عزت و زلت کا راز اللہ ہی جانتا ہے چونکہ وہ ہی سب سے بڑا عزت والا ہے۔ زمین و آسمانوں میں اُسی کی بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز سے با خبر ہے۔ ولی کاشمیری کہتے ہیں کہ جب اللہ نے زمانے کی قسم کھا کر کہا کہ انسان صریحاً خسارے میں ہے تو پھر شک کی کیا بات ہے۔ پیسہ جیب میں آیا، کوئی عہدہ یا رتبہ مل گیا ، کچھ لوگوں نے اپنی غرض کی خاطر آپ جناب کہنا شروع کیا، چند حرف لکھنے پڑھنے آگئے ، اپنے جیسوں نے ایک دوسرے کی تشہیر کیلئے دعوتوں میں بلانا شروع کر دیا، ہم خیالوں کی انجمنیں اور فورم بن گئے تو انسان انسانیت کے درجے سے گِر کر شیطان کے قدموں میں جا گرا اور پھر گرتا ہی چلا گیا۔ وہ نہ صرف اللہ سے بلکہ مخلوق سے بھی کٹ گیا۔ حاکم ہے تو جبر کے راستے پر چل نکلا ، سیاستدان ہے تو رعونت کی چادر اوڑھ لی ، سرمائیہ دار ہے تو قارونیت کا پیروکار ہُوا، عالم ہے تو ریا کاری کے پیشے کو اپنا لیا اور مفکر اور دانشور بن گیا تو اپنی مرضی مسلط کرنے لگا جیسے موجودہ دور کے اکیڈیمک یا مدرسی دانشوروں کا ٹولہ جو سوچتا ، لکھتا اور کہتا ہے حکومت اور حکومتی ادارے اسے قبول کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ اکیڈیمیا کی تاریخ بھی پرانی ہے۔ قدیم تہذیبی ادوار کے حکماٗ و فلاسفہ کے نظریات جن میں دین کا کوئی دخل نہ تھا محض نا سوتی اور اختراحی سوچ کی بنیاد پر دانشور کہلائے ۔ اِن میں اکثریت شعراٗ کی تھی جسے بعد کے ادوار میں نثری شکل دی گئی اور نثر نگاروں نے اُنھیں فلسفیانہ رنگ دے کر حکمرانوں کیلئے سیاسی افکار اور سماجی قوانین مرتب کرنے کا کام کیا۔
کیا یونانی فلاسفہ نے یہی کہا تھا جو کتابی شکل میں ہمارے سامنے ہے؟ اُس دور کی تہذیب از خود اس کی نفی کرتی ہے ۔ ہمارے تاریخ دان یہ بھی نہیں بتا سکے کہ اُس دور میں کوئی اللہ کا ولی بھی تھا چونکہ پیغمبری ادوار کے درمیانی عرصہ میں بھی زمانہ کبھی رُشد و ھدایت سے خالی نہیں رہا۔ یونانی ، ہلنی ، مصری ، بابلی ، سومیری ، رومی اور چینی تہذیبوں کا تقابلی جائیزہ لیا جائے تو چینی تہذیب کے خدوخال بالکل واضع اور قوت بخش ہیں ۔ دیگر تہذیبی آثاروں سے ہمیں کسی لٹریچر یا اُن اقوام کے تہذیبی ادبی ورثے کے کوئی آثار نہیں ملے۔ حکماٗ و فلاسفہ نے جو کچھ ہمارے سامنے پیش کیا وہ اختراعی ہے حقیقی نہیں۔ دانشوروں نے اشعار کو مطلب کے معنی دیے اور ایک فکر و فلسفے کی بنیاد رکھی اور پھر ان ہی تصویری خاکوں ، لکیروں اور نقطوں کی ایک زبان تخلیق کی اور گزشتہ تہذیبی ادوار کی تاریخ مرتب کر ڈالی ۔ ہڑپہ ، مہنجوڈارو، ٹیکسلا اور دیگر تہذیبوں کے متعلق جو کچھ ہم جانتے ہیں یہ اسی تخلیقی زبان سے اخذ کی گئی تاریخ ہے جو کسی بھی طرح مبنی بر حقیقت نہیں ۔ تاریخ اور تہذیب کا باہم گہرا تعلق ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ انسان کروڑوں سال گزرنے کے باوجود اپنی ہی تاریخ کی کڑیاں باہم ملانے سے تو قاصر ہے مگر اللہ کی تاریخ ڈھونڈنے چل نکلا ہے۔
مدرسی یا اکیڈیمک دانشور کبھی ایک نظریے پر متفق نہیں ہوتے۔ اگر ایسا ہو تو مشرق و مغرب کے سیاسی افکار جنم نہ لیں اور دُنیا کسی ایک نظریے پر متفق ہو جائے۔ مگر ایسا نہیں ہو سکتا اور یہ بھی اللہ کا ہی فیصلہ ہے چونکہ انسان اپنی ناسوتی جبلت کے تابع شہرت اور شہوت کی طرف مائل ہو کر اپنی پیدایٗشی حقیقت سے دور ہو جانے میں آفیت محسوس کرتا ہے اور احساس برتری کا شکار ہو کر خدائی کا دعویدار بن جاتا ہے۔
علمی، عقلی ، مالی اور معاشی خداوٗں کے بھی خُدا ہوتے ہیں جو اُنھیں عزت کے مقام پر بٹھا کر ان کے خیالات اور فرمودات عام لوگوں پر مسلط کرنے اور اُنھیں صراط مستقیم سے ہٹانے کا کام لیتے ہیں۔
ہمارے بیشتر مدرسی دانشور مغربی فلاسفہ و حکماٗ کے مقلد ہیں اور اُنھیں کے نظریات و افکار پر ہمارا سیاسی ، عدالتی ، انتظامی ، معاشی اور معاشرتی نظام استوار ہے۔ تعلیمی نظام دیگر نظام ہائے زندگی کی بنیاد ہے۔ اگر تعلیمی نظام زوال پذیر ہو جائے تو ریاست کا کوئی بھی ادارہ فعال کردار ادا نہیں کر سکتا۔ انگلش زبان سیکھنے کا ہرگز مطلب نہیں کہ ہم مغربی تہذیب اور تمدن میں بھی مدغم ہو جائیں ۔ کیرن آرم سٹرانگ اور دیگر مغربی محققین کے مطابق اہل مغرب نے عربی زبان سیکھی اور عربوں سے سائینسی اور عمرانی علوم سیکھ کر ان کے تراجم اپنی زبانوں میں کئیے ۔ زبانوں کا سیکھنا اور سمجھنا علم کے حصول ، تجارتی لین دین اور سفارتی تعلقات میں آسانی کیلئے ہے نہ کہ معاشرتی ، اخلاقی ، سیاسی اور ثقافتی تبدیلی کیلئے انگریزوں نے ہندوستان پر دو سو سال تک حکومت کی مگر یہاں کی بودوباش اختیار نہ کی ۔ آج چین نے علمی قوت کے بل بوتے پر ساری دُنیا پر تسلط قائم کر رکھا ہے مگر اپنے مذاھب ، معاشرت اور ثقافت سے کبھی الگ نہیں ہوئے اور نہ ہی وہاں مدرسی دانشوروں اور اکیڈیمیا کا غلبہ ہے۔ ہماری بد قسمتی کہ ہماری اشرافیہ کی طرح ہمارا دانشور بھی سطحی اور مفاد پرستانہ سوچ و فکر کا حامل ہے۔ ستائیس کروڑ انسانوں کی سوچ و فکر پر چند سو لوگ مسلط ہیں جن کی اجارہ داری ہر سطح پر تسلیم کی جاتی ہے۔ مدرسی دانشوروں کے متعلق ڈاکٹر رادھا کشن نے ‘‘انڈین فلاسفی ’’میں لکھا ہے کہ ہم ان کے لکھے قصے کہانیوں میں اُلجھے رہے اور اپنی اصل تاریخ مرتب کرنے میں ناکام رہے۔ ابنِ خلدون کے مطابق بلا تحقیق لکھنے والا تاریخ دان نہیں بلکہ تاریخ کا مجرم ہے ۔ پنڈت کلہن نے مدرسی دانشوروں کے متعلق لکھا ہے کہ ان کا فرسودہ علم شہرت کے حصول کا ذریعہ تو بن جاتا ہے مگر عوام الناس میں کبھی مقبول نہیں ہوتا۔
مدرسی اساتذہ کے رویوں میں تسلسل نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ فلاح انسانی کیلئے کام کرتے ہیں ۔ وہ اپنے خیالات کی تشہیر کرتے ہیں اور پھر کسی دوسرے نظریے کے پرچارک بن کر فرسودہ خیالی کا کاروبار جاری رکھتے ہیں ۔ ملیحہ لودھی کی کتاب دور حاضر کے مدرسی دانشوروں کے خیالات کا مجموعہ ہے۔ ملیحہ لودھی نے اپنی حیثیت کا فائدہ اُٹھا کر اس کتاب کو سول سروسز کے سلیبس میں شامل کروایا ہے جسے ملک چلانے والی مشینری کے نونہال پڑھنے پر مجبور ہونگے ۔ ظاہر ہے کہ ملک کی سپیررسروس میں شمولیت کے خواہاں نوجوان ڈاکٹر عائشہ جلال پر تنقیدی نوٹ تو نہیں لکھیں گے اور نہ ہی اُنھیں تنقیدی تبصرہ لکھنے کا کہا جائے گا۔
ڈاکٹر عائشہ جلال کی بے خبری کا یہ عالم ہے کہ انھیں پتہ ہی نہیں کہ پاکستانی امریکہ سے کتنا پیار کرتے ہیں ۔ ہم نے ویتنام اور کوریا کی جنگوں میں تو حصہ نہیں لیا مگر دنیا میں ہر جگہ امریکیوں اور اُن کے یورپی اتحادیوں سے بڑھ کر ساتھ دیا ہے۔ سرد جنگ ہو یا افغانستان میں لڑی جانیوالی گرم ترین جنگیں ہم ہمیشہ سے امریکہ کے نان نیٹو اتحادی رہے ہیں ۔ ہماری ساری اشرافیہ گرین کارڈ ہولڈر ہے اور اُن کے اثاثے یورپ اور امریکہ میں ہیں ۔ اشرافیہ میں بیورو کریسی کو بھی شامل کر لیا جائے تو امریکہ اور برطانیہ اِن کا دوسرا وطن ہے۔ ان کے بچے وہاں پڑھتے ہیں اور اِن کے خاندانوں کا وہاں علاج ہوتا ہے۔ ہمارا دانشور اور بیوروکریٹ پہلے ہی ہارورڈ ، آکسفورڈ ، کیمرج ، لندن سکول آف اکنامکس اور دیگر مشہور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہے۔
سیاستدانوں اور حکمرانوں کی نئی کھیپ بھی امریکہ اور برطانیہ کے تعلیمی اداروں کی تربیت یافتہ ہے۔ روٗف کلاسرا جیسے تاریخ دان اگر گولڈ سمتھ کالج کا نام نہ لیں تو ان کی سانس رکنے لگتی ہے۔ عائشہ جلال کا افغانستان اور کشمیر کے متعلق تبصرہ اُن کی فرسودہ خیالی کا ترجمان ہے۔ وہ جن لوگوں کا کھرا پاکستان سے ملاتی ہیں وہ پاکستان کے راستے ہی افغانستان بھجوائے گئے تھے۔ جب ضرورت نہ رہی تو وہ اسی راستے واپس چلے گئے اور اپنے قدموں کے نشانات بھی چھوڑ گئے۔
شاید عائشہ جلال کو پتہ نہیں کہ سلک روٹ پاکستان سے ہی گزرتا ہے اور مشرق و مغرب کو باہم ملاتا ہے۔ پاکستان گریٹ گیم کا مستقل میدان ہے اور یہاں پولو جیسا کھیل صدیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ یہ دنیا کی بڑی تہذیبوں کا مدفن اور راہ گزر بھی ہے۔ تاریخ کی اہمیت کے باب میں نہیں لکھا کہ ہماری تاریخ کا نقطہ آغاز کیا ہے اور ہم کس تاریخ کے تناظر میں اپنا حال درست کریں ۔ پاکستانی تاریخ دانوں کی بات کریں تو سبھی شخصیت پرستی کا شکار ہیں ۔ پنجابی تاریخ دانوں کی سوچ بھگت سنگھ اور رنجیت سنگھ سے شروع ہو کر موجودہ حکومتی بندوبست تک محدود ہے۔ آئن ٹالبوٹ کی مرتب کردہ تاریخ پاکستان میں سابق وزیر داخلہ اعتزاز احسن کی کتاب ‘‘دِی انڈین ساگا اینڈ میکنگ آف پاکستان’’ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان کی تخلیق کوئی تاریخی عجوبہ ہرگز نہ تھا اور نہ ہی یہ انگریزوں کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی جیسا کہ ہندوستانی قوم پرست اہل دانش کا خیال ہے بلکہ تخلیق پاکستان ایک طولانی اور تاریخی سندھی روایات کا نتیجہ ہے۔
تاہم امریکی تجزیہ نگار سلیگ ھیری سن نے اس نظریے کو رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ برطانوی نو آبادیاتی نظام سے پہلے اِس خطے میں بسنے والے لسانی گروہ کبھی ایک ساتھ نہیں رہے ۔ ھیری سن کا خیال ہے کہ مختلف لسانی گروہوں کو مذھب کی زنجیر میں باندھنے سے قومیت کا تصور کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں اُس نے ساری مثالیں سرحد، پنجاب، بلوچستان اور سندھ سے اخذ کی ہیں جو کسی بھی لحاظ سے درست نہیں اور نہ ہی اسلامی نظریہ سیاست سے مطابقت رکھتی ہیں ۔ وہ آزادی کے بعد پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ پاکستانی ریاست کی مصنوعیت اور غیر فطری پن کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ دیکھا جائے تو اعتزاز احسن کا یہ بیان پیپلز پارٹی سے محبت کا اظہار ہے جبکہ اُن کی سندھ ساگر اُن کی پاکستانیت اور وطنیت کا جذباتی ترجمان تو ہے مگر حقائق کے برعکس ہے۔
ھیری سن نے بھی کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ حکومت برطانیہ ، کانگرس ، جمعیت علمائے اسلام ہند، مولانا آزاد اور باچا خان کے اُن خیالات کو دہرایا ہے جن کی بنا پر وہ متحدہ ہندوستان اور مسلمانوں پر ہندو غلبے کے حامی تھے۔ عائشہ جلال کی طرح آئن ٹالبوٹ بھی پاکستان کے موجودہ حالات کو ماضی سے منسلک کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ زمانہ حال کے رجحانات پرتاریخی اثرات واضع ہیں جو برطانوی نو آبادیاتی نظام سے بہت پہلے کے ہیں ۔ انگریزوں نے مضبوط مرکزی حکومتی نظام مغلوں سے ورثے میں پایا۔لکھتا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ ، شیخ احمد سرہندی کی مذہبی تحریکیں ایک سنی سٹیٹ کے قیام کی کوششیں تھیں جبکہ وارث شاہ جیسے شاعر شریعت اور مولوی کے مذھب کے باغی تھے ۔ وہ سندھ میں شاہ عنائت کی جاگیر دارانہ نظام کے خلاف تحریک کا بھی ذکر کرتا ہے جنھیں 1718ء میں شہید کر دیا گیا تھا۔ لکھتا ہے کہ 1983ء میں جنرل ضیا الحق کے خلاف چلنے والی تحریک شاہ عنائت کی تحریک کا ہی حصہ تھی جبکہ ایم ۔آر۔ ڈی کی تحریک نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کے اشعار سے تقویت حاصل کی۔ 1946ء میں کابینہ مشن کے سامنے باچا خان نے لازمی گروپ بندی یعنی ہندو اور مسلم قومیت کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کرینگے ۔ سرحد اسمبلی کے اسپیکر اللہ نواز خان نے پختون تشخص کی بنیاد قرار دادِ پاکستان کے الفاظ دہراتے ہوئے مسلم قوم کی جگہ پختون تشخص کا لفظ شامل کیا کہ پختون الگ قوم ہیں ، ہماری ثقافت الگ ہے ، ہماری تہذیب و تمدن ، زبان ، ادب ، فنون لطیفہ طرزِ تعمیر ، رسوم و رواج ، طبائع و خواہش کچھ بھی پنجاب سے نہیں ملتا۔
برعکس اس کے اعتزاز احسن نے سندھ اور ہندکو الگ کیا جبکہ عائشہ جلال کا کوئی واضع نقطہ نظر ہی نہیں اور نہ ہی انکا تنقیدی جائیزہ درست ہے۔ اللہ نواز خان اور باچا خان کا نظریہ 1947ء میں ہی بے وقعت اور بے بنیاد ثابت ہوا جب ریفرنڈم کی صورت میں پختونوں نے دو قومی نظریے کے حق میں ووٹ ڈال کر قائداعظم ؒ کی قیادت پر مکمل اعتماد کیا۔
پنجاب میں یونینسٹ پارٹی نے خود ہی ہتھیار ڈال دیے اور سبھی پیر، جاگیر دار اور نواب مجبوراً مسلم لیگ میں شامل ہو گئے ۔ سندھی پیروں اور جاگیرداروں نے بھی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی چونکہ بلوچستان میں جرگے کا فیصلہ سندھ پر بھی اثر انداز ہوتا ۔ شاہ عنائت کی تحریک ان ہی جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف تھی جو 1947ء میں جاگیرداروں کے خلاف خونی انقلاب کی صورت اختیار کر سکتی تھی ۔
آئن ٹالبوٹ ، سلیگ ھیری سن اور دیگر مغربی تاریخ دانوں کی نسبت اعتزاز احسن کا سندھ ساگر بیانیہ کسی حد تک درست ہے۔ آئن ٹالبوٹ ہو یا دیگر مغربی محققین ، اسلام اور پاکستان سے نفرت اُن کی روح میں سما چکی ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے دانشور بھی اُن ہی کے مقلد ہیں اور سیاستدانوں کی مغرب نواز پالیسیاں اُن کی ذاتی ، مفاداتی اور اقتدار کی مجبوریاں ہیں ۔ عائشہ جلال لکھتی ہیں کہ ہمارا تاریک ماضی ہمارے حال پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ لگتا ہے کہ جسطرح باچا خان اور اللہ نواز خان نے قرارداد پاکستان کے الفاظ اُلٹ کر دو قومی نظریے کی جگہ پختون اور پنجابی نظریے کی دلیل پیش کی ویسے ہی عائشہ جلال نے بغیر کسی مطالعہ کے آئن ٹالبوٹ سے یہ فرسودہ دلیل مستعار لی کہ شیخ احمد سرہندیؒ ، حضرت شاہ ولی اللہ کی اصلاحی تحریکیں ہندوستان میں سنی ریاست کے قیام کی کاوشیں تھیں ۔
حیرت کی بات ہے کہ کسی پاکستانی تاریخ دان نے اسپر نظر نہیں ڈالی بلکہ آئن ٹالبوٹ کی کتاب ایک عرصہ تک تاریخ دانوں کے مطالعہ میں رہی۔ وثوق سے نہیں کہہ سکتا مگر ہو سکتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائی بھی گئی ہو ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ترکوں اور مغلوں کا دور شیعہ یا وہابی دور تھا کہ شیخ احمد سرہندیؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ نے اُن کے خلاف سنی تحریک کا آغاز کیا ۔ عائشہ جلال نے بھی جن دلائل کا سہارا لیا ہے وہ مغربیت کی ہی ترجمانی ہے ۔ ان ہی دلائل کی بنا پر اسلامو فوبیا ں اور دھشت گردی کی اصطلاحات گڑھی گئی ہیں جو ہر لحاظ سے بے بنیاد اور بغض پر استوار ہیں ۔
مغربی مفکرین ہوں یا مغرب زدہ پاکستانی ، بھارتی یا پھر پاکستانی مدرسی دانشور اِن کے ذہنی خلیوں اور شعوری پٹی پر کبھی کشمیر کا ذکر نہیں آتا ۔ اعتزاز احسن کی تحقیق بھی اُن کے ذاتی سندھو تک محدود ہے جنکا بھگت سنگھ لائلپور کا نہیں بلکہ سندھ کا ھیرو تھا ۔ وہ دُلا بھٹی کے منشور کی بات تو کرتے ہیں مگر رائے احمدخان کھرل ، سردار کالا خان کھٹڑ ، عاشق رسولؐ مرید احمد اور نظام لوہار جیسے ھیرو بھی اُن کی یاداشت سے محو ہیں ۔
وہ بھول گئے کہ 2000ق۔م میں کشمیر ایک عظیم سلطنت تھی جسکا پہلا حکمران راجہ گوند تھا۔
سکندر اعظم کی آمد سے پہلے ہند یا سندھ نام کی کوئی ریاست نہ تھی ۔ سپت سندھو دیش 9ریاستوں پر مشتمل تھا جن کے راجگان ہر لحاظ سے آزاد اور خود مختار تھے۔ مشہور کشمیری مفکر اور تاریخ دان جی ایم میر کے مطابق 500ق۔م میں ایران کے بادشاہ داریوش نے سپت سندھو کی بیشتر ریاستوں پر قبضہ کیا اور اُنھیں بیس صوبوں میں تقسیم کر دیا جن میں تین صوبے وادی سندھ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں شمالی گندھارا ، مغربی گدروشیا اور جنوبی گندھارا یعنی موجودہ پنجاب اور سندھ شامل تھے۔ کسی بھی تاریخ دان نے کبھی عظیم کشمیری حکمرانوں للتہ دت اور اونتی ورمن کا ذکر ہی نہیں کیا جن کی حکمرانی تبت سے لیکر بحیر ہ عرب تک تھی۔ مسلم دور کے حکمران سلطان شہاب اُلدین کی سلطنت میں سندھ اور پنجاب کے بیشتر علاقے شامل تھے ۔ جی ایم میر صوفی کی تصنیف ‘‘کثیر’’ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اُن دِنوں ہندوستان پر فیروز شاہ تغلق کی حکومت تھی۔ شہاب الدین دلی پر قبضہ کرنا چاہتا تھا مگر فیروز شاہ نے اپنی عسکری کمزوری کو بھانپتے ہوئے شہاب اُلدین سے صلح کر لی۔ کشمیر سے سر ہند تک کے علاقہ پر شہاب اُلدین کی حکومت تسلیم کر لی گئی اور سرہند سے مشرق کا علاقہ تغلق کی حکومت میں شامل رہا۔
علامہ اقبال نے جاوید نامہ میں اِس عظیم حکمران کو اِن الفاظ میں یاد کیا ہے۔
عمر ہا گل رخت بربست و کشاد
خاک ما دیگر شہاب اُلدین نزاد
سلطان شہاب اُلدین کا انتقال 1373ء میں ہوا۔ ‘‘مائی فروزن ٹربولنس اِن کشمیر’’ کا مصنف جگ موہن اس عظیم شخص کو خراج عقیدت بیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ کشمیر کی مسلم تاریخ حکمرانی میں شہاب اُلدین کا دور سیاسی، فلاحی ، اصلاحی ، اخلاقی اور عسکری نقطہ نظر سے ایک شاندار دور ہے۔
ٓآج پاک چین تعلقات کی بنیاد بھی کشمیر اور چین کے علمی ، تاریخی، ثقافتی ، سیاسی ، سیاحتی اور سفارتی تعلقات پر ہی استوار ہے۔ قدیم تاریخ میں جب ہند یا سندھ نام کی کوئی ریاست ہی نہ تھی۔ تب بھی اِس خطہ زمین پر کشمیر ،کثیر ، کاشمیر یا کاشی نام کی ایک مضبوط حکومت موجود تھی۔
جی ایم۔میر ‘‘کشور کشمیر’’ میں قدیم چینی تاریخ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بدھ مت کی آمد نے کشمیری معاشرت اور سیاست میں انقلاب برپا کر دیا ۔ ذات پات اور معاشرتی انسانی درجات کا خاتمہ ہوا تو انسانیت کا مرتبہ بلند ہوا۔ کشمیری عالم اور مفکر ناگ ارجن نے بدھ کی تعلیمات کا مقامی زبانوں میں ترجمہ کیا جسکا ذکر نیل مت پران میں موجود ہے۔
ناگ ارجن نے بدھ مت کے علاوہ انسانی اقدار اور اعلیٰ روایات پر بھی لکھا تاکہ معاشرہ اور ریاست اعلیٰ اخلاقی اور سیاسی بنیادوں پر استوار ہو سکے۔ ارجن ذات پات ، معاشرتی اونچ نیچ ، فرسودہ خیالات اور روایات کا دُشمن تھا۔ وہ اخلاقیات اور اعلیٰ انسانی اقدار و روایات پر مبنی قوانین کا علمبردار اور عظیم مصلح اور مبلغ تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ تاریخ دان کا کام ان عظیم روایات کو آگے بڑھانا اور فرسودہ خیالی سے اجتناب کرنا ہے۔معاشرہ تب ہی بھگاڑ کا شکار اور ریاستی نظام زوال پذیر ہوتا ہے جب علماٗ و دانشور ہوس پرست اور حکمرانوں کے تنخواہ دار بن جائیں ۔
جی ۔ ایم میر لکھتے ہیں کہ چین اور کشمیر کے عالموں اور سیاحوں نے مختلف ادوار میں دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کی کوششیں جاری رکھیں ۔ سیاحوں نے سفر نامے لکھے اور ایک دوسرے کی تاریخ کے تراجم کیے تاکہ عوام کی دلچسپی فروغ پاسکے۔ اِن سیاحوں اور تاریخ دانوں نے ہی نہیں بلکہ تاجروں اور طالب علموں نے چین اور کشمیر کو مشرق و مغرب میں متعارف کروانے کا عظیم فریضہ سر انجام دیا۔ چینی مفکر، تاریخ دان اور سفر نامہ نگار فائین ، چی مانگ، مایونگ، ھیوسانگ اور اوکانگ کشمیر آئے اور شاہی مہمان ٹھہرے ۔ ان تاریخ دانوں نے کشمیر میں قیام کیا، سنسکرت زبان سیکھی اور کشمیر کی تاریخ ، ثقافت ، سیاحت، تمدن اور طرز حکومت پر کتابیں لکھیں ۔
کشمیری تاریخ دان، مفکر ، دانشور اور مبلغ کماراجیوا، سنگھابوٹی ، گوتم سنگھ ، پونیا ترت ، دھرم یاس اور وما لکشمن نے چین میں طویل عرصہ تک تعلیمی خدمات سر انجام دیں ۔ کشمیر کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والا شہزادہ گونا ورمن اعلیٰ پائے کا مبلغ اور عالم تھا۔ اس کی کوششوں سے جاوا میں بدھ کی تعلیمات عام ہوئیں تو چینی شہنشاہ نے اسے اپنے ملک آنے کی دعوت دی۔ وہ چین پہنچا تو شہنشاہ خود اُس کے استقبال کیلئے آیا۔ کشمیری علماٗ بدھ ورمن ، رتن چنت، تن سی سائی اور سولوچی بھی چین گئے اور وہاں کے تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے۔
مغربی تاریخ دان جان موک اور پنڈت کلہن نے دردستان اور دردوں کی تاریخ کے حوالے یونانی تاریخ دان ھیرو ڈوٹس، کلاڈیس ٹالمس، سٹاربو اور پالینی کے تاریخی سفرناموں سے دیے ہیں ۔ ٹالمس نے دریائے نیلم کا نام بھی سندھو لکھا ہے جسے قدیم ہندو تاریخ دان کشن گنگا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ انیسویں صدی میں سٹائن شاردہ مندر کی تلاش میں کشمیر آیا تو اُس نے بھی اسے سندھو دریا ہی لکھا ۔ سٹائن نے راج ترنگنی پر جو حاشیہ لکھا اُسپر بھی سندھو کا ہی ذکر ہے۔ وادی نیلم سے تعلق رکھنے والے تاریخ دان سمع اللہ عزیز منہاس نے اپنی تصنیف ‘‘ناگ سے نیلم تک’’ میں قدیم کشمیر اور چین کے درمیان تاریخی تعلقات کا مفصل ذکر کیا ہے۔ کشمیر اور چین کے تعلقات کا اس تاریخی امر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر کا پہلا بادشاہ راجہ گوندتبتی شہزادہ تھا جسکا دور حکمرانی 1883ء ق۔م سے 1843ء ق۔م ہے۔ یہ وہ ہی دور ہے جب آ ریا وسطحی ایشیا سے ہند اور یورپ کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ کشمیر کا آخری حکمران خاندان بھی جنوبی چین کے صوبے سنکیانگ سے تعلق رکھتا تھا۔ 1586ء میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے کشمیر پر فوج کشی کی تو آخری چک حکمران یعقوب شاہ چک ایک مضبوط فوج ہونے کے باوجود عوامی حمائت سے محروم ہو کر مغل جرنیل مرزا قاسم میر بحر سے شکست کھا گیا۔
دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ مشرق و مغرب سے نہیں بلکہ شمال سے جنوب کی طرح سفر کرتى ہے۔ کشمیری حکمرانوں ، جرنیلوں، عالموں، دانشوروں،ہنر مندوں ، مبلغوں اور سیاحوں کے قدموں کے نشانات ہمالیہ سے سندھ تک پھیلے ہوئے ہیں مگر تاریخ دان اعتزاز احسن ، عائشہ جلال اور دیگر اُنھیں دیکھنے کی علمی اور نظری سکت نہیں رکھتے۔ ہند اور سندھ کے قدیم مذاھب ہندو مت اور بدھ مت کا آغاز تبت اور کشمیر سے ہُوا جسکا ذکر نیل مت پران اور ہندووٗں کی دیگر مذہبی کتابوں میں موجود ہے۔
جناب جی۔ایم میر (مرحوم) نے‘‘ کوہستان قراقرم سے بحیرہ قزوین تک اور کشمیر اور چین کے قدیم تاریخی رشتے’’ جیسی تحریریں تو لکھی ہیں مگر پاکستان کے ادبی مافیا نے کبھی انھیں مقبول عام ہی نہیں ہُونے دیا۔ (جاری ہے)
وتُعزُِ من تشاء و تُزِلُ من تشاء-3
