قرآنی آیات کا تشہیر کیلئے استعمال کوئی نئی بات نہیں اور ہو سکتا ہے کہ ہماری تذلیل کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو۔ ہمارے قائدین جو بھی دعویٰ کریں مگر یہ سچ ہے کہ قوموں کی فہرست میں ہمارا مقام کسی بھی صورت میں بلند نہیں ۔ ستائیس کروڑ کی آبادی میں اسی فیصد سے زیادہ غریب اور انتہائی سفید پوش ہے۔ ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں جہاں معیاری علاج نہیں ہوتا ۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں جانا عام آدمی کے بس میں نہیں ۔ یہی حال سکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کا ہے۔ کہنے کو تو ملک میں جمہوری نظام ہے مگر عام آدمی الیکشن لڑنا تو کُجٰا مرضی سے ووٹ ڈالنے کا حق بھی نہیں رکھتا ۔ البتہ اجتماعی احتجاج میں شامل ہو کر مار کھانے کا حق رکھتا ہے۔ ایک مذھبی سیاسی جماعت نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو بلوچستان اور وزیرستان کے مدارس سے ہزاروں طلباٗ نے پہلی بار اپنا خوبصورت دارالخلافہ دیکھا۔ تیز دوڑتی شاندار گاڑیاں ، بڑی بڑی مارکیٹوں اورآسمان کو چھوتی عمارتوں اور شاپنگ مالز کے نظارے کیے ۔ جدید مغربی لباس میں ملبوس خواتین دیکھیں تو دیکھتے ہی رہ گئے۔ وہ بھول گئے کہ اساتذہ نے اُنھیں پڑھایا تھا کہ عورت پر پہلی نظر پڑے تو نظر نیچے کر لو۔ انوار ایوب راجہ نے اپنی تصنیف ‘‘کہانی کی پہلی کتاب’’ میں ‘‘نظر کا پردہ’’ کے عنوان سے ایک مختصر کہانی لکھی ہے۔ یہ ایک پیر صاحب کی کہانی ہے جو نظر کے پردے پر لیکچر دینے پیرس تشریف لے گئے۔ مریدوں نے انگلینڈ کی سیاحت کی دعوت دی اور ہزاروں مرید ہیتھرو ائیر پورٹ پر دیدار کیلئے آئے۔ خلیفہ مجاز نے مریدین کو یہ کہہ کر رخصت کر دیا کہ پیر صاحب تھکے ہوئے ہیں اسلیے وہ اُنھیں آرام کیلئے اپنے فارم ہاوس پر لیجانا چاہتا ہے۔ راستے میں ایک سکول تھا۔ چھٹی ہوئی تو درجنوں گوری لڑکیاں سکرٹ پہنے باہر نکل آئیں ۔ خلیفہ نے گاڑی روک دی تو پیر صاحب دیر تک یہ نظارہ دیکھتے رہے۔ گاڑی چلی تو فرمایا غلام حسین کبھی کبھی نظر کا پردہ انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی حال بلوچستان اور وزیرستان سے آئے طلباٗ کا تھا۔ اخباروں میں ان کی تصویریں شائع ہوئیں کہ وہ پارکوں میں پڑے بچوں کے جھولوں پر جھول رہے تھے۔ وہ پرُ امن تھے۔ خوش تھے اور اسلام آباد اُن کیلئے پیرس سے کم نہ تھا مگر بقول ابنِ انشا ٗ کہ "جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکے” ۔ حال ہی میں اُن کے قائد محترم کا ایک انٹرویو یوٹیوب چینل پر دیکھا۔ دائمی مسکراہٹ ، کِھلا ہوا چہرہ ، موتیوں جیسے چمکتے دانت سامنے بیٹھی خاتون کو دیکھ کر وہ ہاتھوں کی انگلیاں نچا رہے تھے۔ خاتون سنجیدہ تھی اور حضرت صاحب کے خاندانی پس منظر سے بھی واقف تھی۔ واقف تو ساری دُنیا ہے مگر سوال نہیں کر سکتی۔ حضرت صاحب کا فرمان ہے کہ اقتدار کی کنجی اُن کی جیب میں ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اداروں پر تنقید کیوں ؟ دھرنے کے بعد وہ متحرک ہوئے اور ایوان اقتدار میں جا بیٹھے اور اب تک بیٹھے ہیں ۔ اگر سیاسی موسم بدستور ایسا ہی رہاتو آپ کا اقتدار بھی قائم رہے گا۔
صحافی اور خود ساختہ دانشور خاتون نے پوچھا کہ آپ کے والد جب اسمبلی کے اجلاس میں تشریف لاتے تو وہ راولپنڈی میں قائم ایک مدرسے میں ٹھہرتے تھے۔ آپ کی اسلام آباد میں عالیشان رہائش اور مبینہ پانچ ارب کے اثاثے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ وقت کی بات ہے ۔ وقت بدلتا رہتا ہے۔
آپ نے صحیح فرمایا ۔ ہر پچھلا دور اگلے دور سے بہتر تھا۔ زمانہ تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے کہ سب سے بہتر دور میرا اور پھر میرے اصحاب کا ، پھر تابعین کا اور پھر تبع تابعین کا۔ اسطرح زمانہ بتدریج تنزلی کا شکار ہو گا اور آخری دور کفروجہالت کا ہو گا۔
محترمہ کلثوم سیف اللہ ہماری دوست تھیں۔ وہ سیاست اور تاریخ پر گہری نظررکھتی تھیں ۔ عرصہ تک ہم دو گھنٹے اکھٹے واک کرتے تو وہ اپنے سیاسی تجربات بیان کرتیں ۔ میں نے کہا کہ آپ اپنی سوانح حیات لکھ دیں آپ کی باتیں تاریخ کا حصہ بن جائیگی ۔ کہنے لگی میرا دل تو بہت چاہتا ہے مگر میری نظر کمزور ہو رہی ہے۔ ڈاکٹروں نے مطالع سے بھی منع کر رکھا ہے۔
عرصہ بعد اُن کی طرف سے ایک کتاب ملی ۔ یہ اُن کی بائیو گرافی تھی جو اُنھہوں نے سحر صدیقی کی معاونت سے لکھی ۔ کتاب کا نام ہے ‘‘میری تنہا پرواز’’ My Solo Flight ۔ کتاب کے صفحہ 163پر حضرت مولانا صاحب سے ٹاکرا کے عنوان سے لکھتی ہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان تھیں ۔ میں اُنھیں ملنے اُن کے دفتر گئی تو حضرت مولانا پہلے سے وہاں موجود تھے۔ میں اِس ملاقات میں مخل نہیں ہونا چاہتی تھی لہذا میں نے کہا پھر آجاونگی۔ بینظیر نے کہا آنٹی آپ تشریف لائیں مولانا آپ کے علاقہ سے ہیں اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں ۔ میں بیٹھ تو گئی مگر مولانا کے رویے سے متاثر نہ ہو سکی۔
لکھتی ہیں کہ دولت، شہرت اور اقتدار کے نشے میں انسان اکثر بے حِس ہو جاتا ہے۔
‘‘ خطبات’’ حضرت مولانا مودودیؒ کی شہرہ آفاق تصنیف ہے۔ یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے جن میں ایمان، اسلام، نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج اور جہاد کے متعلق لکھا گیا ہے۔ ساتویں باب کے صفحہ 308پر ‘‘خرابیوں کی اصل جڑ حکومت کی خرابی’’ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ دُنیا میں آپ جتنی خرابیاں دیکھتے ہیں اُن سب کی جڑ دراصل حکومت کی خرابی ہی ہوتی ہے۔ طاقت اور دولت حکومت کے ہاتھ ہوتی ہے۔ قوانین حکومت بناتی ہے اور ملکی نظام چلاتی ہے۔ طاقتور ادارے مثلاً فوج اور پولیس حکومت کے حکم پر حرکت کرتے ہیں ۔ لہذا جو بھی خرابی لوگوں کی زندگی میں پھیلتی ہے وہ یا تو حکومت خود پھیلاتی ہے یا پھر اُس کی مدد اور مرضی سے پھیلتی ہے۔
مولانا مودودیؒ کے خطبات کا زمانہ 1938ء کا ہے جب برصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ 1938ء تک آپ قائداعظم ؒ اور مسلم لیگ کے حامیوں میں شمار کیے جاتے تھے اور دو قومی نظریے کے بھی حامی تھے مگر تحریک آزادی سے پہلے اسلامی اصلاحی تحریک کے نظریے کو اہمیت دیتے ہوئے تحریک آزادی پاکستان سے الگ ہو گئے۔ "تاریخ اسلام اور پاکستان” کے مطابق قمر الدین خان صاحب ریڈر سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ نے ایک مضمون میں لکھا کہ مولانا مودودی کی ایماٗ پر 1941ء میں راجہ صاحب آف محمود آباد کی وساطت سے (گلِ رعنا) دلی میں قائد اعظم ؒ سے پینتالیس منٹ کی ملاقات ہوئی ۔ قائد اعظم ؒ نے مولانا مودودی ؒ کا پیغام غور سے سنا اور اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ۔ آپ نے فرمایا کہ برصغیر میں مسلمانوں کے الگ وطن کا حصول فوری اہمیت کا حامل ہے۔ مولانا کی جماعت پاکستان بننے کے بعد رشد و ھدایت کا سلسلہ جاری رکھ سکتی ہے اور مسلمانان پاکستان کی شریعیت کی روح کے مطابق تربیت بھی کر سکتی ہے۔ جیسا کہ مولانا کا بیان ہے کہ علم و عمل ہی مسلمان اور کافر کے درمیان فرق واضع کرتا ہے ۔ آئن ٹالبوٹ نے تاریخ پاکستان 1947 تا 1997ء میں لکھا ہے کہ سید مودودی ؒ نے اگست 1941میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔
آن کا تعلق ایک صوفی خاندان سے تھا۔ آپ کا تصور پاکستان قائداعظمؒ سے مختلف تھا۔ آپ پہلے تربیت اور پھر تقسیم کے حق میں تھے مگر قائداعظمؒ فوری تقسیم اور تخلیق پاکستان کیلئے پر عزم تھے۔ قائداعظمؒ مستقبل بین تھے اور جانتے تھے کہ تاخیر کی صورت میں کانگرس ، برطانوی حکومت اور کانگرس کے ہمنوا مسلمان قیام پاکستان کی کوششوں کو ناکام بنادینگے۔
آئن ٹالبوٹ لکھتا ہے کہ مولانا مودودی ؒ نے جماعت اسلامی قائم کی تا کہ مستقبل کی اسلامی ریاست کیلئے کام کرنیوالا ایک مثالی گروہ پیدا کیا جا سکے۔ مگر قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی کے بنیادی کردار میں بہت سی تبدیلیاں آئیں اور مولانا مودودیؒ کا مثالی گروہ قائم نہ ہو سکا ۔ جماعت اسلامی نے اقتدار کے حصول کیلئے پیپلز پارٹی ، مسلم لیگی دھڑوں ، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر جماعتوں سے اتحاد کئیے مگر ملک کے اندر مثبت تبدیلی لانے کی کوئی واضع کوشش نہ کی۔
جماعت اسلامی کے مدارس اور تربیتی مراکز الگ الگ دھاروں پر چلتے ہیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے مدارس ہی اُن کی تربیت کا کام کرتے ہیں ۔ مدارس میں مسالک کی تعلیم دی جاتی ہے اور طلباٗ کی تربیت بھی اِن ہی خطوط پر ہوتی ہے۔ جمعیت کی سیاسی قوت بھی مدارس ہی ہیں عوام نہیں اور یہ ایک خطرناک سیاسی رجحان ہے۔
‘‘تاریخ اسلام آغاز تا حال”کے مصنفین بشیر احمد تمنا اور محمد عبداللہ صدیقی لکھتے ہیں کہ جمعیت علمائے ہند کا قیام انیسویں صدی میں عمل میں آیا تا کہ مسلمانان ہند کی تعلیم و تربیت خالصتاً قرآن و سنت کے مطابق کی جائے۔ شیعہ اور سنی مسالک کیخلاف آواز اٹھانے اور اُنھیں تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ہی اِس جماعت نے سرسید کی علمی تحریک کی مخالفت بھی شروع کر دی ۔ جمعیت تصوف اور روحانیت کے خلاف نبرد آزما ہوئی اور ساتھ ہی سیاسی میدان میں دیو بندی نظریہ سیاست بھی متعارف ہونے لگا۔ جماعت اسلامی اگرچہ بعد میں سیاسی میدان میں اُتری مگر علم و عمل اور دینی تربیت دونوں جماعتوں کا بنیادی نقطہ تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر مسلک کی ترویج آڑے نہ آتی تو جمعیت علمائے ہند ہی برصغیر کے مسلمانوں کی موثر آواز اور جماعت ہوتی مگر بد قسمتی سے آج تک ایسا نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی ادارے مضبوط نہ ہو سکے۔ قیامِ پاکستان کے بعد مسلکیت کے علاوہ لسانیت ، علاقائیت ، ہوس و ہرص اور انانیت نے سیاست پر غلبہ حاصل کیا تو مفاد پرست سیاستدانوں نے ملک میں ابتری کا ماحول پیدا کردیا۔
وہ دانشور اور مفکر جو اداروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں وہ کبھی بھی مفاداتی اور مسلکی سیاست پر توجہ نہیں دیتے جو انتشار کی بنیاد ہے۔
1935ء میں قائداعظمؒ انگلینڈ سے مستقل طور پر واپس آگئے اور مسلم لیگ کی تنظیم نو پر متوجہ ہو گئے ۔ آپ کی سیاسی بصیرت کا کرشمہ تھا کہ نہ صرف مسلم لیگ کے دھڑے ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے بلکہ جمعیت علمائے ہند بھی مسلم لیگ کے قریب ہوگئی۔ 12اپریل 1936ء کے بمبئی اجلاس کی صدارت سرسید وزیر حسین نے کی۔ اس اجلاس میں جمعیت ہند کے ناظم مولانا سید احمد سعید نے شرکت کی اور قائداعظمؒ کو مرکزی پارلیمانی بورڈ تشکیل دینے کی دعوت دی جو آئیندہ الیکشن میں صوبائی انتخابات کیلئے تجاویز مرتب کرے۔ تاریخ کے مطابق مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے ممبران کی کل تعداد 54تھی جس میں یو۔پی سے مولانا سید حسین احمد مدنی کے علاوہ سارے ہندوستان سے 14علمائے کرام بھی شامل ہوئے۔ مسلم لیگ نے جمعیت علماٗ ہند کو مسلمانان ہند کے مذہبی اور شرعی امور کا نگران اور محافظ تسلیم کیا ۔ اس تاریخی اجلاس میں مجلس احرار اور دیگر جماعتوں کے نمائیندے بھی شریک ہوئے۔ پارلیمانی بورڈ نے آٹھ نکاتی منشور شائع کیا ۔ دوسرا اجلاس 11جون 1936ء کو لاہور میں منعقد ہوا جس میں قائد اعظم ؒ ، علامہ اقبال اور جمعیت کے مرکزی رہنما بھی شریک ہوئے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا حسین احمد مدنی نے فرمایا کہ جو مسلمان مسلم لیگ کے خلاف کام کرے اور اُس کے نمائیندے کو ووٹ نہ دے وہ جہنمی ہے۔
اجلاس کے بعد مفتی کفایت اللہ اور مولانا حسین احمد مدنی نے قائداعظمؒ سے ملاقات کے دوران بتایا کہ دیو بند کی خدمات حاضر ہیں بشرطیکہ مسلم لیگ اُن کے اخراجات برداشت کرے اور بطور قسط اول اُنھیں پچاس ہزار روپے ادا کرے۔ قائداعظمؒ نے جواب دیا کہ اُن کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ اِن کا مطالبہ پورا کرسکیں ۔ مولانا صاحبان بہت مایوس ہوئے اور کانگرس کی طرف لڑھک گئے جو اُن کا مالی مطالبہ پورا کرسکتی تھی۔
مصنفین لکھتے ہیں کہ تحریک دیو بند روحانیت اور ظاہری شریعیت کا حسین امتزاج تھی مگر مالی مطالبات نے اُن کا رُخ کانگرس کی طرف کر دیا جس کی وجہ سے ہندوستان میں مسلم یکجہتی کو شدید نقصان ہوا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اپنے چند رفقا کے ہمراہ قائداعظمؒ کے قریب رہے اور مسلم لیگ کے ساتھ ملکر تحریک پاکستان کی کھل کر حمائت کرتے رہے۔ تحریک دیو بند میں علماٗ کا یہ چھوٹا مگر انتہائی موثر گروپ قائداعظمؒ کے رفقاٗ میں انتہائی عزت کا مقام رکھتا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پچاس ہزار کے مطالبے پر جمعیت نے مسلم لیگ سے نہ صرف راہیں جُدا کیں بلکہ کانگرس سے ملکر دو قومی نظریے کی بھی دشمن بن گئی ۔
قدرت کی کرشمہ سازی دیکھیں کہ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے "ادھورے خوابوں کا مقروض پاکستان” جمعیت کیلئے جنت ثابت ہوا ہے۔ کہاں پچاس ہزار اور کہاں پانچ ارب کے اثاثے اور شاہانہ زندگی کے مزے۔ بقول حضرت صاحب کے اقتدار کی کنجی بھی اُن ہی کی جیب میں ہے۔
جو لوگ اداروں پر تنقید کرتے ہیں وہ لیڈروں اور اُن صحافیوں کی طرف کیوں نہیں دیکھتے جن کے دعوے درست اور پیشن گوئیاں سچ ثابت ہوتی ہیں ۔
نامور صحافی اور دانشور سلمان غنی نے ایک ٹیلیویژن شو میں فرمایا تھا کہ یہ ملک بھی میرے قائد کا ہے اور مستقبل بھی اُن ہی کا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے اور اُن کا دعویٰ بھی درست ہے۔ مولانا صاحب ٹھیک فرماتے ہیں کہ وقت تیزی سے بدل رہا ہے ۔ ہر سال نہیں بلکہ ہر ماہ لاکھوں لوگ خط غربت سے نیچے جا رہے ہیں ۔ آمدنی کم اور مہنگائی بڑھ رہی ہے مگر حکومتی اعداد و شمار اِس کے برعکس ہیں ۔ 1936ء میں مسلم لیگ کے پاس جمعیت کی حمائت حاصل کرنے کیلئے پچاس ہزار نہ تھے مگر اب ہر مسلم لیگی لیڈر، وزیر ، مشیر اور عہدیدار پانچ پانچ سو ارب کا مالک ہے۔ پیپلز پارٹی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لے کر آئی تو غریبوں اور متوسط طبقے کی جماعت کہلائی۔ معراج محمد خان ، جے اے رحیم اور بختیار رانا کو اعتراض تھا کہ غریبوں کی جگہ جاگیر داروں ، وڈیروں اور اُمرا نے پارٹی قبضہ کر لیا ہے۔ جلد ہی اُن کے اعتراضات دور ہو گئے تو پھر کبھی کسی پارٹی رہنما کو معترض ہونے کی ہمت نہ ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے رہنماوٗں کے اثاثے لیگیوں سے بڑھ کر ہیں ۔ اثاثوں کا تقابل کیا جائے تو مولانا کے مبینہ اثاثے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔ میکاولین سیاست میں زندہ رہنے کیلئے اتنی اوکسیجن تو ضروری ہے۔
سال دو سال پرانی بات ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک سروے جاری ہُوا اور مہینوں تک چلتا رہا۔ اگرچہ میرا سوشل میڈیا پر نہ تو اعتبار ہے اور نہ ہی میرے استعمال میں ہے۔ کمپیوٹر صرف دیکھا ہُوا اسکا علم ہرگز نہیں ۔ ٹیلیفون سادہ اور پرانا ہے۔ کئی بار مسجد یا سڑک کنارے واقع ہوٹل پر بھول آیا تو کسی نمازی یا ہوٹل کے انتہائی ایماندار عملے نے واپس بھجوادیا ۔ پس ثابت ہُوا کہ کم اثاثوں والے امام اور عام مسجدوں میں بے اثاثہ نمازی بلکہ ڈرائیور ہوٹلوں کا عملہ امانت دار اور سچا مسلمان ہے۔ آئین میں درج آرٹیکل 62 اور 63رہے یا نہ رہے ایسے کروڑوں لوگ اس ملک کا اصل اور حقیقی اثاثہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
گاوٗں کی مسجد میں دیہاتی بیٹھے تھے اور مبینہ سوشل میڈیا پر جاری سروے پر بات ہو رہی تھی ۔ چھ یا سات نمازی مقامی تھے اور میں غیر مقامی اور مسافر تھا۔ کسی نے کہا کہ آجکل چرچا ہے کہ سلطان باھوؒ ٹرسٹ بیرون ملک جمع شدہ دولت میں سر فہرست ہے۔ دوسرے نمبر پیر صاحب گمگول شریف، تیسرے پر نیریاں شریف والے اور پھر آخیر میں گولڑہ شریف اور موہڑہ شریف کے علاوہ دیگر آستانے ہیں۔
کسی نے کہا کہ گولڑہ شریف اور موہڑہ شریف کا نام کبھی لکھتے ہیں اور کبھی نہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سب سچ نہیں ۔
مولوی صاحب کی رائے لی گئی تو فرمانے لگے میں دین کا زیادہ علم نہیں رکھتا اور نہ ہی کسی مکتب سے سند یافتہ ہوں ۔ حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ فتوے جاری کرتے ہیں وہ بھی قابلِ گرفت ہیں ۔ جن لوگوں نے عورت کی حکمرانی کیخلاف فتوے جاری کیے وہ ہی اُن کی حکومت کا حصہ بن کر مالی فوائد حاصل کرتے رہے۔
سورۃ الزخرف آیت 52سے آگے کئی آیات فرعون کے تکبر کے متعلق ہیں وہ کہتا تھا کہ حضرت موسی ؑ کے پاس دولت نہیں اور نہ ہی ظاہری قوت ہے۔ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اِن آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ مادی قوت اور دولت عزت و عظمت کا معیار نہیں بلکہ یہ سب ذلت کا سامان ہے ۔ دولت، قوت ، اور شہرت جسے لوگ عزت کا مقام سمجھتے ہیں وجہ تکبر بن کر انسان کو ذلت کی دلدل میں دھنسا دیتی ہے جہاں توبہ کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں ۔ قرآن کریم میں عاد اوّل ،ثمود، ایکہ، تبہ، رس ، قوم نوح اور لوط کا ذکر ہے۔ مادی دولت ، شیطانی قوت، شہرت اور شہوت ان کی ذلت کا باعث اور آئیندہ نسل انسانی کے لیے تاریخی مثال تو بن گئی مگر شیطان نے ہر دور میں انسانوں کو اپنے چنگل میں لیکر انھیں عزت کے مقام سے گرا کر سفل کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ علماٗ حق اولیائے کاملین کی اولادوں اور گدی نشینوں کو ٹرسٹ بنا کر بیرون ملک دولت کے انبار لگانے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ اللہ کا ولی تو موت کے بعد مکمل روحانی قوت کا حامل ہوتا ہے۔ ولی کامل و اکمل ‘‘فنا فی اللہ ’’ ہوتا ہے اور ناخلف و نافرمان اولاد سے اُنکا تعلق نہیں ہوتا۔ قرآنِ کریم میں حضرت نوح ؑ کی بیوی اور بیٹے اور حضرت ابراہیم ؑ کے باپ کا ذکر ہے ۔ اللہ نے جب اپنے نبیوں اور رسولوں کو ان سے لا تعلق ہونے کا حکم دیا تو ایک ولی کے نام پر کھربوں کے اثاثے بنانا کسی طرح بھی جائیز نہیں ۔ اگر یہ دولت صدقات ، خیرات یا نیاز کی صورت میں عام لوگوں نے دی ہے تو اسے عام لوگوں کو ہی لوٹا دینا چاہیے نہ کہ بیرون ملک بینکوں میں ڈال کر اسپر سود وصول کرنا۔ یہ اللہ کے حکم کیخلاف اور طریقت کی نفی ہے۔ کیا اِن علماٗ ، روساٗ، سیاستدانوں ، حکمرانوں اور گدی نشین پیروں نے قرآن نہیں پڑھا ؟ اللہ نے اپنے نبیؐ اور اُن کی ازواج مطہرات کو زکوٰۃ کی تلقین کی۔ قرآن میں جہاں نماز کا ذکر ہے وہاں زکوٰۃ کا بھی حکم ہے۔
سورۃ المائدۃ آیت 63میں فرمایا کہ بھلا اِن کے علماٗ و مشائخ اُنھیں گناہوں اور حرام کھانے سے کیوں نہیں روکتے۔ بلا شبہ وہ بھی بُرا کرتے ہیں۔ علماٗ کا کام لوگوں کو گناہوں اور حرام یعنی کرپشن، رشوت ، غبن، سود خوری ، اما نت میں خیانت ، یتیموں ، غریبوں اور مسکینوں کے مال و جائیداد پر قبضے اور بیت المال سے چوری سے روکنا ہے نہ کہ خود اِسکا حصہ بن کر اُن کے گناہوں میں شامل ہو جانا ہے۔ہمارے ملک میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے علاوہ ہر سیاسی جماعت میں علماٗ و مشائخ کے ونگ موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل اور کل پاکستان علماٗ و مشائخ کونسل بھی ہے۔ پچھلی حکومت نے رحمت العالمٰین اور امام شازلی ریسرچ سینٹر جیسے ادارے قائم کیے ۔ ریسرچ سینٹر کا تو پتہ نہیں مگر رحمت العالمٰین اتھارٹی اب بھی موجود ہے جسکے نئے سربراہ متبادل بیانیے کے مبلغ اور جناب غامدی کے مقلد ڈاکٹر خورشید ندیم ہیں مگر باوجود اِس کے ہم ملی یکجہتی ، د ین اسلامی ، مثالی قومی اور شخصی کردار و افعال سے کوسوں دور اہلِ مغرب کی ثقافتی یلغار کی زد میں ہیں ۔
آزاد کشمیر جسے آزادی کا بیس کیمپ کہا جاتا ہے در حقیقت برادری ازم ، کرپشن، اقرباٗ پروری ، بے انصافی ، بد عہدی ، بد اخلاقی اور بد کرداری کا مضبوط گڑھ ہے جسے پاکستان میں بر سر اقتدار جماعتوں کی مکمل حمائت حاصل ہوتی ہے۔ آزاد کشمیر کی مقامی سیاسی جماعتیں تو اب قصہ ماضی ہیں جن کی تباہی کا باعث ان ہی جماعتوں کے ہوس پرست قائدین اور پھر اُن کی اولادیں بنیں ۔
اب سیاست و حمیت کی جگہ آزاد کشمیر میں دولت، طاقت اور تعلق اقتدار کا ذریعہ ہے۔ آزاد کشمیر میں الیکشن کے ڈرامے کی ٹکٹیں نیلام ہونے سے پہلے اقتدار کے خواہاں ڈیلر اسلام آباد ، لاہور اور کراچی کی جانب دوڑ لگاتے ہیں اور برسر اقتدار جماعتوں میں شمولیت اختیار کرنے میں پہل کرتے ہیں ۔ جس خطہ زمین کے قائدین کا ایسا کردار ہو اُسے آزادی کی کیا ضرورت ہے۔ اُن کی ضرورت اقتدار ہے تا کہ وہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں ۔ اقتدار کا مرکز لاہور، کراچی ، اسلام آباد، لندن یا دلی میں ہو انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آزاد کشمیر اسمبلی میں علماء و مشائخ کی بھی ایک سیٹ ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس سیٹ کے حصول کیلئے علماٗ و مشائخ بھی اتنی ہی دوڑ لگاتے ہیں جتنی دیگر سیاسی ڈیلر ۔ آزاد کشمیر اسمبلی کی اِس سیٹ پر جو بھی عالم دین یا شیخ یعنی اللہ کا ولی اسمبلی ممبران کی حمائت سے جیت کر آتا ہے اِسے کوئی نہ کوئی وزارت بھی ملتی ہے ۔ مجاہدِ اوّل بھی اِن مشائخ میں شامل تھے جو سیٹ جیتنے کے بعد وزیر اعظم بنے ۔
حیران کن بات ہے کہ ایک طرف ہم آزادی ، حرمت ، حمیت اور سیاست کے دعویدار ہیں اور دوسری جانب دین کو دنیاوی خواہشات، ہوس اقتدار اور حرص و زر کے حصول کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ سب دھوکہ اور عذابِ الہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ سورۃ الاعراف میں فرمایا کہ کتاب کا علم تب ہی فائدہ مند ہے جب انسان اُس کی پیروی کرے ۔ فرمایا یہی فکر ہے۔
بے عمل عالم اور بے فکری قیادت کسی بھی صورت میں ملت کی رہنمائی نہیں کر سکتی ۔ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں یہ دھوکہ اور فریب ہے حقیقت نہیں۔ علماٗ و مشائخ کہلوانے والے جب چانکیائی اور میکاولین سیاست کے حصہ دار اور کاروباری سیاستدانوں کے دست راست بن جائیں اور قوم اُن پر بھروسہ کر لے تو تنزلی اُن کا مقدر بن جاتی ہے۔
سید مودودیؒ ‘‘خطبات’’ میں فرماتے ہیں کہ حکومت اور فرمانروائی یعنی حکمرانی ایک بُری بَلا ہے جسے ہر شخص جانتا ہے ۔ حکومت، طاقت، قیادت یا حکمرانی حاصل ہوتے ہی انسان کے اندر لالچ ، ہوس وحرص اور شہوت و شہرت کے طوفان اُٹھنے لگتے ہیں ۔ خواہشات نفسانی یہ چاہتی ہے کہ زمین کے خزانے اور خلق کی گردنیں اپنے ہاتھ آئیں تو دِل کھول کر خدائی کی جائے۔ حکومت کے اختیارات حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا اختیارات اور طاقت ہاتھ آ جانے کے بعد خدائی کا دعویدار بننا اور خدا بن کر مخلوق پر ظلم و جبر سے باز آنا ہے ۔ وہ لوگ جنکا مطمعہ نظر ہی دولت کا حصول اور اختیارات کے ذریعے مخلوق کو مطیع کرنا ہو اُن سے خیر کی توقع کرنا اور عدل و مساوات کی اُمید رکھنا دل بہلانے کے مترادف ہے۔ وہ شخص جو ایک فرعون کو ہٹا کر خود فرعون بن جائے وہ نجات دھندہ اور منصف کیسے ہو سکتا ہے ۔
خود غرض اور نفس پرست حاکم ہو یا عالم ۔ اُس کی حاکمیت اور علمیت سے مخلوق کبھی فیض یاب نہیں ہو سکتی۔ مولانا مودودیؒ کے یہ خطبات 1938ء کے ہیں جب وہ قائداعظم ؒ کی مسلم لیگ کے حامی اور دو قومی نظریے پر متفق تھے۔ آپ انگریز کی غلامی سے نجات اور خلافت اسلامی کی بحالی کیلئے قائداعظم ؒکے ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ 1936ء میں جمعیت علماٗ ہند کی بھی یہی سوچ تھی مگر پچاس ہزار روپوں نے نہ صرف سوچ بلکہ فکر ہی بدل ڈالی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہم لیڈروں کی قائدانہ صلاحیتوں اور اسلامی سوچ و فکر کے بجائے اُن کی لا محدود دولت، حکومتی اختیارات اور شاہانہ طرزِ زندگی کی بات کرتے ہیں ۔ بحثیت قوم ہم اُس شخص کو عزت کے اعلیٰ مقام پر فائیز تسلیم کرتے ہیں جو لا محدود اختیارات کا مالک اور دولت کے انبار پر بیٹھا ہو۔
قرآن کریم میں جہاں قارون کی دولت ، محلات اور باغات کا ذکر ہے وہی لکھا ہے کہ لوگ انھیں حسرت سے دیکھتے تھے کہ کاش ہمارا مقدر بھی ایسا ہی ہوتا۔ یہ بھی ہماری طرح ایک عام آدمی تھا۔ فرعون سے وابستہ ہُوا تو اتنے بلند مقام پر پہنچ گیا۔ آجکل ہمارے نوجوان بھی سیاستدانوں ، لیڈر، نامور صحافیوں ، دانشوروں اور حکومتی ایلکاروں کو حسرت سے دیکھتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح پلک جھپکتے اُن جیسا مقام حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ۔ اُنھیں پتہ ہے کہ یہ مقام کیسے حاصل ہوتا ہے ۔ اِس کیلئے علم ، عقل، میرٹ یا معیار ، محنت اور قابلیت کی نہیں بلکہ اُن خوبیوں کی ضرورت ہے جو قائدین ، علماٗ و مشائخ اور سیاستدانوں میں ہیں۔
سورۃ الھمزاۃ میں فرمایا ‘‘خرابی ہے ہر طعنہ دینے والے اور عیب چننے والے کیلئے اور جس نے مال سمیٹا اور چن چن کر رکھا۔
اللہ نے جن خرابیوں کا ذکر کیا وہ ہمارے قائدین کی خوبیاں ہیں ۔ ہمارے علماٗ و مشائخ ، دانشور، تاریخ دان، صحافی اور ارب پتی سیاستدان اور حکمران بھی ان میں شامل ہیں ۔ وہ نوجوان جن کیلئے اقبالؒ نے آہ و سحر کی دُعائیں مانگی تھیں سوشل میڈیا پر مال سمیٹنے اور چن چن کر رکھنے والوں کی معاونت میں مصروف ہیں ۔
(جاری ہے)
وتُعزُِ من تشاء و تُزِلُ من تشاء-4
پرانی پوسٹ