1973 ء اور 2025ء میں کئی قدریں مشترک ہیں 73میں ایک بڑا سیلاب آیا کئی روز تک طوفانی بارشیں ہوئیں اور لوگوں کے کچے مکانات گِر گئے ، فصلیں تباہ ہو گئیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ۔ بھارت سے جنگی قیدی واپس آئے جن کی وجہ سے معاشرتی مسائل بھی پیدا ہوئے۔ فوجی بھرتی کے علاقوں میں کئی گھریلو تبدیلیاں آچکی تھیں ۔ غیرت کے نام پر قتل بھی ہوئے مگر میڈیا کی عدم موجودگی کی وجہ سے معاملات ، حادثات اور واقعات ایک ساتھ دفن ہوتے گئے۔ اِن مسائل کا وجود پذیر ہونا ایک قدرتی امر ہے۔ بہت سے لوگوں کا پتہ ہی نہ تھا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں ۔ فوجیوں کے خاندانوں کو تو تنخواہ ملتی تھی مگر سویلین کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔
ہمارے علاقے کے بھی کئی لوگ جنگی قیدی تھے مگر کوئی ایسا واقع سامنے نہیں آیا جو کسی حادثے کا باعث بنتا۔ بیان کردہ معاشرتی مسائل کا پتہ مجھے فوج میں جا کر ہوا جہاں پاکستان کے ہر علاقے کے جوان بھرتی ہو کر آتے ہیں جن میں بیشتر نسل در نسل فوجی ہی ہوتے ہیں ۔ میرے آبائی علاقہ کا بھی ایسا ہی منظر تھا۔ درجنوں لوگوں نے پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے علاوہ افغان جنگوں اور کئی مقامی اور عالمی معرکوں میں مہاراجہ کشمیر کی طرف سے انگریز کی حمائت میں حصہ لیا۔
میرے گاوٗں کے دس سے زیادہ لوگ دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی اور جاپان میں قید ہوئے اور تقریباً اتنے ہی جان سے گئے ۔ اسی طرح بہت سے لوگ برما کے محاذ پر مارے گئے جن کی قبریں چٹا گانگ کے فوجی قبرستان میں موجود ہیں ۔ 2004ء میں مجھے بنگلہ دیش جانے کا موقع ملا جہاں میں نے ان قبروں پر فاتحہ خوانی کی ۔ اِس قبرستان میں سب کم عمر مسلمان فوجی کی قبر بھی ہے جسکی عمر سترہ سال لکھی ہوئی تھی ۔ اِس پٹھان فوجی کا تعلق ملٹری پولیس سے تھا جو چٹا گانگ میں آسودہ خاک ہے ۔
1973ء میں گورنمنٹ مڈل سکول دیوتا گولہ (ہری پور) کے ہیڈ ماسٹر چوھدری عزیز صاحب نے فیصلہ کیا کہ دسویں کلاس کے طلباٗ کو سکول سے فارغ کر دیا جائے تا کہ وہ کسی دوسری جگہ جا کر بورڈ کے امتحان کی تیاری کر سکیں ۔ پہلے بھی لکھا ہے کہ دیوتا گولہ (ہری پور) ایل۔او۔سی کے بہت قریب پنجن پہاڑ کی جنوب مشرقی ڈھلوان اور دو بڑی پہاڑی چوٹیوں کے درمیان جنگلات میں گھرا ہوا ایک چھوٹا سا میدان ہے جہاں یہ سکول واقع ہے ۔ قریب ترین آبادیاں بھی دو سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں ۔ تب راستے دشوار اور پُر خطر تھے۔ یہ راستے بھی فوج کے استعمال میں ہونے کی وجہ سے تازہ رہتے ورنہ بعض مقامات پر بارش کے بعد مال مویشی یا پیدل سفر کرنے والے نیا راستہ بناتے جنھیں فوج بحال رکھتی۔
نویں اور دسویں کلاس کیلئے دو استاد تھے جنھیں طلباٗ کی فیس سے تنخواہ ملتی تھی ۔ ماسٹر رمضان منہاس صاحب نے اسی پرائیویٹ سکول سے ایک سال پہلے میٹرک پاس کیا تھا جنھیں دسویں کلاس کا استاد رکھ لیا گیا۔اسی طرح گوئی ضلع کوٹلی کے رہنے والے چوھدری غلام شفیع صاحب تھے جو ایف۔اے پاس کرنے کے بعد دوبار آئی۔ایس۔ایس۔بی سے مسترد ہونے کے بعد یہاں پرائیویٹ اُستاد بھرتی ہوئے۔ اُنکا تعلق گجر برادری سے تھا اور شائد ہری پور کے گجر خاندانوں سے تعلق کی وجہ سے گھر سے دور اِس ویرانے میں عارضی ملازمت کیلئے آ گئے ۔ اُن کا گھرانہ بہت پڑھا لکھا تھا اور سارے پاکستان ، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر تک اُن کی تعلق داریاں تھیں ۔
اُن کے بڑے بھائی جنکا نام بھی شفیع ہی تھا تندڑ کے قریب کسی بریگیڈ کے بریگیڈ میجر تھے۔ فوج میں بریگیڈ میجر ہی مستقبل کے جرنیل ہوتے ہیں ۔ سٹاف کالج پہنچنے کیلئے مقابلے کے سخت امتحان کے بعد سٹاف کالج میں تربیت کا مرحلہ بھی سخت ہوتا ہے۔ یہاں تعلیم کے علاوہ تربیت پر بھی زور دیا جاتا ہے ۔ طالب علموں کی نفسیات ، قائدانہ صلاحیتوں اور کردار کی بھی جانچ کی جاتی ہے ۔ جوافسر اس معیار پر بہتر سمجھے جاتے ہیں اُنھیں بریگیڈ میجر تعینات کیا جاتا ہے ۔
غلام شفیع صاحب کے بڑے بھائی میجر شفیع آزاد کشمیر ریگولر فورس جسے بعد میں آزاد کشمیر رجمنٹ کا درجہ دیا گیا میں اُن اولین اور قابل ترین افسروں میں شمار ہوتے تھے جنھوں نے سٹاف کالج کیلئے کوالیفائی کیا اور پھر اچھی پوزیشن لیکر بریگیڈ میجر تعینات ہوئے ۔ چونکہ ہمارا علاقہ فوجی بھرتی کا مرکز تھا اور کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں کوئی ریٹائیرڈ یا حاضر سروس فوجی نہ ہوں ۔ کچھ فوجی افسر بھی تھے مگر بریگیڈ میجری کا اعزاز صرف میجر شفیع کے پاس تھا ۔
اُن ہی دِنوں پتہ چلا کہ میجر شفیع کرنل بن کرتندڑ سے چلے گئے ہیں ۔ کرنل شفیع کا تعلق گجر برادری سے تھا اور ہمارے سکول میں زیادہ تعداد گجر طلبا کی تھی ۔ سوائے ماسٹر رمضان منہاس کے باقی سب اُستاد گجر برادری سے تعلق رکھتے تھے دو اُستاد ریٹائیرڈ فوجی بھی تھے جنھوں نے فوج میں رہتے ہوئے فسٹ رومن اردو اور فسٹ انگلش اور میپ ریڈنگ کا متحان پاس کر رکھا تھا۔ فوج میں اسے فسٹ فسٹ کا امتحان کہا جاتا تھا جسے میٹرک کے مساوی درجہ دیا جاتا ۔ اسی طرح مولوی فاضل کا کورس مکمل کرنے والا کوئی مولوی اگر بی ۔ اے انگلش کا متحان پاس کر لے تو اُسے بی۔اے کی ڈگری مل جاتی تھی مگر لوگ مذاق میں اسے بی۔اے براستہ بھٹھنڈاکہتے تھے ۔ ہمارے ہر دلعزیز اُستادمولوی عبدالرحمٰن (مرحوم) جنکا مُفصل ذکر ہو چُکا ہے بھی مولوی فاضل تھے مگر میرے والد مرحوم قبلہ مولوی عزیزؒ کی طرح انہوں نے بھی بی۔اے کا امتحان نہ دیا چونکہ ان لوگوں کو کسی بڑے عہدے کا لالچ نہ تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں اسمبلی ممبران کیلئے بی۔ اے کی ڈگری لازمی قرار دی گئی تو بہت سے نیم خواندہ جاگیردار ، وڈیرے اور کرپٹ نو دولتیے سیاستدان نا اہل قرار پائے ۔ امریکہ میں پاکستان کی سفیر اور کئی بار مرکزی وزیر رہنے والی سیدہ عابدہ حسین جن کا تعلق جھنگ کے جاگیر دار اور پیر گھرانے سے ہے بھی الیکشن کیلئے ڈس کوالیفائی ہو گئیں جسکا ذکر اُنہوں نے اپنی سوانح حیات ــ‘‘پاور فیلئیر’’ میں کیا ہے ۔ عابدہ حسین سوئیزر لینڈ کی پڑھی ہوئی ہیں مگر اُن کی ڈگری پاکستانی بی۔اے سے میچ نہیں کرتی تھی۔ مذہبی سیاسی جماعتوں پر تو یہ قدغن بجلی بن کر گِری ۔ بہت کم مولوی بی۔ اے پاس تھے ۔ بہت سے تو مولوی فاضل بھی نہ تھے ۔ مولوی فاضل کی اسناد تو اُن کے مدارس نے جاری کر دیں مگر بی ۔ اے کی مصیبت نہ ٹل سکی ۔ اِسی طرح اے اور او لیول کے علاوہ ریٹائیرڈ فوجی افسروں کیلئے بھی الیکشن کمیشن نے مسئلہ کھڑا کر دیا۔
جنرل مجید ملک کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض ہُوا تو وہ عدالت میں چلے گئے ۔ آپ کی بنیادی تعلیم تو میٹرک ہی تھی مگر فوج میں رہتے ہوئے انہوں نے سٹاف کالج اور پھر کینیڈا اور پاکستان سے وار کورس جیسے اعلیٰ امتحان پاس کر رکھے تھے ۔ سٹاف کالج کے بعد بی۔ایس۔سی اِن وار سٹڈیز اور وار کورس کے بعد ایم۔ایس۔سی اِن سٹراٹیجکل سٹڈیز کی ڈگری دی جاتی ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کی قابلیت پر بہت کچھ لکھا گیا مگر مملکت خداداد میں شرمندگی یا پھر نا اہلی پر عہدہ چھوڑنے کا کوئی رواج نہیں ۔ اگر ایسا ہو جائے تو اسمبلیاں خالی، عدالتیں ویران، کچہریاں اور تھانے ویران و سنسان ہو جائیں ۔ ملک میں ہر طرف امن و خو شحالی ہو اور سارے باہمی جھگڑے ختم ہو جائیں ۔ پٹواریوں اور تھانیداروں سے معاشرہ پاک ہو جائے اور ہر طرف امن اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہوجائے ۔ مگر ایسا کہاں ممکن ہے۔ شیطان نے تو روزِ اوّل سے ہی قیام قیامت تک اللہ سے انسان کو ورغلانے ، لالچ دینے اور پھر جہنم کا ایندھن بنانے کی مہلت مانگ رکھی ہے۔ اللہ نے فرمایا جا تمہیں آزادی ہے مگر یاد رکھ جو میری بندگی کرنیوالے ہونگے اُن پر تیری کوئی چال کا ر گر نہ ہو گی۔
تب سے شیطان اپنے کام پر لگا ہے اور رحمٰن کے ماننے والے اپنا دفاع کر رہے ہیں ۔ شیطان کبھی بادشاھت ، کبھی آمریت ، کبھی فسطاعیت اور کبھی جمہوریت کے لبادے میں حملہ کرتا ہے تو کبھی تہذیب و ثقافت اور کلچر کا بہروپ اختیار کر لیتا ہے۔ اللہ نے تو اعلان کر دیا تھا کہ اے لوگو خبردار رہنا شیطان تمہارا کھلا دُشمن ہے ۔ اُس نے تمہارے باپ آدم ؑ اور حواؓ کو برہنہ کر دیا کہیں تم کو بھی بے لباس نہ کردے ۔
آج دُنیا کا کوئی کونہ نہیں بچا جہاں جدید ثقافت کا چرچا نہیں اور انسان فیشن کے نام پرکہیں برہنہ اور کہیں نیم برہنہ نہیں ۔ تھانے اور پٹوار خانے بھی تو اسی نے آباد کر رکھے ہیں جہاں انسان بے بسی کی علامت بن جاتا ہے ۔ تھانیدار اور پٹواری عوامی نمائیندوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر عوام کو برہنہ ، بے آبرو اور بے آسرا کر دیتے ہیں ۔ کرنل شفیع کی بات اس لیے کر رہا ہوں چونکہ وہ ہمارے سکول کے ھیرو تھے ۔ کرنل شفیع کی قابلیت ، علمیت، بہادری اور دلیری کے کئی قصے مشہور تھے جن کے متعلق ہمارے استاد اور طلباٗ اکثر بحث کرتے تھے۔
کرنل شفیع اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود مزید ترقی نہ پا سکے جس کی وجہ اُن کی جلالی طبعیت تھی ۔ میری اُن سے پہلی ملاقات کوئٹہ میں ہوئی ۔ میں نے اُنہیں گورنمنٹ مڈل سکول دیوتہ گولا کا بتایا تو بہت خوش ہوئے اور دیر تک ہری پور ، تندڑ ، پونہ اور کھوئیرٹہ میں گزرے دِنوں کو یاد کرتے رہے۔ کرنل شفیع دوسری بار یونٹ میں آئے جب ہم لوگ چھمب سیکٹر میں تعینات تھے ۔ تب وہ ریٹائر ہو چکے تھے اور گجرات میں مستقل رہائش رکھتے تھے۔ ہمارے کمانڈنگ افیسر کرنل عبداللہ نے اُنھیں ‘‘لیپا ڈے’’ کے موقع پر دعوت دی تو وہ بس پر بیٹھ کر آئے اور یونٹ دربار سے خطاب کرتے ہوئے افسروں اور جوانوں سے اپنے سخت رویے کی معافی مانگی ۔ کرنل شمع کی یہ خوبی بی قابل داد ہے ۔ موجودہ دور میں یہ خوبی بھی ناپید ہو چکی ہے ۔ بڑے بڑے لیڈر اور قائد بھی اس اخلاقی جراٗ ت سے مبرا ہو چکے ہیں ۔ آجکل غلطیاں خوبیوں میں شمار ہوتی ہیں اور غلطی کا لفظ ہماری اخلاقیات، سیاسیات اور معاشرتی آداب سے خارج کر دیا گیا ہے ۔ غلط کو غلط کہنا جرم کے زمرے میں آتا ہے اور غلطی کی نشاندہی کرنے والا مجرم کہلاتا ہے ۔
1973ء میں ہمیں سکول سے فارغ کر دیا گیا تو بہت سے لڑکے میٹرک کے امتحان کی تیاری سے محروم ہو گئے جنہوں نے بعد میں میٹرک کا امتحان دیا ۔ ایک تو وسائل کی کمی تھی دوسرا گھر سے دور رہنا مشکل تھا جس کی دیگر کئی وجوہات تھیں ۔ ہمارے کچھ کلاس فیلو پہلے ہی میر پور جا چکے تھے جن سے رابطے پر پتہ چلا کہ وہ میرپور میں نانگی کے مقام پر ایک بلڈنگ میں رہتے ہیں ۔ بلڈنگ کے سامنے سینما ہے اور چند گز کے فاصلے پر ایک ہوٹل بھی ہے ۔ دوسری جانب مسجد اور قریب ہی نانگی بازار ہے جہاں ضرورت کی ہر چیز مل جاتی ہے ۔ میرے محلے دار راجہ یونس نے قریبی گاوٗں پلاہل کلاں کے میاں نائب قریشی اور چوھدری اورنگزیب سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ وہ نانگی میں اِسی بلڈنگ میں رہتے ہیں اور اکبر روڈ پر واقع ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھتے ہیں ۔ یہ سکول جناب یوسف قریشی صاحب سابق صدر معلم گورنمنٹ ہائی سکول میرپور نے کھول رکھا ہے ۔ یوسف قریشی صا حب ماہر تعلیم ہیں اور اُن کا طریقہ تعلیم ساری ریاست جموں و کشمیر میں مشہور ہے ۔ سکول کی ماہانہ فیس دس روپے ہے اور روزانہ دو گھنٹے کی حاضری ہے۔
ہاسٹل کا کرایہ بھی دس روپے ماہانہ ہے اور ہر کمرے میں تین طالب علم رہتے ہیں ۔ اگر کوئی طالب علم اکیلا رہنا چاہے تو اُسے تیس روپے ماہانہ ادا کرنے ہونگے ۔ چونکہ ہمارا قیام ہی دو ماہ کا تھا اس لیے یونس نے فیصلہ کیا کہ ہم ملکر ساٹھ روپے ادا کر دینگے اور تیسرا آدمی ساتھ نہیں رکھیں گے ۔ یاد رہے کہ یہ بلڈنگ کیپٹن سرفراز صاحب کی تھی اور انتہائی کم کرایہ صرف اُن طلباٗ کیلئے تھا جو دور دراز کے علاقوں سے آتے تھے ۔ اس ہاسٹل میں کالج کے طلباٗ بھی رہتے تھے جنکا تعلق مظفر آباد ، گلگت و بلتستان اور راولا کوٹ سے تھا۔ یہ لوگ چھت پر بیٹھ کر سیاسی اور سماجی حالات پر گرما گرم بحث کرتے تھے ۔ ہماری کلاس دِن دو بجے سے چار بجے ہوتی تھی اسلیے میں اکثر اس محفل میں بیٹھ کر ان کی گفتگو سنتا تھا۔ زیادہ تعداد محاذ رائے شماری والوں کی تھی جو مسلم کانفرنس اور جماعت اسلامی کے سخت خلاف تھے ۔ لبریشن لیگ والے محاذ رائے شماری سے کسی حد تک متفق تھے جبکہ آزاد مسلم کانفرنس کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی ۔ جماعت اسلامی بھی آزاد کشمیر کی سیاست میں زیادہ سرگرم نہ تھی مگر عام لوگوں کی رائے میں جماعت والے آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے ۔ پیپلز پارٹی سے لوگ نفرت کرتے تھے جسکی وجہ مشرقی پاکستان کا المیہ تھا ۔ اُن کا خیال تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی چالیں مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے کا موجب بنیں گی اور آہستہ آہستہ لوگ باہمی اختلافات میں اُلجھ کر مسئلہ کشمیر کو بھول جائینگے۔
محاذ کے کچھ طالب علم رہنماوٗں کا خیال تھا کہ گنگا طیارے کے اغواٗ کاروں کو آسانی سے نہتا کیا جا سکتا تھا چونکہ اُن کا احتجاج تو عالمی سطح پر نشر ہو چکا تھا جسے کسی بڑے سانحے میں بدلنے کی ضرورت نہ تھی ۔ حکومت اغوا کاروں کو گرفتار کر لیتی اور طیارہ بھارت کو واپس کر دیا جاتا تا کہ ہمارا سفارتی اور اخلاقی مقام برقرار رہتا ۔
اُن کا خیال تھا کہ طیارے کی تباہی کے ذمہ دار جناب بھٹو اور مجاہد اوّل ہیں چونکہ اِن دو حضرات نے آخر میں اغوا کاروں سے ملاقات کی جس کے بعد انہوں نے طیارے کو تباہ کر دیا۔ حیرانگی کی بات یہ تھی کہ طلباٗ کی اس ٹولی میں میر پور کا کوئی طالب علم شامل نہ تھا ۔ اگر کوئی تھا بھی تو میری کسی سے واقفیت نہ تھی ۔ اُن دِنوں میرے علاقہ سے تعلق رکھنے والے طلباٗ میں راجہ رفیق نئیر سابقہ کمشنر ، اُن کے چچا زاد افضل خان سابقہ چیرمین ضلع زکوٰۃ کمیٹی کوٹلی ، راجہ ادریس اکرم ایڈووکیٹ سابق صدر معلم ، جان محمد مغل اور گاوٗں تندڑ سے تعلق رکھنے والے راجہ حبیب شامل تھے ۔ ان حضرات میں زیادہ تعداد بی۔اے فیل طلباٗ کی تھی جو کبھی کبھار کالج کے احاطہ یا پھر شہر میں نظر آتے تھے ۔ رفیق نئیر صاحب طلباٗ سیاست میں تو متحرک تھے مگر اُن کی سیاسی وابستگی کا پتہ نہیں تھا ۔ ہماری میر پور موجودگی میں طلباٗ تنظیموں میں جھگڑا ہوا تو رفیق نیئر صاحب بھی لپیٹے میں آ گئے ۔ اُن کی رہائش گاہ پر مخالف دھڑے نے حملہ کر دیا مگر وہ محفوظ رہے ۔ حملے کا پتہ چلا تو میں راجہ یونس کے ساتھ اُنہیں ملنے گیا جہاں ادریس اکرم صاحب ، کلیال بینک کے راجہ شبیر (مرحوم) ، ہمارے پرائمری سکول کے استاد محترم جناب شبیر صاحب اور علاقہ کے کچھ لوگ موجود تھے ۔
راجہ اصغر خان مرحو م آف ناڑا کوٹ (چڑہوئی) سابق ماسٹر وارنٹ آفیسر (پاکستان ائیر فورس) سے پتہ چلا کہ علاقہ چڑہوئی پنجن و پلاہل کے بیشتر بی۔اے فیل طلباٗ نے کراچی جاکر بی۔اے براستہ خیبر میل پاس کرلیا اور پھر اردو لا کالج سے قانون کی ڈگریاں بھی حاصل کر لیں ۔ حال ہی میں جناب عبدلرزاق کشمیری ایڈووکیٹ سابق صدر ڈسٹرکٹ بار میرپور سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے بتایا کہ اُن سمیت آزاد کشمیر بھر کے سینکڑوں وکیلوں اور کچھ ججوں نے بھی کراچی سے بی۔اے اور پھر ایل۔ایل ۔ بی کی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں ۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں میں جانے کیلئے بی۔اے کی شرط رکھی گئی تو آزاد کشمیر میں بھی سیاسی واویلا بلکہ صف ماتم بچھ گئی ۔ آزاد کشمیر کے کسی کرپٹ سیاستدان یا افسر کو چھیڑا جائے تو اسے تحریک آزادی پر اثر سے منسلک کر دیا جاتا ہے ۔ اخباروں میں خبریں چھپنا شروع ہو جاتی ہیں کہ دوسری جانب یعنی مقبوضہ کشمیر میں اچھا پیغام نہیں جائیگا۔
آزاد کشمیر اسمبلی کیلئے جنرل مشرف نے دوہری شہریت کے علاوہ تعلیمی حد میٹرک کر دی تو کراچی ایک بار پھر ان پڑھوں اور جاہلوں کیلئے ون۔ ون، ٹو۔ٹوثابت ہُوا۔جسطرح مولویوں نے اپنے بندے بٹھا کر آزاد کشمیر سے بی۔اے پاس کیا ویسے ہی آزادی کے پروانوں نے پر جلائے بغیر کراچی سے علم کی روشنی تو حاصل کر لی مگر جاھلیت کے اندھیروں سے پھر بھی نہ نکل سکے ۔
ایک مشہور سیاستدان نے سندھ بورڈ سے نویں کا امتحان بھاری نمبروں سے پاس کیا اور سب سے زیادہ نمبر سندھی زبان و ادب میں لیے ۔ دسویں میں کیا گل کھلائے ہونگے اسکا پتہ نہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ــ‘‘شاہ جو رسالو’’ اور چج نامہ کا پہاڑی زبان میں ترجمہ کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر لی ہو۔
جسطرح آزاد کشمیر کے سیاستدانوں، وکیلوں اور اعلیٰ ترین عدالتی اور انتظامی عہدوں پر تعینات ہونے والی معزز شخصیات نے کراچی اور سندھ بورڈ کا انتخاب کیا ۔ ویسے ہی علماء کرام نے یہ اعزاز آزاد کشمیر کی یونیورسٹیوں کو بخشا۔ کوٹلی آزاد کشمیر کے امتحانی مرکز پر چھاپہ پڑا تو کچھ نوجوان مولوی حضرات سیاستدان مولویوں کی جگہ امتحان دیتے ہوئے پکڑے گئے۔ آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے وقتی طور پر سخت رد عمل اپنایا مگر بعد میں معاملہ نرم ہوتے ہوتے سرد ہو گیا ۔ ملتان میں تعیناتی کے دوران میں نے اپنے محکمہ سے اجازت لیکر بہاوالدین ذکریا یونیورسٹی میں ایل۔ایل۔بی میں داخلہ لیا ۔ مجھے شام کی کلاس میں آنے کا کہا گیا ۔ اس کلاس میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی جنکا تعلق محکمہ تعلیم اور صحت سے تھا۔ ہمیشہ کی طرح کوئٹہ میں فسادات شروع ہو گئے جس کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہو گئے ۔ بہت سے طلباٗ نے دوسرے صوبوں کا رُخ کر لیا جن میں ایک طاہرہ ترین بھی تھی ۔ طاہرہ کی خالہ ملتان میں رہتی تھی اور خالو جان کوئی بڑے زمیندار ، سیاستدان اور کاروباری شخصیت تھے۔ وہ میرے ساتھ والی نشست پر خاموش بیٹھتی تھی اور کلاس کے اختتام پر خاموشی سے اُٹھ کر چلی جاتی تھی ۔ میں نے اپنے ایک مضمون ‘‘نعم الوکیل’’ میں طاہرہ ترین کا مکمل احوال لکھا ہے ۔
ایک دن ہمارے اُستاد جو سپریم کورٹ کے وکیل تھے نے آتے ہی بتایا کہ جنرل پرویز مشرف نے اعلیٰ عدلیہ میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں اور فلاں جج فلاں جگہ تعینات ہوا ہے ۔ جسٹس افتخار چوھدری کا نام سنتے ہی طاہرہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور عدلیہ کی تاریخ پر گرما گرم تقریر جھاڑ دی ۔ کہنے لگی افتخار چوھدری کا سپریم کورٹ میں آنا اچھا شگون نہیں اور نہ ہی اب قانون پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اب فیصلے عدالتوں میں نہیں ہونگے اور نہ ہی حکومتیں اپنا بھرم قائم رکھ سکیں گی ۔ سب لوگ طاہرہ کی تقریر پر خاموش رہے اور وہ اپنا تھرماس اور بیگ اُٹھا کر چلی گئی۔
دوسرے روز وہ کالج کے باہر بیٹھی تھی ۔ پوچھا تو کہنے لگی کہ مائیگریشن کی درخواست دی ہے ۔ کل اسلام آباد جا رہی ہوں اور پھر سنگا پور جا کر سوچوں گی کہ آگے کا لائحہ عمل کیا ہوتا ہے ۔ طاہرہ کی تقریر کے بعد میرا دِل بھی اُچاٹ ہو گیا۔ میجر احسان کو مائیگریشن فارم بھر کر دیا اور دو ماہ بعد پشاور آگیا۔
پشاور آکر میں نے ایم۔اے اردو کا ارادہ کیا ۔ امتحان کیلئے فیس بینک میں جمع کروائی ، فارم بھرا اور اپنے مددگار چوھدری محمود کو رجسٹرار آفس میں داخلہ فارم اور دیگر کاغذات جمع کروانے بھیجا۔ محمود ہنستا ہوا واپس آیا اور کاغذات مجھے واپس کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی کے رجسٹرار آفس کا واقعہ بیان کیا ۔ کہنے لگا رجسٹرار آفس کے باہر قطار میں خواتین و حضرات کھڑے تھے ۔ کھڑکی سے ایک مولوی صاحب فارم وصول کرتے اور رسید دیکر فارغ کر دیتے ۔ میری باری آئی تو انہوں نے جلدی جلدی کاغذ دیکھے تو اُن کی نظر آپ کی بی۔اے کی ڈگری کی تصدیق شدہ فوٹو کاپی پر پڑ گئی۔ فرمایا دوسری طرف سے اندر آ جاوٗ ۔ دوسری طرف گیا تو وہاں ایک پولیس والا کھڑا تھا اُس نے مجھے خود ہی اندر آنے کو کہا ۔ کھڑکی والے مولوی صاحب نے اپنی جگہ ایک اور مولوی بٹھا دیا اور داخلہ فارم کو دیکھتے ہوئے بار بار کہتے کوٹی لہی یعنی کوٹلی ۔
مولوی صاحب نے کچھ اور مولویوں کو بُلا لیا اورباقاعدہ مقدمہ چل پڑا ۔ میں سوالات کے جوابات دیتا رہا اور آخری سوال ہوا کہ یہ ڈگری جعلی دکھائی دے رہی ہے ۔ یہ کس یونیورسٹی کی ہے؟ ۔۔محمود نے کہا کہ میں تو اُن صاحب کا ملازم ہوں خود پڑھ لو ۔ سب نے باری باری ڈگری کا مطالعہ کیا اور کہنے لگے جی سی کا کیا مطلب ۔ میں نے مذاق میں کہا جنرل صاحب ۔ اچھا یہ بتاوٗ یہ ایوب صاحب کس فوج میں جنرل تھے ۔ میں نے کہا کابل کی فوج میں ۔ ڈگری کہاں کی ہیں ۔ میں نے کہا کابل کی لگتی ہے ۔ اچھا یہ بتاوٗ یہ صاحب کوٹلی آزاد کشمیر میں کیوں آ گیا ہے ۔ میں نے کہا مجھے پتہ نہیں ۔
اتنی دیر میں ایک اور صاحب آگئے جو مولوی نہ تھے ۔ اُنہوں نے ڈگری دیکھی اور انہیں پشتو میں سمجھایا کہ یہ آدمی تمہارا مذاق اُڑا رہا ہے ۔ جی سی کا مطلب جنٹلمین کیڈٹ ہے اور ڈگری پاکستان ملٹری اکیڈیمی کاکول کی جاری کردہ ہے جو پشاور یونیورسٹی سے منسلک ہے ۔
مولوی حضرات شرمندہ تو نہیں ہوئے مگر کاغذات واپس کرتے ہوئے کہنے لگے جنرل صاحب کو بولو کوٹلی یونیورسٹی میں جائیں ۔ ہمارے پاس کوٹی لہی کی جگہ نہیں ۔
بعد میں پتہ چلا کہ یہ غصہ آزاد کشمیر ہائی کورٹ کی وجہ سے ہے جس کے حکم پر بڑے مولویوں اور اسمبلی ممبران کی جگہ امتحان دینے والے چھوٹے جعلساز بالکوں کو کچھ دِن حوالات میں رکھا گیا۔ (جار ی ہے)