلیں تو رابعہ بصری ؒ نے منع کر دیا۔ اتنے میں ایک پرندہ آیاور چھلا ہوا پیاز ہنڈیا میں ڈال کر اُڑ گیا۔ رابعہ بصریؒ نے اُٹھ ہنڈیا الٹ دی اور سوکھی روٹی کھا کر پانی پی لیا۔ خادمہ نے وجہ پوچھی تو فرمایا ، کیا پتہ کہ پرندہ کس کے گھر سے پیاز اٹھا لایا ہے۔ میرے نزدیک یہ چوری ہے ۔چوری شدہ پیازپر ہمارا حق نہیں۔
سارے ملک میں کوئی ایسا سیاسی گھرانہ نہیں جولوٹ مار اور کرپشن میں ملوث نہ ہواور جو رزق حلال کماتا اور کھاتا ہو۔ اُن کی اولادیں اور چہتے ورکر اُن سے دو ہاتھ آگے ہیں اور عوام کی عقل پر پردہ ہے۔ جو لوگ شیخ مجیب الرحمن ، الطاف حسین اور گاندھی کی آئیڈیالوجی اپنانے کا اعلان کر چکے ہیں انہیں دین کی روح ، حکمت و دانائی سے کیا غرض ہے۔ نواز شریف کے دور اقتدار میں شہباز شریف نے کچھ کتابوں پر پابندی عائد کی اور وجہ یہ بیان کی کہ ان میں تفرقہ بازی اور شر و فسا د پھیلانے کا مواد موجود ہے۔ جن کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ان میں حضرت غوث الااعظم ؒ کی مشہور زمانہ ’’غینتہ الطالبین ‘‘ بھی شامل کی گئی ۔ اسی طرح اسحاق ڈار نے حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر آنے والے زائرین اور نمازیوں کے جوتوں پر پچاس روپے فیس مقرر کی جس کی وجہ سے زائرین اور نمازیوں کی تعداد کم ہو گئی۔ مقامی نمازیوں کو روزانہ ڈھائی سو روپیہ نماز ٹیکس ادا کرنا پڑا تو لوگوں نے داتا صاحب مسجد میں آنا چھوڑ دیا۔
اس موقع پر 92چینل پر دینی پروگرام کے میزبان جناب جسٹس (ر) نذیر احمد غازی نے فرمایا کہ اسحاق ڈار باز نہ آیا تو وہ اپنے جوتے چھوڑ کر بھاگ جائیگا۔ آج اسحاق ڈار اور نواز شریف انگلینڈ میں کرپشن کی کمائی سے خریدے عالیشان محلات میں تو رہتے ہیں مگر ذلت و رسوائی بھی اُن کا مقدر بن چکی ہے۔
اللہ کے ولی بدد عاتو نہیں دیتے مگر اللہ کو اپنے بندوں کی توہین بھی برداشت نہیں ہوتی ۔ اللہ کی چکی آہستہ چلتی ہے مگر باریک پیستی ہے ۔ مریم نواز اور اُس کے خدام کو چاہیے کہ وہ عمران خان دشمنی میں حد سے نہ نکلیں اور اللہ کے بندوں کی توہین سے باز آئیں ۔ حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ صاحب کے حوالے سے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ روالپنڈی کے کچھ معتبر گھرانے جو خود فقرو ولائیت کے دعویدار تھے اور سکھ حکمرانوں سے بھی قریبی تعلقات رکھتے تھے۔ ان لوگوں کے اُکسانے پر راولپنڈی کے سکھ حکمران نے اعلان کیا کہ اگلے سال فصل کی کٹائی کے بعد گولڑہ شریف کے سادات کا گھرانہ اپنی زمینوں سے دستبردار ہو جائے ورنہ حکومت انہیں علاقہ بدر کر دے گی ۔ یہ خبر پیر صاحب ؒ کے بزرگوں تک پہنچی تو انہوں نے مسکرا کر کہا کہ اگلی فصل کون کاٹے گا یہ تو خدا ہی جانتا ہے ۔ اگلی فصل سے پہلے رنجیت سنگھ مر گیا اور خالصہ فوج میں بغاوت ہوگئی ۔ سکھوں کا اقتدار ختم ہو گیا اور انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ جندہ رانی اور کنور دلیپ سنگھ ملک بدر ہوگئے اور حکومت برطانیہ انہیں نواز شریف ، اسحاق ڈار اور الطاف حسین کی طرح انگلینڈ لے گئی۔ رنجیت سنگھ کی پوتی لیڈی صدر لینڈ عرصہ بعد واپس لاہور آئی اور رنجیب سنگھ کی حویلی میں رہنے لگی ۔وہ عیسائی مذہب قبول کر چکی تھی۔ مرنے کے بعد اُسے لاہور کے گورا قبرستان میں دفنایا گیا۔ اگر میاں صاحبان نے اس حویلی پر تاحال قبضہ نہیں کیا تو مریم نواز اسے دیکھنے ضرور جائے چونکہ یہ نشان عبرت ہے۔ نون لیگی ٹولے کو پتہ ہونا چاہیے کہ بزرگان دین نے قیام پاکستان اور پھر استحکام پاکستان کے لیے بہت محنت کی جو کبھی رائیگا ں نہیں جا سکتی۔ ضروری ہے کہ شریف خاندان کی محبت میں اولیائے کرام کی توہین نہ کی جائے اور سیاست اور منافقت میں فرق رکھا جائے۔ کچھ نون لیگی فخر سے کہتے ہیں کہ رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب پر حکمرانی کرنے والا دوسرا حکمران خاندان میاں شریف کا ہے۔ مریم نواز کا بیان ہے کہ ہم حکمر ان خاندان ہیں۔ اسے پتہ نہیں کہ ایسے حکمران خاندانوں کاانجام بھی عبرت ناک اور درد ناک ہوا ہے۔ غنیتہ الطالبین پر پابندی اور داتا دربار سے نمازیوں اورزاہرین کو بھگانے کا کچھ نظارہ تو آپ نے کر لیا ہے اور اب نون لیگی خواتین اور ان کے ہم خیال صحافیوں نے امام شازلی ؒ پر تنقید شروع کر دی ہے۔
خاتون اوّل بشریٰ بی بی نے امام شازلیؒ ریسرچ سنٹر کی بنیاد رکھی ہے جس سے ایک بات یہ سامنے آتی ہے کہ وہ دعائے حز ب البحر کی عاملہ ہیں۔ دوسری یہ بات یہ کہ انہیں اس دعا کے وظیفہ کے لیے کسی ولی اللہ نے اجازت دے رکھی ہے جو عامل سے سہواً یا مجبواً ہو جانی والی غلطوں کا بوجھ اُٹھانے کا متعمل ہو سکتا ہے۔ اگر محترمہ نے از خود تزکیہ ومجاہدہ سے براہ راست امام شازلی ؒ سے اجازت لی ہے اور امام الاولیأ حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ کی مرضی و منشی سے دربار رسالت ﷺ میں حاضری کا شرف حاصل کرچکی ہیں تو یہ ایک منفرد مرتبہ و مقام ہے۔
حضرت غوث الاعظم ؒ ہر دور کے قطب الاقطاب کے سردار ہیں اور دربار رسالت اجلاس محمدی ﷺ اوّل میں ہر وقت حاضرہیں ۔ روحانی درجات و کمالات کے لیے مر دیا عورت ہونے کی کوئی پابندی نہیں۔
عورت قطب ، غوث اور قطب الاقطاب ہوسکتی ہے مگرہر سالک پر پابندی ہے کہ وہ اسرار الہٰی ، مشاہدات ولطائف کو اپنے سینے میں جذب کر لے اوراس کا اظہار نہ کرے۔
حضرت امام جعفر صادق ؓسے پوچھا گیا کہ قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ کا کیا مطلب ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو ۔ فرمایا اللہ کی رسی ہم یعنی اہل بیعت رسول ﷺ ہیں۔ جو ہم سے جڑا رہا وہ اللہ سے جڑا رہا ۔ سنت رسول ﷺ اور احکامات الہٰی یعنی قرآن حکیم کی تعلیمات پر عمل کرنے کا نام رحمت العالمینﷺ اور اُن کے اہل بیت سے جڑنا ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا تزکیہ و مجاہدہ اور قرآن وسنت پر سختی سے عمل بے مثل و بے مثال ہے۔ آپ حسنی و حسینی سیّد ہیں ۔
اسی طرح امام شازلی ؒ حسینی سیّد ہیں اور سلسلہ نسبت حضرت علی ؓ سے ملتا ہے۔ یادرہے کہ دنیا میں جتنے بھی سائنسی علوم ہیں ان کے معلم حضرت امام جعفر صادق ؓ ہیں ۔ امریکہ میں ایک ریسرچ کے بعد سائنسدانوں نے ایک کتاب مرتب کی ہے جس کا نام لائٹ ہائوس آف اسلام رکھا گیاہے۔ جناب جسٹس (ر) نذیر احمد غازی نے اس کتاب کا کئی بازذکر کیا ہے۔ یہ کتاب اُن سائنسی علوم پر لکھی گئی جن کا علم حضرت امام جعفر صادقؓ سے مسلم مفکرین نے حاصل کیا۔ کیرن آرم سٹرانگ کی تصنیف ’’ عربوں کے اہل یورپ پر احسانات ‘‘ اس سلسلے کی منفرد اور طالبان حق کے لئے مشعل راہ ہے ۔
قرآن کریم سے اخذ کردہ روحانی علم کا جاد وٹونے یا نا سوتی استدراجی علم و عمل سے کوئی تعلق نہیں بلکہ جس جگہ اللہ کا ذکر ہو وہاں شیاطین کا دخل نہیں ہوتا۔ فی زمانہ اگر کسی ایسے ادارے کے قیام سے مخلوق خدا کچھ دیر کے لیے خالصتاً اللہ کے نیک اور پار سا بندوں کی تعلیمات کے ذریعے اللہ سے رشتہ قائم کر لے تو ظاہر ی علوم کے راستے بھی آسان ہو جاتے ہیں۔
امام شازلی ریسرچ سنٹر کے قیام سے نہ تو عمران خان کی حکومت مضبوط ہوگی اور نہ ہی گر جائے گی۔ یہ ایک خالصتاً دینی اور روحانی معاملہ ہے۔ ہاں اگر عمران خان کی سوچ بدل جائے اور اُس کی حکومتی پالیساں عوام دوست بن جائیں تو وہ اقتدار پر بھی قائم رہ سکتا ہے۔ یہ زمین اللہ کی ہے اورو ہی اصل حاکم ہے۔ اُس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں بدل سکتا ۔اللہ کا فرمان ہے کہ حکمران تمہارے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔عوام اپنا رویہ درست کر لیں تو اللہ اچھے حکمران بھی تعینات کر دیتا ہے۔
فرمان الہٰی ہے کہ کچھ آنکھیں تو دیکھتی ہیں مگر ان کے دل اندھے ہوتے ہیں ۔ہمارے سیاستدانوں ، حکمرانوں ، جعلی دانشوروں اور پیروں کے دل اندھے اور ضمیر مردہ ہوچکے ہیں ۔ ہوس اقتدار اور حرص زر نے انہیں اُس مقام پر کھڑا کیا ہے جہاں انسان حیوانیت کے درجے سے گر کر مکھی اور بھیڑیے سے بھی کم تر ہو جاتا ہے ۔یاد رہے کہ اللہ اپنی مخلوق کو بہتر جانتاہے اور راہ ہدایت سے بھٹکنے والوں کو مہلت دیتا ہے اور پھر اس کا قہر و غضب سب کچھ بہاکر لے جاتا ہے۔
پہلی قسط پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں