بد قسمتی سے ہمارے علماٗ و دانشور مادیت پرستی کے دلدل میں دھنس کر اسلامی اور قرآنی تاریخ سے لا تعلق ہو چکے ہیں ۔ کسی قوم کی ذلت و رسوائی کی ایک وجہ علماٗ کا ضعف اور مادیت پرستی بھی ہے ۔ وہ حکمران طبقے کی برائیوں پر تنقید کے بجائے اُنھیں دین کی غلط تشریح و تحویلات کی تشہیر کے ذریعے اُن کے جبر و ظلم کو اخلاقی ، قانونی اور بعض اوقات شریعت کے عین مطابق قرار دے کر دنیا و آخرت کی زلت و رسوائی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ایسے علماٗ و دانشور پہلی اقوام اور ادوار میں بھی گزر چکے ہیں جنکا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔
فرعون ، نمرود ، شداد اور دیگر ظالم حکمرانوں کے درباروں میں ایسے علماٗ ، دانشور ، قصیدہ نویس اور جادوگر ہر وقت موجود رہتے تھے ۔ اگر کبھی ان ظالموں اور سفاک حکمرانوں کے دلوں میں رحم آجائے تو اُن کے یہ مشیر اور صلاح کار اُنھیں واپس درندگی کی طرف مائل کر دیتے تھے۔ روایات میں ہے کہ فرعون کئی بار موسیٰ ؑ کے رَبّ پر ایمان لانے کی نیت کرتا تو اُس کے مشیر اُسے روک لیتے ۔ وہ کہتے کہ اسطرح تم خود خدائی کے درجے سے گر جاوٗ گے اور تمہاری عزت خاک میں مل جائے گی۔
سارے ظالم اور جابر ایسا ہی سوچتے ہیں مگر تب تک وقت کا پہیہ گھوم چکا ہوتا ہے۔ فرعون جب اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہونے لگا تو پکارا ‘‘ میں موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کے رَبّ پر ایمان لاتا ہوں ’’ آواز آئی اب تو بہ کا دروازہ بند ہو چکا ہے ۔ فرمان رَبی ّ ہے کہ میں فرعون کو قیامت تک نشان عبرت بنا کر رکھوں گا۔ فرعون کا مُردہ آج بھی مصر کے عجائب گھر میں رکھا ہے جسے طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں ۔
سورۃ یونس میں حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کے درمیان ہونے والے مقالمے کا ذکر ہے۔ جب حضرت موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ نے اللہ کا پیغام دیا تو فرعون نے تکبر و رعونت کی انتہا کرتے ہوئے جادو اور معجزے کو برابر بلکہ معجزات کو فوق العادات قرار دیا ۔ اُس دور میں جادو ایک سائینسی عمل کی انتہا تصور ہوتی تھی اور ہر فوق اُلعادت اعلیٰ درجے کا جادو یا سائنس سمجھی جاتی تھی۔ سید سبط حسین نے قرآنی آیات کی تشریح کرتے ہوئے فرعونی تصورات کو تقویت دینے کی سعی کی ہے مگر ساتھ ہی اس بات کی وضاعت بھی کر دی کہ اُن کا کوئی استاد ، پیر و مرشد یا روحانی رہنما نہیں ۔ اُن کی تحریریں اُن کے خیالات اور کتابی علم تک محدود ہیں ۔ قراۃ العین حیدر لکھتی ہیں کہ جتنے سید ہندوستان میں ہیں شاید دُنیا بھر میں نہیں ۔ سادات کی بڑی تعداد ہمایوں اور بعد میں ملکہ نور جہاں کے دور میں ایران سے ہند منتقل ہوئی۔ لکھتی ہیں کہ اب یہ سلسلہ رک جانا چاہیے ‘‘ کار جہاں دراز ہے’’ میں اُنھہوں نے اپنے گھرانے سمیت سادات کے دیگر گھرانوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ سبط حسن کی موسیٰ ؑ سے مارکس اور ماضی کے مزار ایک عرصہ تک روشن خیال اور سیکولر لبرل طبقے میں پسند کی جاتی رہیں اور پھر گوشہ گمنامی میں چلی گئیں ۔ سید سبط حسن نے فرعون کی کچھ باتوں کو کلام الہی سے سچ ثابت کرنے کی کوشش کی جسکا رجحان ہر دور کے فلسفیوں ، سائنسدانوں ، عاملوں ، نجومیوں ، پروھتوں ، پجاریوں ، سادھووٗں اور تارک اُلدنیا نا سوتی درویشوں میں رہا ہے ۔ عکسی مفتی کی تحریر‘‘تلاش ۔ اللہ ماورا کا تعین ’’ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے مگر الگ انداز سے لکھی گئی ہے ۔ ابتداٗ میں لکھتے ہیں کہ خدا کی تلاش کا سائنسی اصول وضع کرنے میں فلسفیوں ، تاریخ دانوں اور سائنسدانوں کی طویل فہرست موجود ہے۔ اِن حکیموں میں ولیم جیمز اور آئن سٹائن اس نتیجے پر پہنچے کہ حقیقت کو سمجھنے کیلئے کلی نظریہ
‘‘Theory of Everything’’ تو موجود ہے لیکن یہ نظریہ سائنس اور فلسفے پر بے حجاب نہیں ہوتا۔
اِس تحریر میں قرآن کے علاوہ سب کچھ موجود ہے۔ نہ یقین ہے، نہ عین الیقین اور نہ ہی حق اُلیقین ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر رچرڈ ڈاکن کا بہت بڑا مداح ہوں جنھوں نے ‘‘ The God Delusion’’ جیسی معروف کتاب لکھی ہے۔ پروفیسر مفتی ہمارے دانشوروں کی فہرست میں بلند درجے پر شمار ہیں اور سینے پر ستارہ امتیاز بھی سجاتے ہیں مگر اُن کی تحریر شک و شبے سے مزین ہے۔ ان کی یہ تحریر ہر لحاظ سے بے وزن اور بے ترتیب ہے۔ وہ جس پروفیسر کے مداح ہیں وہ تو خدا کے وجود سے ہی منکر ہے ۔ سید سبط حسن نے تو اقرار کیا کہ وہ بے مرشدے ہیں مگر پروفیسر مفتی نے قدرت اللہ شہاب اور اپنے والد ممتاز مفتی کا ذکر کیا ہے ۔ یہ دونوں حضرات فقر ولائت کے کس درجے پر فائیز تھے آپ نے نہیں لکھا ۔ بانو قدسیہ نے مرد ابریشم لکھی مگر قدرت اللہ شہاب کی سوانح حیات اور فلسفے و فکر تک محدود رہیں ۔ کسی کا مداح ہونا اور بات ہے مگر کسی کی روح سے اپنی روح ملا کر روح کی پرواز کو پرکھنا دوسری بات ہے۔
مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ کوانٹم تھیوری سے ثابت ہے کہ کائینات میں مالیکیول اور ایٹم چھوٹے ذرے ہیں۔ اِن سب کی روح منفی و مثبت میں پنہاں ہے اور اُنھیں تقسیم کیا یا توڑا جا سکتا ہے مگر ایک ذرہ ایسا بھی ہے جو ناقابل تقسیم ہے۔ مگر یہ نہیں لکھا کہ وہ ناقابل تقسیم کیوں ہے ؟ کیا وہ بے روح ہہے؟ نہیں ایسا بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ بے روح چیز کا تو کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ یقیناً یہ ذرہ بھی روح کا حامل ہے اور کہیں موجود ہے۔ روح کیا ہے ؟ اسکا بھی کوئی سائینٹفک جواب نہیں ۔ سورۃ بنی اسرائیل آیت 85 میں فرمایا- اے نبی ؐ یہ پوچھتے ہیں کہ روح کیا ہے کہہ دو روح امر ربی ّ ہے مگر جو علم تمہیں دیا گیا ہے وہ بہت تھوڑا ہے۔کوانٹم تھیوری میں بھی بتایا گیا ہے کہ جو ذرہ انتہائی چھوٹا ہے وہ بھی زندہ ہے اور قوت کا حامل ہے قوت سے مراد روح ہی ہے ۔ یعنی یہ ذرہ قوت بخش ہے ۔ اس میں روح ہے اور زندگی کے علاوہ اس کی نفسیات اور افادیت بھی موجود ہے۔
مفتی صاحب نے اللہ کے ننانوے (99) ناموں کی تشریح بھی کی اور اُنھیں سائینس اور فلسفے سے منسلک کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اگرچہ یہ اچھی کوشش ہے مگر حتمی ہرگز نہیں ۔ اللہ کے صرف 99نام نہیں ہیں ۔ اگر ہم ماوراٗ کا تعین اللہ کے ناموں ، سائنسی اصولوں اور فلسفیانہ فکر کو باہم ملا کر کریں تو کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ البتہ ایسی کوشش جس میں کوئی رہبر و رہنما نہ ہوخطرے کا باعث ہو سکتی ہے۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کی تقلید بذات خود جان بوجھ کر غلط راستے کا چناوٗ کرنے کے مترادف ہے جسکی کوئی منزل ہی نہ ہو۔ ایسا بھی نہیں کہ ہم اللہ کی قربت حاصل نہیں کر سکتے مگر اُس کی قربت اُسی کے بتائے ہوئے راستے سے ہی ممکن ہے جسکا تعین سائنس ، فلسفہ ، ناسوتی علوم اور ناسوتی علماٗ و عاملین کی رہنمائی میں نہیں ہو سکتی۔ سورۃ کہف آیت 110اور 17میں فرمایا کہ کہہ دو کہ اگر تم میرے رَبّ کی باتیں یعنی اُس کے ناموں کی صفات ، براکات، مشاہدات اور منازل کے متعلق لکھنا چاہو تو سارے سمندر سیاہی بن جائیں اور تم لکھتے رہو تو پھر بھی نہ لکھ پاوٗ گے چاہے تم اتنے اور سمندروں کی سیاہی بنا لو۔ اللہ کے 99نام تو ہماری سوچ کیلئے ہیں جو محدود ہے ۔ اُس کے نام کتنے ہیں شاید سپر کمپیوٹر یا اِس کے آگے کی کوئی ٹیکنالوجی بھی نہ بتا سکے۔
اللہ تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ صراط مستقیم ہے۔ یہ راستہ ماوراٗ تک پہنچنے کا ذریعہ تو ہے مگر رہبر کامل کی رہنمائی بھی ضروری ہے۔ سورۃ کہف آیت سترہ میں فرمایا اللہ جسے چاہے راہ راست پر لائے اور جسے بھٹکائے اسے کوئی رفیق میسر نہیں ہوتا ۔ یہاں ولی اور مرشد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ولی یا اولیاٗ اللہ ، اولیائے کاملین یا علمائے حق کون ہیں ؟۔ فرمایا یہ اللہ کے دوست ہیں جنھیں نہ خوف آتا ہے اور نہ ہی وہ غم زدہ ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ اولیاٗ جو اللہ کے دوست ہیں نبی ؐ یا رسول نہیں چونکہ وہ منتخب ہستیاں ہیں ، پیغامبر ہیں اور وہ بھی راہ راست پر لانے والے ہیں اور معجزات دکھلانے والے ہیں مگر اللہ کے یہ دوست اللہ اور اُس کے رسولوں پر پختہ ایمان لانے والے اور حکم بردار بندے ہیں۔ یہی لوگ اصل میں عزت والے ہیں جنھیں اللہ عزت کے بلند مقام پر فائیز کرتا ہےاور وہ جو علم کے باوجود سفل کا راستہ اختیار کرتے ہیں ، دنیا کا جاہ و جلال طلب کرتے ہیں اور مخلوق خدا پر جبر و ظلم کا پنجہ گاڑھ رکھتے ہیں اُن کیلئے اسفلا سافلین یعنی ذلت کا سب سے نیچا درجہ ہے۔
فرعون بھی تو یہ ہی کہتا تھا کہ کیا میں مصر کا بادشاہ نہیں ۔ میں عزت کے بلند مقام پر نہیں ، کیا میرے محلوں کے نیچے نہریں نہیں بہتی تو پھر میں اُس شخص کی بات کیوں مانوں جو صحیح طرح بول ہی نہیں سکتا۔ اگر وہ اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے تو اسکے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں اور وہ اپنے ساتھ کوئی بڑا خزانہ کیوں نہیں لایا۔
تکبر اور رعونت کبھی عزت کا باعث نہیں ہوتے۔ رعونیت میں فرعونیت ہے۔ رحم اور عدل نہیں ۔ عزت میں نرمی اور عاجزی ہے ۔ کچھ لوگ علمی تکبر کو عزت اور کچھ ظاہری جاہ و جلال اور حکمرانی کو باعث عزت سمجھ لیتے ہیں اور اسے اللہ کے کلام سے منسوب کر لیتے ہیں تا کہ مخلوق کو مطیع کرنے میں آسانی ہو۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ جب حضرت امام حسین کا سر مبارک یزید کے سامنے لایا گیا اور اہل بیت کا قافلہ حضرت زینبؓ کے ہمراہ یزید کے سامنے پیش ہوا تو اُس سفاک نے بھی قرآن پاک کی یہی آیت پڑھی”وتعزِومَن تشا ُ و تعزلُ مَن تشاُ ‘‘ اس پر حضرتِ زینب ؓ نے فرمایا اے ملعون تیری غلیظ زبان پر قرآن کیسے آگیا۔ یہ قرآن ہمارے باپ رسولِ پاک ؐ پر ہمارے گھر میں اُترا اور تو آلِ رسولؐ کے قتل کے بعد ہمیں اپنی عزت و برتری کو اللہ کے کلام سے جائیز قرار دے رہا ہے۔ آج تو ذلت کے سب سے نچلے درجے پر ہے۔ دُنیا کے جاہ و جلال میں عزت نہیں ذلت ہے۔ یزیدیت تاریخ کا حصہ اور انسانیت کے دائیرے سے خارج ایک بد نما اور بد ترین مثال ہے۔ یہی حال بنو اُمیہ کے دیگر خلفاٗ کا ہے جو اہل بیعت کے ہی نہیں انسانیت کے بھی دشمن رہے مگر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کا رتبہ بلند ہے جن کے مختصر دور حکمرانی کی عمدہ اور قابل تقلید مثالیں تاریخ کا حصہ ہیں ۔
حضرت عمر بن خطاب ؓمسند خلافت پر بیٹھے تو اعلان کیا کہ اگر کسی نے میرا قصیدہ لکھا ، میری تعریف میں تقریر کی یا میری کسی عوامی خدمت پر توصیف کی تو اللہ کی قسم میں اُسکا سر قلم کر دونگا۔ ہاں ۔ میری کمزوریوں سے مجھے آگاہ رکھو اور جس کام پر اللہ نے مجھے معمور کیا ہے اُس کی یاد دھیانی کرواتے رہو تاکہ میرا کام آسان ہو۔ آج اسلامی دُنیا میں شاید ہی کوئی حکمران ، سرکاری ملازم یا عہدیدار ایسا ہے جو اپنا کام کرتا ہو اور تنقید بھی برداشت کرتا ہو۔ آج اُن لوگوں کے سر قلم کیے جاتے ہیں جو حکمرانوں کے قصے بیان نہ کرتے ہوں اور اُن کی بد اعمالیوں پر اُن کی تعریف نہ کرتے ہوں ۔
سورۃ النحل میں ایک بستی کا ذکر ہے جو خوشحال تھی۔ قرآنی تاریخ میں بستیوں سے مراد ایک ملک یا ریاست لیا جاتا ہے جیسے سمندروں کو دریاوٗں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ فرمایا یہ لوگ اللہ اور وقت کے پیغمبر پر ایمان رکھتے تھے، ہر طرف امن و آفیت تھی مگر رزق کی فراوانی نے اُن کو نافرمانی کی طرف مائل کیا تو اللہ نے اُن سے رزق چھین لیا ۔ اُن کے جسموں سے کپڑے اُتر گئے اور خوف نے اُنھیں گھیر لیا۔ اللہ کی نا فرمانی کی ایک صورت خود نمائی اور شخصیت پرستی بھی ہے۔ فتح و کامرانی اللہ کی طرف سے ہے ورنہ انسان کی عقل پر ایسا پردہ ڈال دیا جاتا ہے کہ وسائل کے باوجود بے وسیلہ اور بے آسرا ہو کر ذلت و رسوائی کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔
کسی انسان کا دُنیاوی مراتب پر فائیز ہونا بھی الہی امر کے تابع ہوتا ہے مگر وہ اپنے عمل و کردار کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔ نفسیاتی ماہرین کا تجزیہ ہے کہ سیلف میڈ لوگ یا تو ولائت کے درجے پر فائیز ہو جاتے ہیں یا پھر انسان دشمنی میں درندوں کو بھی مات دیتے ہیں ۔ تیمور ، ہٹلر ، چنگیز خان، رضا شاہ کبیر ، کمال اتاترک ، انور السادات، غیاث الدین بلبن ، نادر شاہ فشار ، احمد شاہ ابدالی ، چو این لائی ، ماوزئے تنگ اور چین کے موجودہ صدر تک تاریخ میں بیشمار نام ہیں جنکا شمار عام لوگوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے فوجی جرنیلوں میں جنرل موسیٰ خان، ایڈمرل شریف، جنرل ٹکا خان اور جنرل مجید ملک جیسے بڑے جرنیل فوج میں سپاہی بھرتی ہوئے اور فوج میں ہی آخری رینک تک پہنچے ، ان سب کی الگ الگ نفسیات اور عوامی رویے تھے۔ آزاد کشمیر کے صدور میں ایک میجر جنرل عبدالرحمن، میجر جنرل حیات خان اور تیسرے میجر جنرل انور خان ہوئے ہیں جن کے مزاج میں بڑا فرق تھا۔ حیات خان ایک بااصول ، بردبار اور عوام دوست شخصیت کے مالک تھے حالانکہ جنرل انور کی نسبت انکا خاندانی پس منظر بہت بہتر تھا۔ اُن کے دور حکومت میں آزاد کشمیر میں جتنی ترقی ہوئی اتنی کسی بھی جمہوری دور میں نہیں ہوئی ۔ اُن کی حکمرانی کا بڑا وصف یہ تھا کہ اُنھہوں نے رشوت ، سفارش، اقربا پروری اور نوکر شاہی کی رعونت سے آزاد خطے کو پاک کر دیا۔ اُن کی کابینہ میں کوئی وزیر نہ تھا۔ وہ بیورو کریسی کو خود کنٹرول کرتے تھے اور مشاورت کیلئے ایک ریٹائیرڈ قانون گو اُنکا مشیر تھا۔
جنرل انور بھی سلف میڈ تھے مگر عام آدمی کی طرف دیکھنا بھی پسند نہ کرتے تھے ۔ وہ جتنا عرصہ صدر رہے قبضہ مافیا اور بد کردار وزیروں کے گھیرے میں رہے ۔ وہ جنرل مشرف کی طرح آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سردار سکندر کو اپنا ماتحت بنانے کیلئے سازشیں کرتے رہے اور اُن کی حکومت گرانے کی غرض سے سردار عتیق سے ملکر اسمبلی میں فارورڈ بلاک تشکیل دیا مگر کام پھر بھی نہ بنا ۔ وہ اکثر بیرونی دوروں پر رہتے اور نام نہاد کشمیر کا مقدمہ لڑنے کے بہانے دوسرے ملکوں کی سیر و سیاحت کرتے۔ امریکہ کے دورے پر اپنا سارا ٹبر ساتھ لے گئے اور وہاں خوب دعوتیں اُڑائیں ۔ امریکہ میں اُن کا قیام کسی انتہائی مہنگے ترین ہوٹل میں تھاجس کی خبریں بھی شائع ہوئیں ۔
اُن کی شان میں منعقدہ تقاریب میں بھی "وتعزِومَن تشا ُ و تعزلُ مَن تشاُ ‘‘ تلاوت کی جاتی۔ ان کے بعد آزاد کشمیر کے جتنے بھی صدور سدھن قبیلے سے آئے اخباروں خاص کر نوائے وقت نے خبریں لگائیں کہ حق دار کو اسکا حق مل گیا ۔ راقم نے یہ سوال جناب سردار ابراہیم ، سردار خالد ابراہیم اور کشمیر پر ایک سیمینار کے بعد سفارتکار صدر سردار مسعود سے پوچھا تو پہلے دونوں سرداروں نے اسے صحافیانہ منافقت اور چاپلوسی بلکہ بددیانتی کہا جبکہ سردار مسعود نے فرمایا کہ میری جگہ آپ صدر بن جائیں ۔ پوچھا آپ کیا کر رہے ہیں؟ کہنے لگے یورپ کی سیاحت ، اچھی رہائش اور خوش ذائقہ کھانوں سے لطف اندوز ہوتا ہوں ۔ ہم بھارتی پراپیگنڈے کا جواب دینے میں ناکام رہے ہیں ۔ پوچھا یہ کس کا کام ہے ؟
فرمانے لگے آزاد کشمیر کے صحافیوں ، سیاستدانوں اور اہل علم و قلم کا۔ یاد رہے کہ سردار مسعود بیوروکریٹ اور سفارتکار ہیں ۔ وہ نہ تو سلف میڈ ہیں اور نہ ہی نو دولتیے سیاستدان ہیں مگر عہدہ صدارت کو اپنا خاندانی حق تسلیم کرتے رہے ہیں ۔ اولیائے کاملین اور علمائے حق تو ہوتے ہی سلف میڈ ہیں مگر ، اگر تزکیہ نفس اور مجاہدہ قلبی کی بھٹی میں جل کر کندن نہ بنے ہوں یا پھر کسی مرشد کامل کی رہنمائی سے محروم رہ جائیں تو ناسوتی ، استدراجی اور سفلی راستوں پر چلکر مخلوق کو بھٹکائے گا باعث بن جاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی ارد گرد بھی لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اُن ہی کی بد صفات کے حامل حکمران اور سیاستدان اُن کے آستانوں سے وابستہ ہو کر اُن سے دولت، شہرت اور شہوت کے عوض عوام الناس پر جبر و ظلم کو جائیز قرار دینے کی سند حاصل کر لیتے ہیں ۔
رومی کشمیر میاں محمد بخش ؒ فرماتے ہیں کہ:
ریت وجود تیرے وچ سونا اینویں نظرنہ آوے
ہنجوں لاگھت پانی دیویں تے ریت مٹی رُڑ جاوے۔
‘‘اپنی ذات کو پہنچاننے اور روح رحمانی کی قوت کو ابھارنے کیلئے تزکیہ نفس لازمی ہے تو نفس امارہ سے چھٹکارہ حاصل کر لے اور نفس لوامہ سے گزر کر نفس مطمعنہ کی منزل تک پہنچنے کی جستجو کر ’’
پھر بقول اقبالؒ :
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔
قرآن پاک میں رب العالمٰین نے فرمایا ۔ نبی کا کام تزکیہ کرنا، کتاب کا علم دنیا ، حکمت کی باتین بتانا اور تمہیں راہ راست پر لانا ہے۔ اللہ نے آپ ؐ کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ آپ کا کام پیغام دینا ہے جو بھٹکتا ہے اسے بھٹکنے دیں ۔ اُسکا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
رومی کشمیر ولی اور مرشد کی رہنمائی کے متعلق فرماتے ہیں :
بن مرشد کم بن دا نا ئیں پاویں لکھ پے کریے حیلے
منتر باسجھ محمد بخشا ناگ نی جاندے قیلے
جسطرح جنگ تربیت کے بغیر نہیں لڑی جا سکتی ویسے ہی کسی مرشد کابل کے رہنمائی کے بغیر نفس امارہ کا سر نہیں کچلا جا سکتا ۔
شیش ناگ کو مطیع کرنے کیلئے منتر کا علم ضروری ہے۔ منتر پڑھنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ۔ جوگی بڑی تپسیا کے بعد اس علم کا عامل بنتا ہے اور خطرناک کالے ناگوں کو پھونک مار کر پٹاری میں بند کر لیتا ہے۔ اسی طرح مرشد کامل کی رہنمائی میں ایک طالب حق راہ سلوک کی منازل طے کرتا عالم نا سوت کی مشکل گھاٹیوں کو عبور کرتا عالم ملکوت تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔
سائنس و فلسفہ ناسوتی ظاہری ، مادی ، استدراجی اور سفلی علوم کا حصہ ہے۔ یہ معلوم علم ہے جسکے منفی و مثبت دونوں پہلو ہیں ۔ ضروری نہیں کہ ایک سائنسدان ، ہیت دان ، فلاسفر اور محقق مومن مسلمان بھی ہو ۔ ہاں اگر وہ اپنی تحقیق و تخلیق ، سوچ و فکر ، فہم و فراست اور فن کو عقل و شعور کے پیمانے پر پرکھے تو ایک ایسے نقطے پر پہنچ سکتا ہے جو اسے اللہ خالق و مالک کی طرف رجوع کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ یہی نقطہ وہ باریک اور ناقابل تقسیم مگر قوت بخش ذرہ ہے جس کے اندر چھپے راز سائنس اور فلسفے کی حد سے باہر ہیں ۔ یہی وہ وجہ ہے کہ Theory of Everythingہونے کے باوجود حقیقت سائنس اور فلسفے پر عیاں نہیں ہو سکتی۔ ظاہر ہے کہ بے حقیقت اور عارضی چیزیں حقیقت پر کیسے ہاوی ہو سکتیں ہیں ۔ فرمایا دنیا کی زندگی محض کھیل تماشہ ہے۔ یہ سب کچھ عارضی ، بے وقعت اور بے حقیقت ہے۔ اصل اور حقیقی زندگی جو دائمی اور ابدی ہے وہ آگے ہے۔ اسی لیے تو اللہ نے زمانے کی قسم کھائی ہے اور ساتھ ہی فرمایا یقیناً انسان خسارے میں ہے سوائے اُن کے جو پختہ ایمان لائے اور اچھے عمل کیے۔ آپس میں تاکید کرتے رہے سچے دین کی اور صبر و تحمل کی ۔ مفسرین کے مطابق یہ سورہ نہ صرف زمان و مقام کا تعین کرتی ہے بلکہ انسانوں کو دنیا و آخرت کی کامیاب زندگی کے چار اصول بیان کرتی ہے ۔ زمانہ کیا ہے مفسرین نے اسپر جتنا لکھا وہ کم ہے چونکہ زمانے کا تعین کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ۔ زمانہ ایک جاری سفر ہے جسکا نقطہ آغاز اور اختتام ایک ہی ہے ۔ جہاں سے اس کا آغاز ہوا یعنی ازل اور وہی اُسکا اختتام ہو گا یعنی ابد۔
میں اپنی تحریروں میں حضرت علی ؒ کا یہ قول اکثر دھراتا ہوں ۔ آپؓ سے سوال ہوا کہ زندگی کیا ہے؟
آپ ؓ نے فرمایا دو سجدوں کا درمیان وقفہ ہے۔ انسان مٹی سے پیدا ہوا واپس مٹی میں مل جائیگا ۔ درمیانی وقفے میں وہ خودمختار ہے کہ جنت میں مکان بنا لے یا جہنم کا راستہ اختیار کر لے۔ جب رَبّ نے عالم ارواح میں پوچھا تھا کہ بتاوٗ تمہارا رَبّ کون ہے تو سب ارواح نے کہا ‘‘ بلا’’ بے شک تو ہی ہمارا رَبّ ہے۔ پیدائش کے بعد کچھ نے اپنا عہد قائم رکھا اور کچھ خود خدائی کے دعویدار بن گئے ۔ کچھ نے کفر کیا اور مشرک اور منافق ہوئے ۔ کچھ نے مادی خداوٗں کے آگے سر جھکا لیا اور کچھ متبادل خدا کی تلاش میں چل نکلے ۔
"وتعزِومَن تشا ُ و تعزلُ مَن تشاُ‘‘ کی بات کرتے کرتے میں سید سبط حسین ، سیدہ قرآۃ العین اور عکسی مفتی کی طرف چلا گیا۔ سید سبط حسین نے تو تسلیم کر لیا کہ اسکا کوئی پیرومرشد نہیں مگر یہ نہیں لکھا کہ وہ سید کیوں لکھتے ہیں ۔ قرآۃ العین حیدر نے سادات کی پہچان کی طرف اشارہ کیا۔ پیر مہر علی شاہ ‘‘مہر منیر’’ میں لکھتے ہیں کہ میں نوجوان تھا اور سفر حج پر تھا ۔ راستہ پر خطر اور دشوار تھا۔ راتوں کو قیام کے دوران چور اور ڈاکو حجاج کے قافلے لوٹتے تھے اور حجاج کو شہید بھی کر دیتے تھے ۔ قافلے کا سالار نوجوان حاجیوں کو پہرہ داری کا حکم دیتا اور ہم باری باری دو دو گھنٹے حاجی کیمپ کی پہرہ داری کرتے۔ ایک رات میری ڈیوٹی تھی ۔ عشاٗ کی فرض نماز پڑھی اور سو گیا تاکہ وقت پر جاگ کر ڈیوٹی پر کھڑا ہو جاوٗں ۔ ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ حضورؐ خواب میں آئے ۔ فرمایا میری اولاد کو زیب نہیں دیتا کہ وہ میری سنتیں ترک کر دے ۔ لکھتے ہیں فوراً اُٹھا ، وضو کیا اور عشاٗ کی سنتیں ادا کیں ۔
ممتاز مفتی نے اپنی تصنیف ‘‘تلاش’’ میں قرآن کریم کے حوالے سے لکھا ہے کہ قرآن کا رویہ تحقیقی ہے جسے سائنسدان گیری ملر نے "Falsification Test”لکھا ہے جو نظریہ ، آئیڈیا، تھیوری ، سوچ و فکر قرآن کے بیان کے مطابق نہیں وہ فرسودہ بیکار اور بے وقعت ہے۔ عکسی مفتی نے اپنی زیر نظر تحریر میں لکھا ہے کہ ماوراٗ کا تعین ممتاز مفتی کی تلاش کا دوسرا حصہ ہے ۔ دونوں تحریروں کا موازنہ کریں تو چھوٹے مفتی صاحب "Falsification Test”میں ناکام دیکھائی دیتے ہیں ۔ ایک خاتون صحافی سے کبھی کبھی بات ہوتی ہے۔ فرمانے لگیں میں عکسی مفتی کی نئی تحریر ‘‘محمدؐ’’ کی تقریب رونمائی میں جا رہی ہوں۔ وہاں ایک گدی نشین اور بہت سارے دانشور بھی تشریف فرما ہونگے۔ میں نے چند روز پہلے فیضی سے عکسی مفتی کی نئی کتاب کا احوال پوچھا تو کہنے لگی مارکیٹ میں تو نہیں ملی مگر کسی سے لیکر تھوڑی سی پڑھ کر واپس کر دی۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگی کہ اگر کسی نے اس کتاب کو چیلنج کر دیا تو مفتی اور مترجم ڈاکٹر مقصودہ کے ہوش ٹھکانے آجائینگے ۔ میں نے کہا جب ملکی نظام چلانے والے ایسی تقاریب کو رونق بخشیں گے تو چیلنج کرنیوالا ہی چیلنج ہو جائیگا۔ میں نے فیضی کی بات پر غور کیا اور کتاب نہ خریدنے کا فیصلہ کر لیا۔ جسطرح حضور ؐ اپنی اولاد کا خیال رکھتے ہیں ایسے غلامان رسولؐ یعنی ولی و مرشد اپنے مقلدین پر نظر رکھتے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں جو سورۃ عصر میں بیان کردہ چار اصولوں پر کار بند رہتے ہیں۔
ممتاز مفتی اپنی کتاب "الکھ نگری” کے صفحہ 547پر عطیہ کا ذکر کرتے ہیں ۔ یہ عطیہ فیضی نہیں بلکہ کراچی میں رہنے والی کوئی Seer.یعنی قسمت کا حال بتانے والی عاملہ تھی جس کے پاس نا سوتی علم تھا۔ ناسوتی میں نے اپنی طرف سے لکھا ہے چونکہ یہ کام ناسوتی علوم کے حامل عامل ہی کرتے ہیں ۔ فرحانہ فیضی بھی عاملہ ہے مگر وہ خاموش رہتی ہے۔ میری اُس سے ایک ملاقات ہوئی تو کہنے لگی میں اپنے موکل سے پوچھ کر آئی ہوں ۔ صرف ایک ہی ملاقات ہو گی اور آئیندہ بات بھی اپنی مرضی سے کرونگی۔ ملاقات کا ٹائم دو سے تین گھنٹے کا ہو گا۔ اگر میرا دل بھر گیا تو ملاقات ختم ۔ ہاں ۔ ملاقات تم پر بھاری پڑے گی ۔ تم ساری زندگی اسے یاد کرو گے اور میں بے رُخی کی انتہا کرونگی ۔ یہ فرحانہ فیضی کا طریقہ ہے ۔ پتہ نہیں وہ ناسوت کے کس درجے پر فائیز ہے۔
ایسے سیر Seer.بہت ہوتے ہیں ۔ کچھ بھٹک جاتے ہیں اور کچھ دکان چمکا لیتے ہیں۔ جو عالم ملکوت کے مسافر ہوتے ہیں وہ ناسوت کی اکیس یا اکتالیس منازل طے کرنے کے بعد عالم ملکوت اور پھر عالم جبروت و لاھوت کی طرف چل نکلتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ولی و مرشد کی حقیقی رہنمائی حاصل ہوتی ہے اور وہ راہ سلوک سے نہیں بھٹکتے۔
فرحانہ فیضی سے یہ ملاقات اُس کے کراچی جانے کے بعد ہوئی۔ وہ راولپنڈی کسی سیمینار کے سلسلے میں آئی تھی ۔ میں نے خیریت دریافت کرنے کے بعد ملاقات کا کہا تو اُس نے کہا آجاوٗ۔ دو سال کے وقفے کے بعد یہ دوسری فرحانہ تھی۔ اُس نے خود بتایا کہ اب وہ ایک بڑی تبدیلی کے سفر پر ہے ۔ بہرحال ملاقات تو خوشگوار ماحول میں ہوئی مگر وہ تبدیلی کے سفر پر چلی گئی۔ فرحانہ بھی Seerہے مگر اُسکا طریقہ الگ ہے۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ قدرت اللہ شہاب کے کہنے پر میں اپنے دوستوں قیصر ، احمد بشیر ، اشفاق حسین اور ابنِ انشاٗ کو لیکر عطیہ کے گھر گیا اور سب نے اپنے اپنے مسائل کے متعلق پوچھا۔ عطیہ ہر ایک کے سوال پر آنکھیں بند کرلیتی اور مراقبے کے بعد جواب دیتی جو بعد میں سو فیصد سچ ثابت ہوئے۔
میری باری آئی تو عطیہ نے پوچھا آپ ممتاز مفتی ہو۔ احمد بشیر بولا یہ مفتی ہے اور کسی کو پیر مان بیٹھا ہے۔ یہ صابن کا بلبلہ ہے جلد پھوٹ جائیگا۔ عطیہ نے پوچھا یہ بزرگ کہاں رہتے ہیں؟ احمد بشیر نے کہا راولپنڈی میں ۔ عطیہ مراقبے میں چلی گئی اور پھر سر اُٹھا کر بولی لو جی وہ خود ہی آگئے ہیں۔ اونچے لمبے، گورے چٹے ، سر پر رومی ٹوپی ، ہاتھ میں حقہ اور پنجابی بولتے ہیں ۔ کہتے ہیں رہن دے اَسی آپے سیدھا کر لاں گے۔
عطیہ پنجابی پر ہنسی تو میں حیران ہوا کہ پنڈی میں دفن ایک شخص بعد از مرگ ویسے ہی حلیے میں کراچی کیسے آگیا۔ یہ سن کر میں سکتے میں آگیا تو احمد بشیر نے جھگا دیا۔
کامل پیر محمد بخشا لعل بنان پتھر دا۔
میں نے قبلہ محمد نورالدین اویسی ؒ مرحوم و مغفور سے ایسے کئی واقعات سنے اور کچھ کا ذکر آپ نے اپنی تصنیف ‘‘نور العرفان’’ میں بھی کیا ہے ۔ حیرت ہے کہ عکسی مفتی مترجمہ نجیبہ عارف اور ڈاکٹر مقصودہ پر بڑے مفتی صاحب متوجہ کیوں نہیں ہوئے۔ فرحانہ کہتی ہے کہ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے لکھا ہے کہ اردو ترجمہ عکسی مفتی کی خواہش کے مطابق اور اُس کی دی ہوئی گائیڈ لائین کے اندر رہ کر کیا ہے۔ لہذاجزاؤ سزا عکسی مفتی کے سر ہے۔ البتہ ڈاکٹر مقصودہ نے سارا بوجھ اپنے ذمے لیا ہے ۔ اگر اُسے موزوں الفاظ میسر نہیں تھے تو ترجمے سے معذرت کر لیتی ۔ مگر شہرت حاصل کرنے کا موقع بھی کبھی کبھی ہی میسر ہوتا ہے۔
"وتعزِومَن تشا ُ و تعزلُ مَن تشاُ‘‘ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے مگر شہرت کبھی عزت کا باعث نہیں ہوتی ۔ امام غزالی لکھتے ہیں کہ شہرت شہوت سے بڑا جرم ہے۔ شہوت حرص و لالچ ، ہوس زر اور نفسانی خواہشات کا نام ہے مگر شہرت میں تکبر، خود غرضی اور برتری کا عنصر انسان کو درندگی ، سفاکیت اور بربریت کی طرف مائل کر دیتا ہے۔
وہ زمین پر خُدائی کا دعویدار بن کر جہنم کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ فرعون، نمرود، شداد، حمورابی، اشنونا، اور دیگر مادی خُداوں کو شہرت کی بیماری لاحق تھی، مندروں میں اُن کی مورتیاں سجائی جاتیں اور کسان اپنی ساری پیداوار اُن خداوں کے حوالے کر دیتے ۔ وہ صرف اتنا ہی غلہ رکھنے کے مجاز تھے جتا کھا کر وہ دوبارہ غلہ پیدا کر سکیں ۔ سید سبط حسن نے اپنی دو تحریروں ‘‘ ماضی کے مزار اور موسیٰ سے مارکس تک ’’ میں انھیں خداوں کو تلاشنے اور اُن کی بعض عادات کو قرآنِ کریم کی آیات سے تمثیل کرنے کی کوشش کی ہے۔
عکسی مفتی کی ‘‘تلاش’’ اور ممتاز مفتی کی تلاش میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عکسی مفتی کی تلاش ایک ایسے شخص کی داستان ہے جس کا کوئی رہبر و رہنما نہیں۔ قرآنِ پاک میں ایک واقع کا ذکر ہے کہ وہ شخص جو جنگل میں بھٹک گیا ہو اور اُس کے ساتھی اسے آواز دیں تو پھر بھی وہ راستہ نہ پاسکے اور بھٹکا ہی رہے۔ کاش چھوٹا مفتی بڑے مفتی کی طرح کسی ولی و مرشد کی رہنمائی اور قرآن کی روشنی میں ماوراٗ کا تعین کرتا تو کچھ راستہ میسر آ جاتا ۔ مگر راہِ حق ، راہ سلوک کے مسافر شہرت اور شہوت کو اپنے راستے کا سب سے بڑا پتھر سمجھ کر اُسے پاش پاش کر کے ہی اپنا راستہ صاف کرتے ہیں تو تب ہی اُنھیں روشنی میسر آتی ہے۔ اُن کے سینے روشن اور دِل منور ہو جاتے ہیں۔ وہ دِل کی آنکھ سے دیکھ کر چلتے ہیں تو آن واحد میں ماوراٗ یعنی فنا فی اللہ کی کیفیت میں جذب ہوکر نور الہی کی لطافت میں غوطہ زن ہو کر راحت محسوس کرتے اور دوسروں کیلئے رہنمائی کا وسیلہ بن جاتے ہیں۔
(جاری ہے)
وتعزِومَن تشا ُ و تعزلُ مَن تشاُ
