Tarjuman-e-Mashriq

وتُعزُِ من تشاء و تُزِلُ من تشاء-2

سورۃ آلِ عمران آیت 25سے 30تک میں فرمایا کہ کفار اور منکرین کہتے ہیں کہ ہمیں آخرت میں کوئی عذاب نہیں ہونے والا اور نہ دوزخ کی آگ ہمیں چھونے والی ہے۔ فرمایا یہ لوگ بہکے ہوئے ہیں دین سے اور اپنے جی کو بہلانے اور وقتی ظاہری نفع کے لالچ میں من گھڑت تاویلیں پیش کرتے ہیں۔ آیت 25میں فرمایا کہ اُن کا کیا حال ہو گا جب اُنھیں ایک دن ایک ہی جگہ جمع کیا جائے گا۔ یعنی ہر دور کے کافروں ، منافقوں اور مجرموں کو چاہے اُن کا تعلق دُنیا کے کسی بھی خطہ سے ہو گا ، سب کو اللہ ہانک کر ایک جگہ جمع کریگا اور اُن کی نافرمانیوں اور من گھڑت تاویلات کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ کسی کے ساتھ کوئی حق تلفی نہ ہو گی۔
پھر فرمایا اے اللہ کے نبیؐ ان سے کہہ دو کے اللہ ہی مالک ہے سلطنت کا ۔ دیکھا جائے تو دُنیا کی سلطنت اللہ کی سلطنت جو ساری کائینات پر مشتمل ہے کا ایک معمولی جُزہے جس پر انسان آباد ہیں ۔ اللہ جسے چاہے اس عارضی سلطنت کی حاکمیت عطا کرے اور جس سے چاہے چھین لے ۔ سورۃ البقراۃ کی آیت 246میں فرمایا کہ حضرت طالوتؑ کا تعلق کسی بڑے گھرانے یا شاہی خاندان سے نہیں مگر اعمال کے لحاظ سے وہ تم سب سے بہتر ہیں ۔ اللہ نے اُنھیں جسمانی اور علمی قوت عطا کر رکھی ہے۔ حضرت طالوت ؑ کی ان ہی خوبیوں کی وجہ سے حضرت اشموعیلؑ نے اُنھیں یہودیوں کا بادشاہ مقرر کیا جو اُس دور میں شکست خوردہ، سہمے اور ڈرے ہوئے تھے۔ جالوت ایک جابر اور ظالم حکمران تھا جس نے یہودیوں کی بستیاں تاراج کردیں اور اُن کا سب سے مقدس اثاثہ تابوت سکینہ بھی چھین کر لے گیا ۔ آخر عاجز آکر یہودی سردار وقت کے پیغمبر حضرت اشموعیلؑ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ ؑ نے حضرت طالوتؑ جو ایک عام آدمی تھے کو بادشاہ مقرر کیا۔ یہودی سرداروں نے ذلت و رسوائی کے باوجود اعتراض اٹھایا کہ حضرت طالوتؑ کا تعلق کسی بڑے قبیلے یا خاندان سے نہیں جسپر حکم ہُوا کہ وہ جسمانی ، روحانی اور علمی قوت سے مزین ہیں۔ اللہ کے اطاعت گزار بندوں میں شمار ہیں اور دُنیا کے معاملات کو بھی سمجھتے ہیں ۔ یہ اللہ کی ہی مرضی ہے کہ وہ جسے چاہے ملک عطا کرے اور جِس سے چاہے چھین لے۔ اللہ فضل کرنیوالا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
قرآنی آیات کے معنی و مفہوم اور وجہ نزول سمجھے بغیر اُنھیں ذاتی تشہیر، شہرت اور شہوت کے حصول کے لیے استعمال کرنا تکبر و رعونت کے زمرے میں آتا ہے ۔ قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ ایک سخت تنبیہی کے زمرے میں بھی آتی ہے کہ اصل حکمرانی اللہ کی ہے۔ اگر دُنیا میں کوئی عہدہ یا رتبہ مل جائے تو سجدہ شکر بجا لاوٗ نہ کے زمین پر اکڑ کر چلو اور اس عہدے یا رتبے کی آڑ میں مخلوق پر ظلم اور بے انصافی کرو۔ کئی عزتوں میں ذلتیں پنہاں ہوتی ہے اور انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ پل بھر میں اُسکے ساتھ کیا ہوگیا ہے۔ سورۃ الفرقان کی آیت 2میں فرمان رَبی ّ ہے کہ اللہ کا کوئی مددگار یا معاون نہیں ۔ زمین اور آسمان میں اُسی کی حاکمیت ہے اور ساری کائینات اُس کی سلطنت ہے۔ اُس نے ہر چیز ماپ کر اور ٹھیک بنائی۔ پھر فرمایا کہ دنیا کے حاکموں میں یہ صلاحیت نہیں چونکہ وہ خود مخلوق ہیں اور اپنے بُرے بھلے کی بھی پہچان نہیں رکھتے۔ اُن کی موت اور زندگی اللہ ہی کی دسترس میں ہے۔
میری زندگی میں تین ایسے واقعات ہوئے کہ کچھ طاقتور اور زمین پر خُدائی کا دعویٰ کرنیوالے لوگوں نے مجھے قتل کرنے کا حتمی فیصلہ کیا مگر خود ہی ذلیل و رسوا ہوکر دُنیا سے رخصت ہو گئے۔ مجھے اِن کی سازش کا پتہ چلا تو میں ایک بزرگ خاتون کے پاس چلا گیا۔ محترمہ مہرو بی بی کے گھر لاہور پہنچا تو آپ نے آنکھیں بند کر کے کہا کہ اپنا سارا معاملہ بیان کرو بیچ میں کوئی جھول نہ ہو۔ میرے بیان کے بعد اُنھہوں نے آنکھیں کھولیں اور ایک ایک کے انجام کا ذکر کیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد یہ لوگ اپنے عہدوں سے رسوا ہو کر ہٹے اور ایک دوسرے کے ہی جانی دشمن بن گئے۔
میں نے پچھلے مضمون میں جناب ممتاز مفتی کی تحریر کا حوالہ دیا تھا کہ اُنھیں جناب قدرت اللہ شہاب نے کراچی کی ایک خاتون عطیہ کے پاس بھیجا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ عطیہ Seerتھی۔ محترمہ مہرو بی بی نے فرمایا کہ میں لکھا ہوا پڑھ لیتی ہوں ۔ الہی احکامات ایک دستاویزی شکل میں لکھ دیے جاتے اور پھر اُن پر مقررہ وقت پر از خود عمل ہو جاتا ہے۔ جب متکبر اور ظالم حکمران یا با اختیار لوگ اللہ کی حاکمیت کو چیلنج کرتے ہیں تو اللہ کا قانون نافذ العمل ہو جاتا ہے جسے اللہ ہی روک سکتا ہے۔ وہ لوگ جو کسی عہدے رتبے یا سماجی ، سیاسی اور استدراجی قوت کے بل بوتے پر کمزوروں پر جبر کرتے ہیں اُنھیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ایک برتر قوت اُن کے اعمال و افعال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
محترمہ مہرو بی بی نے فرمایا کہ بعض اوقات منظر بدل بھی جاتے ہیں ۔ اگر صاحب نظرنے کوئی منظر دیکھا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ عملی صورت اختیار کر لے ۔ فرمانے لگیں کہ اس کی چار وجوہات ہیں جسکا ذکر قرآن میں ہے۔ اللہ ہر شخص کو توبہ ، دعا ، شیطان سے دوری اور خود احتسابی کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جسے یمن کی ملکہ بلقیس نے تکبر نہیں کیا اور حضرت سلیمانؑ کے دربار میں حاضر ہو گئی۔ حضرت یونس ؑ کی قوم کو خبر ہوئی کہ اللہ کا نبی شہر چھوڑ گیا ہے اور اب ہم عذاب الہی سے نہیں بچ پائینگے تو سارا شہر اللہ سے معافی مانگنے لگا۔ سجدے میں گر کر توبہ کرنے لگے تو اللہ نے اُن کی اجتماعی غلطیاں اجتماعی توبہ اور عبادت کے صلے میں معاف کر دیں ۔
نمرود خدائی کے دعوے سے دستبردار نہ ہوا اور مچھر کے عذاب میں مبتلا ہو کر واصل جہنم ہُوا۔ یہی حال فرعون، شداد اور قارون کا ہوا۔ قرآن میں لکھا ہے کہ قارون ایک معمولی شخص تھا اور پھر حضرت موسیٰ ؑ سے مخالفت اور بغض کی بنا پر فرعون سے جا ملا۔ تفسیر کے مطابق وہ حضرت موسیٰ ؑ کا قریبی رشتہ دار تھا جس کی وجہ سے فرعون کے دربار میں اعلیٰ مقام حاصل کرلیا۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ شاطر اور انتہائی چالباز لوگ سیاستدانوں ، حکمرانوں اور اعلیٰ عہدیداروں کی قربت حاصل کر لیتے ہیں اور پھر خود کو اُن کا متبادل یا قائم مقام ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کچہریوں اور تھانوں میں بیٹھے ٹاؤٹ اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے قارون کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ قارون کے پاس تو چالیس خزانے تھے جبکہ قارون کے پیروکاروں کے پاس چار چار سو خزانے ہیں۔ قارون کہتا تھا کہ یہ دولت اُس نے اپنے عقل اور محنت سے کمائی ہے اور قارونی کہتے ہیں کہ یہ اُن کے مہربانوں کا عطیہ اور سیاسی خدمت کا صلہ ہے ۔ فرعون نے قارون کی مدد کی جو خدائی کا دعویدار تھا اور وقت کے فرعون قوت کا سر چشمہ ہیں۔
عام اور مصیبت زدہ لوگ جب قارون کے محلات اور باغوں کے قریب سے گزرتے تو حسرت سے کہتے کہ ہائے قارون کتنا خوش قسمت ہے۔ یہ بھی ہماری طرح مزدور اور عام آدمی تھا۔ پلک جھپکتے ہی اسکا مقدر بدل گیا۔ آج فرعون کے دربار میں بیٹھا ہے اور اس کی جاگیر گویا ایک ریاست ہے۔ آج بھی حسرت و یاس کی یہی کیفیت ہے لوگ ملک ریاض جیسے ارب پتیوں اور بڑے سیاسی لیڈروں کارخانہ داروں ، سرمائیہ داروں ، سیٹھوں اور اعلیٰ عہدیداروں کی مثالیں دیتے ہیں اور پھر اُن کی تاریخ بھی بیان کرتے ہیں کہ کون کس کی نوازشات کا صلہ ہے اور کون کس دروازے سے محل میں داخل ہُوا اور محل سے نکل کر ملک کا مالک اور رعایا کا حاکم بن گیا۔
ہمارے حکمران طبقے کا خاندانی پس منظر بھی ایسا ہی ہے۔ ہمارے اشراف کون ہیں؟ جناب قدرت اللہ شہاب کا طویل مضمون ‘‘یا خُدا’’ خدیجہ مستور اور حاجرہ مستور کی تحریروں کے علاوہ مستنصر حسین تارڑ کی تحریر ‘‘خس و خاشاک زمانے’’ اشراف کی ابتداٗ پر لکھی جانیوالی بہترین کتب ہیں۔ ملک کو لوٹنے اور عزتوں کو پامال کرنیوالے قارون جاگیر داروں ، تمن داروں ، گدی نشینوں اور جنرل نکلسن کے پیروکاروں کی قربت اور انگریزوں کی پروردہ بیوروکریسی کی معاونت سے حکمران خاندانوں کے روپ میں سامنے آئی تو دو قومی نظریے کی ھیت ہی بدل ڈالی۔
شایدیہی وجہ ہے کہ ہماری دانشور سفارتکار ملیحہ لودھی نے اپنے جیسے دانشوروں اور تاریخ دانوں کے ماہرانہ خیالات پر مبنی ایک کتاب مرتب کی ہے جسکا نام : "Pakistan: Beyond the crisis State” ہے ۔ اس کتاب کا پہلا مضمون مشہور تاریخ دان عائشہ جلال کا ہے جسکا نام "The Past as Present” رکھا ہے۔ ہم سادہ زبان میں اسے جیسا ماضی ایسا حال بھی کہہ سکتے ہیں ۔ ہمارا ماضی کیا تھا اور حال کیسا ہے یا حال جیسا ہے ماضی کیسا تھا پر کوئی واضع موقف سامنے نہیں آیا ۔ اِس کی وجہ عائشہ جلال کی سوچ اور امریکن عینک ہے جو اُن کی کمزور نظر کو تقویت فراہم کرتی ہے۔ عائشہ جلال نے اپنی علمی بصیرت اور سالوں پر محیط ریاضت اور تحقیق سے پتہ لگایا ہے کہ پاکستان در حقیقت ایک دماغی خلل کا نام ہے جس میں مافوق الفطرت مخلوق آباد ہے ۔ آپ نے "Pakistan as Paranoidistan” لکھا ہے ۔ لکھتی ہیں کہ یہ ملک ذہنی مریضوں Paranoid، دماغی خلل اور وسوسوں سے شکار لوگوں کا ہے ۔ یہ لوگ ہر وقت سوچتے اور شاکی رہتے ہیں کہ امریکہ اُن کے خلاف سازشیں کر رہا ہے اور بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کو کمزور کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔
"Paranoia”
کی تعریف کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ یہ ایک ایسی دماغی کیفیت ہے جو انسانی دماغ کو مفلوج کر دیتی ہے۔ اسے نفرت ، حقارت ، خوف اور وہم کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں ۔ وہ ہر وقت خوف میں مبتلا رہتا ہے اور کسی کو قابل بھروسہ نہیں سمجھتا ۔ باتوں کے بتنگڑ بنانا اور خیالی دشمن تخلیق کرنا ایسے افراد اور اقوام کی فطرت بن جاتی ہے۔ سوال کرتی ہیں کہ کیا پاکستان واقع ہی پیرانوڈستان یعنی دماغی خلل کا نام ہے اور پاکستانی پیرانوئیڈ یعنی مافوق الفطرت یا اجتماعی طور پر وسوسوں کا شکار قوم ہے۔ فرماتی ہیں کہ عالمی سطح پر پاکستان کے متعلق عمومی رائے یہی ہے چونکہ پاکستان دھشت گردوں کی سب سے بڑی اجتماع گاہ "Largest Assembly line of Terrorists”ہے ۔ پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی اور دھشت گردی اسلام کے جبری نفاذ کا نتیجہ ہے۔ "Product of its compulsive uses of Islam as an instrument of domestic and foreign policy”لکھتی ہیں کہ نیو یارک کے ٹائم سکوائیر میں دھشت گردی کرنے والے امریکن پاکستانی لڑکے کی حرکت کی وجہ سے امریکہ عالمی سطح پر قائم اِس سوچ سے متفق ہے کہ پاکستانی تو دھشت گرد نہیں مگر دُنیا میں جہاں بھی دھشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں اُسکا کُھرا پاکستان ہی سے ملا ہے۔
بیان کرتی ہیں کہ پاکستانیوں کے ذھنی انتشار اور مفلوج پن کی حالیہ وجہ اُنکا منتشر اور مفلوج ماضی ہے۔ نظریاتی دراڑ ـ "Ideological Fissures” کے عنوان سے لکھتی ہیں کہ پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے افغانستان اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جن جہادیوں کی مدد کی تھی آج وہ ہی جہادی پاکستان کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں ۔ گزشتہ چھ سالوں میں بائیس ہزار سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں جن میں ڈھائی ہزار کا تعلق ملک کی سکیورٹی فورسز سے ہے۔ عائشہ جلال نے نظریاتی دراڑ کی تشریح مغربی ، امریکی اور بھارتی نقطہ نظر سے کی ہے ۔ عائشہ جلال نے افغان جہاد، امریکہ کی افغانستان میں آمد، طالبان اور امریکہ کے درمیان جنگ سے لیکر فاٹا ، سوات ، ایبٹ آباد ، بلوچستان اور پاکستان ایٹمی اثاثوں تک کوئی ایسا موضوع نہیں چھوڑا جسکا تعلق جہاد، اسلام اور پاکستانیوں کی جہادی ، اسلامی نظریاتی سوچ اور نفسیاتی مفلوج پن سے نہ جوڑا ہو۔ فرماتی ہیں کہ پاکستانیوں کو سوچنا ہو گا کہ آخر وہ ساری دُنیا کا پسندیدہ پٹھوگرم بچہ کیوں ہے۔ Pakistani’s need to ponder why they have ended as the World’s favourite wipping Boy
یعنی وہ لڑکا جو ہر کسی کے جرم کا مجرم گردانا جاتا ہے اور ہر کسی کے جرم کی سزا اسے دی جاتی ہے۔ اسکا کام صرف مار کھانا اور رونا ہے۔ پنجابی میں کہتے ہیں ‘‘خصم کرے نانی تے چَٹی دوہترے نوں’’ یعنی شادی نانی کرے اور جرمانہ نواسہ بھرے۔ مشہور محاورہ ہے ‘‘کرے کوئی اور بھرے کوئی’’ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں ‘‘لِسے دا کی زور محمد نَس جاناں یا روناں’’ مگر ایسا ہرگز نہیں ۔ نہ تو پاکستانی قوم کسی بھی لحاظ سے مفلوج ہے اور نہ ہی پاکستان دُنیا کا پسندیدہ وپنگ بوائے ہے۔ ہر پاکستانی مردِ مجاہد اور مسلمان ہے اور جو پاکستانی مسلمان نہیں وہ بھی محب وطن ہے۔
عائشہ جلال نے سعادت حسن منٹو کے انکل سام کے نام خطوط کا بھی حوالہ دیا ہے کہ امریکہ پاکستانی مولویوں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے ۔ جب ملاوٗں کے پاجامے امریکی مشینوں پر سِل کر تیار ہو جائینگے تو روسی دُکان خود بخود بند ہو جائیگی۔ ملاوٗں کی یہ فوج غریب اور مفلوک اُلحال عوام پر حملہ آور ہو کر اُن کا استحصال کرے گی۔ منٹو افسانہ نگار تھے ، افسانہ نگاروں ، ناول نگاروں اور شاعروں کی الگ نفسیات ہوتی ہے اور اسی نفسیاتی زاویے سے ہی زمانے کی پرکھ کرتے ہیں۔ منٹو کے انکل سام کے نام خطوط پر بحث ایک الگ مضمون ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظمؒ کے بعد ہم حقیقی قیادت سے محروم ہو گئے۔ نو دولتیے سیاسی کلچر اور جاگیر دارانہ طریقہ حکمرانی نے ہمیں اصل منزل سے ہٹا کر خود فہمی اور خود فریبی کے راستے پر ڈالا تو ہم حقیقت فراموش ہو گئے۔ عائشہ جلال ، جگنو محسن ، روٗف کلاسرا ، عکسی مفتی ، جاوید چوھدری ، اسد اللہ غالب اور سہیل وڑائچ جیسے ہمیں تاریخ دان ، تجزیہ نگار اور قلم کار ملے۔ اسد اللہ غالب نے جاوید چوھدری کو دورِ حاضر کا ابنِ بطوطہ اور مبشر لقمان نے سہیل وڑائچ کو اس دور کا سب سے بڑا مفکر قرار دیا ہے۔ روٗف کلاسرا نے کشمیرکہانی لکھی اور ماونٹ بیٹن کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ کشمیر کی کہانی پانچ ہزار سال پُرانی ہے یہ بھکر کی کہانی نہیں ۔ مگر کیا کریں جب جواب دینے والا ہی کوئی نہ ہو تو جس کی مرضی ویرانے میں اپنی دانشوری کی بانگیں دیتا رہے۔
کلاسرا کو لیری کولن اور ڈومی نیکولاپائیر کی ‘‘فریڈم ایٹ مڈنائٹ’’ ملی تو موصوف نے اسے ‘‘مِڈ نائٹ جیکال’’ سمجھ کر پڑھنا شروع کر دیا ۔ حیرتوں کے پردے کھلنے لگے تو کلاسرا نے اپنے ولائت میں مقیم دوست سے رابطہ کیا اور وہاں سے گوروں کی لکھی ہوئی کچھ کتابیں منگوا لیں۔ گوروں کی لکھی کتابیں اور ولائت میں مقیم دوست ہمارے دانشوروں کی مجبوری ہے ورنہ خودنمائی اور خود ستائشی میں کمی آنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ علمی تکبر اور گروہی عزت پر بھی حرف آتا ہے مگر کشمیر کی اصل کہانی کچھ اور ہے۔ کاش وہ اسرار احمد راجہ کی ‘‘کشمیر کا المیہ’’ انوار ایوب راجہ کی لینٹھا ، جی ایم میر کی کشور کشمیر ، جموں و کشمیر کی جغرافیائی حقیقتیں ، کشمیر سے بحر قروین تک ، چوھدری غلام عباس کی کشمکش ، سردار شوکت حیات کی گم گشتہ قوم ، جناب کے ایچ خورشید کی قائد اعظم ؒ کی یادیں ، لیفٹینٹ مظفر خان شہید ستارہ جراٗت دوبار کی بیٹل آف جھنگڑ، دھرمسال اور نوشہرہ ، جنرل اکبر خان کی ریڈرز اِن کشمیر ، میجر راجہ میر افضل خان کی حضور پاکؐ کا سپاہی جیسی چند کتابیں پڑھ لیتے تو اُنھیں سمجھ آجاتی ہے کہ گوروں نے سب سچ نہیں لکھا اور نہ ہی ماونٹ بیٹن ہندوستان کی تقسیم کیلئے آیا تھا۔ کلاسرا نے قائداعظم ؒ پر ایک قاتلانہ حملے کی کہانی بھی تلاش لی حالانکہ قائداعظم ؒ پر ایک ہی قاتلانہ حملہ ہوا تھا ۔ یہ حملہ 26جولائی 1943ء کے روز بمبئی میں مالا بار ہل پر واقع ان کی رہائش گاہ پر رفیق صابر مزنگوی نے کیا جسکا تعلق عنائت اللہ مشرقی کی خاکسار تحریک سے تھا۔ یہ حملہ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا جسکا ذکر مسٹر اکبر اے پیر بھائی بار ایٹ لاٗ نے اپنی تصنیف "Jinnah faces an Assassin”میں کیا ہے ۔ جناب اکبر ایس پیر بھائی قائداعظمؒ کی بہن مریم بی کے صاحبزادے تھے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن دسمبر 1943ء میں بمبئی سے شائع ہوا ۔ بعد میں اِس کتاب کے متعدد تراجم شائع ہوئے جن میں ردوبدل کیا گیا۔ ایک ترجمہ 1985ء اور پھر 1988ء میں جناب منیر احمد منیر نے ‘‘قائداعظم ؒ پر قاتلانہ حملہ’’ کے عنوان سے شائع کیا۔
کلاسرا کی کشمیر کہانی انتہائی بھونڈے انداز میں لکھی گئی ہے۔ نہ تو یہ رمانٹک ہے اور نہ ہی تاریخ کی سچائی کی ترجمان ہے۔قائداعظمؒ کی زندگی پر تحقیق کرنے والوں میں جناب پروفیسر فتح محمد ملک اور ڈاکٹر صفدر محمود جیسے معتبر نام موجود ہیں ۔ کے ایچ خورشید لکھتے ہیں کہ کشمیر پر قبائیلیوں کے حملے سے قائداعظمؒ بے خبر تھے۔ حتیٰ کہ سیکریٹری جنرل چوھدری محمد علی کو بھی بہت بعد میں پتہ چلا تو اُنھہوں نے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے رابطہ کیا۔ چوھدری محمد علی کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ گورنر جنرل کو اس جہاد کی خبر نہیں اور آپ بھی انھیں کچھ نہ بتائیں ۔
لکھتے ہیں کہ ہیکٹر بو لیتھو کی کتاب ‘‘جناح۔ بانی پاکستان’’ چھپ کر آئی تو محترمہ فاطمہ جناح یہ کتاب پڑھ کر سخت برہم ہوئیں ۔ وہ نہ صرف مصنف بلکہ حکومت پاکستان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا ارادہ رکھتی تھی چونکہ یہ کتاب حکومت کی ایماٗ پر لکھی گئی تھی ۔ میں نے عرض کیا کہ حکومت کیخلاف قانونی چارہ جوئی کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ یہ درست ہے کہ کتاب میں مبالغہ آمیزی کی گئی ہے ۔ اگر آپ صرف ایک بیان ہی دے دیں تو کتاب کے تمام دعوے خاک میں مل جائیں گے۔
جب مادرِ ملت کی زندگی میں ہی قائداعظم ؒ کے متعلق مبالغہ آرائیوں پر مبنی کتابیں شائع ہو رہیں تھیں تو اب قائد کی کسے فکر ہے۔ ڈاکٹر ھود بھائی جیسے دانشوروں کی زندگی کا مشن ہی قائداعظمؒ اور دو قومی نظریے کے خلاف لکھنا ، لکھوانا اور بولنا ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت سے دانشور ہیں جو نت نئی جہتیں تلاشنے کے ماہر ہیں ۔ اب تو محمد بن قاسم کے خلاف بھی مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے‘‘ المُہلب خطہ پاکستان میں اسلام کا پہلا علمبردار ’’ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ لکھتے ہیں کہ یہ تاریخ پاکستان کا پہلا باب ہے۔ آپ نے ابو سعید بن ابی صفرہ المہلب کے متعلق لکھا ہے کہ وہ محمد بن قاسم سے 45 سال پہلے اس خطہ زمین پر آیا اور یہاں حکمرانی بھی کی۔ اسلام آبادمیں اس کتاب کی تقریب رونمائی پر راقم نے اُن کی توجہ فاتح پشاور ، بلوچستان اور جنوبی افغانستان حضرت سنان بن سلمہؓ کی طرف دلائی تو اُنھہوں نے فرمایا کہ یہ صرف آمد تھی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت سنان بن سلمہ ؓ صحابی رسولؐ تھے اور آپ نے پشاور پر دوبار حملہ کیا۔ دوسری بار آپ دس اصحاب کرام ؓ کے ہمراہ شہید ہوئے اور پشاور کے نواحی بستی چغرمٹی میں ہی دفن ہیں ۔ آپ ؓ نے پشاور سے شیدو تک علاقہ فتح کیا اور اسے اسلامی ریاست میں شامل کیا ۔ اسی طرح قیس عبدالرشید ؓ جن کا تعلق افغانستان کے جنوبی علاقہ سے تھا شق القمر کے واقع کے بعد مکہ تشریف لے گئے ۔ آپ نے اسلام قبول کیا اور جنگ یرموک تک خالد بن ولید کے مہمان رہے۔ آپؓ نے خالد بن ولید کی بیٹی سے شادی کی اور واپس وطن لوٹے۔ آپ ؓ کی آمد پر آپ کے قبیلے نے پختون روایات کے مطابق آپؓ کا استقبال کیا اور سارا قبیلہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا ۔ قیس عبدالرشیدؓ کی قبر جنوبی وزیرستان میں ایک پہاڑکی چوٹی پر واقع ہے جہاں قریب ہی ایک چھوٹی سی بستی بھی موجود ہے۔
کشمیر کہانی جیسی کہانیوں کی تردید کرنا کشمیر کے اہلِ قلم کا کام ہے مگر اُنھیں اپنے نام نہاد لیڈروں کے قصیدے لکھنے سے ہی فرصت نہیں۔ ایک صاحب شراب نوشی اور خواتین کو چھیڑنے کے جرم میں پکڑے گئے اور کچھ روز حوالات میں بند رہے۔ واپس آئے تو اُن کے مداحوں نے ایک استقبالیے کا اہتمام کیا ۔ ایک دانشور نے اپنی تقریر کا آغاز ‘‘وتعزمن تشاء وتزلُ من تشاء سے کیا اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے ۔ موصوف کے ہر جلسے کا آغاز اسی آیت مبارکہ سے ہوتا ہے اور یہ سعادت اسی دانشور کے نصیب میں لکھی گئی ہے۔
جگنو محسن اپنے یوٹیوب چینل پر مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کے متعلق پروگرام کر رہی تھیں ۔ آپ کے سامنے آکسفورڈ یا کیمرج کی کوئی برٹش پاکستانی خاتون بیٹھی تھی۔ اُن کے پیچھے ایک پوسٹر لگا تھا جسپر لکھا تھا ‘‘ جب بابر بادشاہ نے اپنی بہن کا سودا کیا ’’ یہ ایک عجیب انکشاف تھا۔ گوروں کے دیس سے آئی خاتون بار بار کہہ رہی تھی کہ اس تاریخی حقیقت کا بہت کم لوگوں کو پتہ ہے۔ عجیب بات ہے کہ پاکستان میں قائم مغلیہ سوسائیٹی ایسی معلومات سے بے خبر کیوں ہے، مغلیہ سوسائٹی ہر سال بابر بادشاہ کی برسی کا اہتمام کرتی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سوسائٹی میں شامل دانشور اور محقق اپنی تاریخ سے نا بلد ہوں ۔ جگنو محسن کے رویے سے لگتا تھا کہ مغلوں کی اُن سے پرانی دشمنی ہے۔ تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو ہمایوں کی شکست کے بعد شیر شاہ سوری نے جنوبی پنجاب پر خاص توجہ دی اور ھیبت خان نیازی کو بالائی سندھ، پنجاب اور موجودہ خیبر پختونخواہ کے بیشتر علاقوں کا گورنر مقرر کیا ۔ ھیبت خان نیازی نے اپنی پوری توجہ بلوچوں پر مرکوز کی اور اُن کا قتل عام کروایا۔ پانچ سال بعد ہمایوں واپس لوٹا تو نہ صرف نیازیوں کی سرکوبی کی بلکہ اُن کے حمائت یافتگان بھی زیر عتاب آئے۔ دیپالپور کے معرکے میں بہت خون خرابہ ہوا جس میں شیر شاہ کے حمائت یافتہ جاگیرداروں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ جگنو محسن کے آباو اجداد بھی اس معرکے کے متاثرین میں شامل ہوں ۔ 1857ء کی جنگ آزادی جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں ، گدی نشین پیروں اور مجاوروں کیلئے خوش بختی کا پیغام لیکر آئی ۔ جنرل نکلسن نے گدی نشینوں اور جاگیرداروں کا اپنی مٹھی میں لیا تو گدی نشینوں نے اپنے مریدوں جن میں سکھ بھی شامل تھے کو حکم جاری کیا کہ وہ انگریز کا ساتھ دیں۔ جاگیرداروں اور گدی نشینوں کی مدد سے انگریزوں نے شیر پنجاب رائے احمد خان کھرل کو شہید کیا اور پنجاب پر قابض ہو گئے ۔ جنرل نکلسن کو مارگلہ کے مقام پر سردار کالا خان کھٹڑ نے ھلاک کر دیا مگر اُس کی وصیعت کے مطابق پنجاب کے پیروں ، گدی نشینوں اور دیگر کو وسیع جاگیریں عطا ہوئیں اور ان کی اولادیں اس خطہ زمین کی حکمران ٹھہریں ۔ جگنو محسن کا تعلق بھی پیر اور جاگیردار گھرانے سے ہے اسلیے اُن کا غصہ بھی جائیز ہے۔
تزک بابری میں بابر لکھتا ہے کہ سمرقند اور بخارا پر قبضے سے پہلے اپنے بھائی جہانگیر مرزا سے صلح کی اور سلطان علی مرزا کی مدد بھی حاصل کر لی۔ اسی دوران شیبانی خان ازبک نے بخارا پر قبضہ کر لیا اور سمر قند کی طرف بڑھنے لگا ۔ سلطان علی مرزا کی ماں بیوہ تھی اور شیبانی خان سے رابطے میں تھی ۔ اس عورت نے شیبانی خان سے شادی کی خواہش ظاہر کی اور پیغام بھیجا کہ اگر تم مجھے اپنے نکاح میں لے لو تو میں تمہاری بھرپور مدد کرونگی۔ بابر لکھتا ہے کہ اس بیوقوف عورت نے ہوس کی خاطر بیٹے کی سلطنت شیبانی کے حوالے کردی اور بیٹا بھی مروا دیا۔
اگلے کئی معرکوں میں بابر کامیاب ہوا اور شیبانی کو سمر قند سے نکال دیا۔ شیبانی خان نے دیگر خوانین کو ساتھ ملاکر سمر قند پر تیسرا حملہ کیا اور کامیاب ہو گیا ۔ بابر لکھتا ہے کہ میرا سارا خاندان بکھر گیا ۔ والدہ دو خواتین کے ہمراہ محل سے نکلنے میں کامیاب ہوئیں ۔ میری بڑی بہن خانزادہ بیگم، نانی اور دوسری خواتین کو یہی چھوڑ دیا گیا اور یہ سب شیبانی کی قید میں چلی گئیں ۔ جگنو محسن اگر جنگی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ غزہ کی جنگ آج بھی جاری ہے۔ سارے لیڈر شہید ہوئے یا قید کر لیے گئے ۔ اُن کی بیوی بچے اور خاندان کے لوگ غزہ میں ہی رہ گئے اور یکے بعد دیگرے مرتبہ شہادت پر پہنچے۔ ایران، عراق، لیبیا اور افغانستان میں کیا ہوا۔ شاہی اور حکمران خاندان کی عورتیں اور بچے عقوبت خانوں میں بھوکے پیاسے مر گئے یا پھر در در کی ٹھوکریں کھاتے دنیا سے رخصت ہوئے۔ میں نے پچھلے مضمون میں واقع کربلا کا ذکر کیا تھا۔ اِس سانحہ کے بعد خانوادہ رسولؐ پر جو مصیبتیں آئیں اُن کا ذکر کرنا ہی محال ہے۔
بابر لکھتا ہے کہ اُس کے خاندان کی کچھ عورتیں دربدر کی ٹھوکریں کھاتیں سمر قند سے نکل آئیں جن میں اُس کی نانی بھی شامل تھی۔ جو مغل شہزادیاں سمر قند سے آئیں اُن میں خانزادہ بیگم کا ذکر نہیں ۔ ہمایوں نامہ میں گلبدن بیگم نے لکھا ہے کہ ابو سعید مرزا جو بابر بادشاہ کا دادا اور عمر شیخ مرزا کا باپ تھا کی سات بیٹیوں سمیت چھیانوے خواتین ہندوستان آئیں مگر اِن خواتین میں بھی خانزادہ بیگم کا ذکر نہیں ۔ تزکِ بابری کے مطابق بابر کی زندگی میں ہی شہزادہ ہمایوں نے سمر قند پر حملہ کیا تو ازبکوں نے ایک معاہدے کے بعد سمر قند خالی کر دیا۔ اگر خانزادہ بیگم زندہ ہوتی تو وہ ہمایوں کے ساتھ واپس آ جاتی۔ بعض مورخین نے لکھا ہے کہ خانزادہ بیگم بھی واپس آگئی تھی اور کابل میں دفن ہے ۔ بہرحال بابر نے بہن کا سودا نہیں کیا تھا بلکہ علی سلطان کی ماں پر شیبانی خان کے عشق کا بھوت سوا ر ہوا تو اُس نے اپنے بیٹے کی زندگی کا سودا کر لیا۔
آج کل تاریخ نو کا دور ہے اور ہمارے تاریخ دان بُری طرح اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ چونکہ یہ بیماری امریکہ سے آئی ہے اسلیے اسے اپنانا اور اپنی تاریخ مسخ کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ وہ تاریخ دان جو یورپ اور امریکہ کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں یا وہاں مقیم ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے استادوں اور مہربانوں کی خوشنودی حاصل کریں ۔
جگنو محسن ہوں یا عائشہ جلال سب کے سب ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ روٗف کلاسرا جیسے دانشور اس طبقے میں شمولیت کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ (جاری ہے)

Exit mobile version