23 مارچ 1940ء کے دِن قراردادِ پاکستان کے منظور ہوتے ہی برٹش انڈین گورنمنٹ ، حکومت برطانیہ ، اکابرین ، دیو بند ، کانگرس اور اُس کی ہمنوا سیاسی جماعتوں اور پاکستان مخالف تحریکوں کے رویے میں شدت آ گئی ۔ خدائی خدمتگاروں کو امیر کابل کی بھر پور حمایت حاصل تھی ۔ فقیر آف ایپی مرزا خان جو انگریزوں کے خلاف جہاد اور نام نہاد روحانی کرامات کی وجہ سے مشہور ہوا اَب کُھل کر پاکستان مخالف تحریک کا حصہ بن گیا ۔ کانگرس ، سرخ پوش تحریک، اکابرین دیو بند اور امیر کابل کی ایماٗ پر فقیر آف ایپی نے پہلے پختونستان اور پھر پاکستان کا نعرہ بلند کیا جسے وائسرائے کی حکومت میں کافی حد تک پذیرائی ملی ۔
1946ء میں باچا خان نے کابینہ مشن کے سامنے بیان دیتے ہوئے دو قومی نظریے کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اِس تقسیم کو نہیں مانتے ۔ ہم اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرینگے ۔
اسی طرح کا بیان سرحد اسمبلی کے سپیکر اللہ نواز خان نے دیا۔ کہا پختون تشخص کا معاملہ الگ ہے ۔ ہم ایک الگ قوم ہیں ۔ ہماری تہذیب و ثقافت ، زبان و ادب ، فنون لطیفہ ، طرزِ تعمیر ، رسوم و رواج ، طبائع و خواہش کچھ بھی پنجاب سے نہیں ملتا۔
دو قومی نظریے کی مخالفت کرتے ہوئے امریکی دانشور سا لیگ ھیری سن نے لکھا کہ برطانوی نو آبادیاتی نظام سے پہلے ہندوستان میں بسنے والے قبائل کبھی یکجاہ اور متحد نہ تھے ۔ یہ اعزاز برطانوی حکومت کو ہی حاصل ہُوا کہ اُس نے انھیں ایک قوم میں بدل دیا ۔ ضروری ہے کہ ہندوستان کو ایک ہی اکائی سمجھ کر آزاد کر دیا جائے ۔ برطانوی وزیر اعظم ایٹلے نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اقلیتوں کے تحفظ کا احساس ہے مگر اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اقلیت اکثریت پر غلبے کا خواب دیکھے ۔ وہ مسلمان کو اقلیت اور ہندووٗں کو اکثریت کہتے ہوئے تقسیم ہند کو مسترد کرتا ہے ۔
سابق وزیر داخلہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رہنما اعتزاز احسن اپنی کتاب ‘‘دِی انڈین ساگا اینڈ میکنگ آف پاکستان’’ میں لکھتے ہیں کہ تخلیق پاکستان کوئی عجوبہ نہیں جیسا کہ ہندوستانی قوم پرست اور اہلِ دانش سمجھتے ہیں ۔ نہ ہی انگریزوں کی تقسیم کرو اور حکومت کرو پالیسی کا حصہ ہے بلکہ یہ ایک طویل تاریخی سندھی تحریک کا نتیجہ ہے ۔
یہ طویل تاریخی سندھی تاریخ کیا ہے اسکا کوئی تاریخی پس منظر بیان نہیں کیا ۔ دو قومی نظریے کی نفی ابتداٗ آفرینش سے ہے جب اللہ کے حکم کیخلا ف شیطان نے آدم ؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور پھر اللہ سے قیام قیامت تک انسان کو ورغلانے اور اُسے صراط مستقیم سے ہٹانے کی مہلت طلب کی ۔ فرمایا جاوٗ مگر جو میرے بندے ہونگے وہ کبھی بھی تیرے راستے پر نہ آئینگے ۔ درحقیقت یہی دو قومی نظریہ ہے جس کی بنیاد پر ایک اسلامی ، فلاحی اور اصلاحی ریاست کا قیام ہوتا ہے۔ ایک ایسی ریاست جو کائیناتی ریاست کے اصولوں کا پرتو اور اللہ کی حاکمیت کے دائیرے میں قائم ہو۔ جس کے شہری اللہ اور اُس کے رسولؐ کے اطاعت گزار اور مقتدر اعلیٰ ایک متقی ، پرہیز گار اور اللہ اور اُس کے رسول ؐ پر کامل ایمان رکھنے والا ہو ۔
سورۃ الکٰفرون میں منکرین ، منافقین اور مسلمان مومنین کے درمیان ایک واضع لکیر کھینچ دی گئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دور جدید میں دیگر اصطلاحات کی طرح عملی یعنی پریکٹسنگ اور بے عمل نان پریکٹسنگ مسلمان کی اصطلاع بھی عام کر دی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ حکم بھی ہے کہ آپ کسی بے عمل کو کافر ، مشرک، منافق یا بے دین نہیں کہہ سکتے ۔ ایسے ماحول ، معاشرے اور ریاست کا وجود بھی بے معنی ہو جاتا ہے۔
دنیا کا ہر نظام ایک نظریے کی بنیاد پر استوار ہے۔ سوائے نظریہ اسلام کے ہر نظریے کے مضر و مثبت اثرات ہیں ۔ مثبت اثرات کا تعلق قانون فطرت کے تابع جبکہ مضر اثرات کا تعلق استدراج کے تابع شروفساد کا باعث بنتا ہے ۔ اسلام کا نظریہ سیاست اور حکومت دیگر نظریات سے الگ ہے ۔ اسلام میں سیاست کا مطلب جوڑنا اور سیاستدان کا مطلب باہم جوڑ کر رکھنے والا ہے ۔ ابنِ خلدون نے سیاست کو دیگر صنعتوں سے بالا اور سب سے محترم صنعت کا درجہ دیا ہے ۔ سیاست سے ہی اُمت کا نظریہ واضح ہوتا ہے ۔
دو قومی نظریہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ حکم الہی کے تحت ایک واضع اصول ہے جس کی افادیت سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ انسانی معاشرے میں ہمیشہ سے ہی تفریق رہی ہے ۔ ایک طبقہ وہ جو اللہ اور اُس کے رسولوں اور نبیوں کو ماننے والا اور دوسرا طبقہ منکرین کا جنھوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا۔ تیسرا طبقہ منافقین کا جو ذاتی مفادات اور شہرت و شہوت کے حصول کیلئے دو طبقوں کے درمیان ہر دور میں شر و فساد کا باعث بنتا رہا ہے۔ زمانے کے ہر دور میں دو قومی نظریہ کار فرما رہا اور ایک اسلامی ریاست میں اسلامی سیاسی نظام بھی رائج رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ابن خلدون نے پیغمبروں کی سیاست کو اوّل درجے کی سیاست قرار دیا ہے ۔ سیاست جیسی بھی ہو اُسکا تعلق عقلیت ، علمیت ، فضیلت اور عقیدت سے منسلک ہوتا ہے جسے عصبیت قوت فراہم کرتی ہے ۔ عصبیت کے بغیر سیاست بے معنی اور بے وقعت ہو جاتی ہے ۔ جس معاشرے اور ریاست میں قوت مدافعت نہ ہو وہ جلد بکھر کر غلامانہ یا پھر باجگزارانہ حیثیت اختیار کر لیتا ہے ۔
اقبالؒ کے فلسفہ خودی کی بنیاد عصبیت ہی ہے ۔ حضرت محی الدین ابنِ عربی ؒ کی ‘‘فتوحات مکی ’’ اِ س سلسلے کی بہترین اور بے مثل تصنیف ہے ۔ یہی وجہ تھی حضرت امام خمینی ؒ نے سابق سوویت یونین کے صدر گوربا چوف کے نام ایک خط میں اسے علامہ اقبالؒ کا وہ خط یاد کروایا جو علامہ نے جلال الدین افغانی کی وساطت سے لینن کو لکھا تھا۔ اسی طرح امام خمینی ؒ نے یورپی لیڈروں کو نصیحت کرتے ہوئے لکھا کہ امن و خوشحالی چاہتے ہو تو ‘‘فتوحات مکی’’ کا مطالعہ کرو۔
قومیں اپنے نظریات اور عقائد کا خود تحفظ کرتی ہیں تا کہ بد عقیدہ لوگ فرسودہ علم کی قوت سے اُن کے عقائد و نظریات پر حملہ آور نہ ہوں ۔ بد قسمتی سے ہمارے اشراف، فقہا اور علماٗ ہی ضعف کا شکار ہو کر اصل نظریے اور عقیدہ سے ہٹ کر فرسودہ خیالی کا شکار ہو گئے جس کے نتیجے میں عوام اُلناس بے یقینی، بد اعتمادی اور بے راہ روی کے اندھیروں میں دھکیل دیے گئے ۔ حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو نظریہ خیر اور نظریہ شر ہی دو قومی نظریے کی روح ہے اور پاکستان اِسی نظریے کی بنیاد پر قائم ہُوا نہ کے طویل تاریخی سندھی یا پھر نو آبادیاتی نظام اِس کے قیام کی وجہ بنی ۔
حضرت مولانا مودودی ؒ کے حوالے سے ایک تحریر میں لکھا گیا ہے کہ 1192میں ترائن کی دوسری جنگ سے پہلے سلطان شہاب الدین غوری نے پرتھوی راج چوہان کے نام خط میں لکھا کہ مسلم اکثریت کے علاقے میرے پاس رہنے دو اور باقی ہند پر تمہاری حکومت تسلیم کر لی جائے گی ۔ پرتھوی راج چوہان نے اِس خط کا تمسخر اُڑایا اور غوری کو بُزدلی کا طعنہ دیا جس کے نتیجے میں ترائن کی دوسری جنگ ہوئی اور پرتھوی راج چوہان اپنے بڑے جرنیل کھانڈے رائے سمیت مارا گیا ۔ لکھا گیا ہے کہ سلطان شہاب اُلدین غوری نے جو نقشہ پیش کیا تھا آج پاکستان اُن ہی علاقوں پر مشتمل ہے ۔
مولانا مودودی ؒ ابتداٗ میں دو قومی نظریے کے حامی تھے مگر قیام پاکستان سے پہلے اصلاحی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے تحریک آزادی پاکستان سے الگ ہو گئے ۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا مودودی ؒ نے قیام پاکستان کے حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ اگر حضرت مجددالف ثانی، شیخ احمد سرہندی اکبر کے دین الہی کے خلاف آواز نہ اُٹھاتے تو چار سو سال پہلے ہی ہندوستان میں کوئی کلمہ گو مسلمان نہ رہتا ۔ یہ کہنا درست ہے کہ مسلمانان ہند نے 14اگست 1947ء کو جس اسلامی ریاست کے حصول میں کامیابی حاصل کی اُس کی بنیادیں حضرت مجدد الف ثانی نے ہی رکھی تھیں۔
دو قومی نظریے کی ایک الگ اور طویل تاریخ ہے جسپر تحقیق سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارے دانشوروں ، صحافیوں ، ادیبوں اور اہلِ علم و سیاسیات کا مطمع نظر ہی کچھ اور ہے جو شہرت و شہوت کے دائرے سے باہر آنے کی سکت نہیں رکھتا۔ حضرت مجدد الف ثانی کا مشن حضرت شاہ ولی اللہ ، سید احمد شہید ، تحریک مقاصد ، بنگال میں فرائضی تحریک ، تحریک علی گڑھ کے بعد علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم ؒ نے جاری رکھا۔
قائداعظم ؒ کا فرمان ہے کہ پاکستان اُسی دن قائم ہو گیا تھا جب پہلے ہندوستانی نے کلمہ حق پڑھا تھا وہ پہلا ہندوستانی کرالہ کا بادشاہ ‘‘چکراورتی فرماسن ’’ تھا ۔ چکراورتی نے اپنی ملکہ کے ہمراہ شق القمر کا مشاہدہ کیا اور مکہ جا کر حضورؐ کی خدمت میں پیش ہوا۔ قبول اسلام کے بعد اُس نے اپنا نام تاج اُلدین پسند کیا ۔ اصحاب رسولؐ کی صف میں شامل ہو کر واپسی پر حضرت تاج اُلدین ؓ کا انتقال ہو گیا۔ آپؓ کا مزار عمان کی بندرگاہ ظفر میں واقع ہے ۔ انڈین آفس لائیبریری لندن میں موجود دستاویز نمبر 173، 152اور 2807میں بھی اس واقع کی تصدیق کی گئی ہے ۔ آپؐ کی زندگی میں ہی کیرالہ میں تبلیغ اسلام کا سلسلہ شروع ہوا جسکا واضع ثبوت کیرالہ کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے قبرستان ہیں ۔
1947ء کے بعد کے حالات کا جائیزہ لینے کیلئے ضروری ہے کہ 47سے پہلے رونما ہونے والے واقعات اور حالات کو دو قومی نظریے کی روشنی میں دیکھا جائے ۔ دو قومی نظریے کے مخالفین میں حکومت برطانیہ ، کانگرس اور شدت پسند ہندو تحریکیں ہی نہیں بلکہ جمعیت علماٗ اسلام ہند، سوشلسٹ نظریات کے حامل لبرل مسلمان، سرحدی سرخ پوش ، عبدالصمد اچکزئی اور افغان حکمران بھی شامل تھے۔ حال ہی میں خود ساختہ دانشور راوٗف کلاسرا نے کشمیر کہانی کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی ہے جو ہماری صحافتی نفسیات اور دانشورانہ دیوالیہ پن کی عکاس ہے۔ راوف کلاسرا ہی نہیں بلکہ اسی قماش کے دانشوروں ، صحافیوں اور کالم نگاروں کا خیال ہے کہ لارڈ ماونٹ بیٹن تقسیم ہند کا فارمولہ لیکر آیا تھا جبکہ ماونٹ بیٹن کا مشن تقسیم ہند کو ہر حال میں روکنا اور متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ہندووٗں کی غلامی پر مجبور کرنا تھا۔ 1936سے 1947تک کے حالات پر سوائے زیڈ اے سلہری کے کسی نے کچھ نہیں لکھا ۔ زیڈ سے سلہری کی دو تحریریں ‘‘میرا قائد’’ اور ‘‘پاکستان امن و ترقی کی شاہراہ پر’’ اس سلسلے کی سچی اور حیران کن تصانیف ہیں جن پر کبھی غور ہی نہیں کیاگیا۔
اب تو حال یہ ہے کہ اقبالؒ ، قائد اعظم ؒ اور محترمہ فاطمہ جناح کے یوم پیدائش و وفات پر لکھنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ ایسا ہی حال 23مارچ ، 14اگست کے علاوہ 1965کی پاک بھارت جنگ، سانحہ مشرقی پاکستان اور جنگ آزادی کشمیر کا ہے ۔ ماضی قریب میں ہمارے کالم نگار ، صحافی اور دانشوران واقعات کو مسلسل دہراتے اور عوام الناس کو آگاہ رکھتے تھے۔
قلمکار ان واقعات کا تجزیہ پیش کرتے اور مستقبل کا لائحہ عمل بھی پیش کرتے مگر چند سالوں سے یہ سلسلہ نہ صرف سست روی کا شکار ہُوا بلکہ اصل واقعات کو مسخ کرنے اور من گھڑت اور اختراعی تاریخ کا سلسلہ ترتیب دینے کا رجحان بھی بڑھ گیا۔
اس سال چھ ستمبر کے حوالے سے لکھے گئے مضامین میں جناب فیصل مسعود کا مضمون ‘‘ستمبر کی پاک بھارت جنگ محرکات و نتائج ’’ جسے روزنامہ 92نیوز نے شائع کیا اس لحاظ سے منفرد ہے کہ کام نگار نے تاریخی حوالوں سے اسے 47سے 71کے بعد دور حاضر تک منسلک کیا ہے۔ آپ نے مسئلہ کشمیر ، قبائیلیوں کی کشمیر پر یلغار ، اقوام متحدہ کی ثالثی اور سیز فائیر ، میجر خورشید انور کے کردار، پنڈی سازش کیس، عائشہ جلال اور شجاع نواز کے خیالات، فاروق ببرک کی کتاب، آپریشن جبرالٹر ، 1970کے انتخابات اور سقوط ڈھاکہ اور دور حاضر تک کے حالات پر اپنے کالم میں تجزیہ پیش کیا۔ گزشتہ دور میں طلباٗ ، اساتذہ اور اہلِ علم اخبارات پڑھتے تھے اور پھر ایڈیٹر کے نام خط میں اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے تھے ۔ کالم نگار بہت سے سنجیدہ اور معلوماتی خطوط کا جواب بھی دیتے اور کوئی غلطی سر زد ہوگئی ہو تو معذرت بھی کرتے تھے۔ روزنامہ مرکز اور روزنامہ جنگ میں راجہ انور اور بشریٰ رحمٰن جیسے نامور کالم نگاروں نے تنقید پر جوابی کالم لکھے اور اپنی معلومات کی تصحیح کی ۔ موجودہ دور میں نوائے وقت کے کالم نگار نصرت جاوید نے اس روایت کو زندہ رکھا ہے اور غلطی تسلیم کرتے ہوئے اگلے کالم میں اُس کی تصحیح کرتے ہیں ۔
آج ہم سوشل میڈیا اور ففتھ جنریشن وار کے دور میں جی رہے ہیں ۔ فیک نیوز کے علاوہ ٹیلیویژن چینلوں پر بیٹھے اینکر میکاولی اور گوبلر کو مات دے رہے ہیں ۔ جو زیادہ معاوضہ اور سہولیات لے رہا ہے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے جھوٹ بولتا ہے ۔ ہمارے سیاستدان بھی اِن سے دو قدم آگے ہیں ۔ ادھوری معلومات ، من گھڑت قصے اور جھوٹ پر مبنی خبریں ، تجزیے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھیلانے والوں کو بڑی مارکیٹ میسر ہے چونکہ جو کام ہمارے دشمنوں کے کرنے کا تھا وہ ہم خود ہی کر رہے ہیں ۔
28ستمبر کو شائع ہونے والے کالم میں جناب فیصل مسعود نے مسئلہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے قبائیلی یلغار کے کمانڈر میجر خورشید انور اور بریگیڈئر اکبر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان بریگیڈئیر اکبر سے رابطے میں تھے ۔ پنڈی سازش کیس کے حوالے سے دیکھا جائے تو پھر وزیراعظم سے بریگیڈئیر اکبر کی نفرت اور اُنکا تختہ اُلٹنے کی سازش کی کوئی وجہ ہی نہیں بنتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اِس جنگ کی نہ تو کوئی منصوبہ بندی تھی اور نہ ہی مشترکہ کمان تھی ۔
جو لوگ لیڈر بن کر میدان میں گئے اُن میں جنگ لڑنے کی صلاحیت ہی نہ تھی ۔ قبائلی کشمیر فتح کرنے نہیں بلکہ لوٹ مار کرنے گئے تھے اور جب تک اُنھیں دشمن سے پالا نہ پڑا وہ کشمیریوں کو لوٹتے رہے اور دو سکھ کمپنیوں کے سرینگر لینڈ کرتے ہی دُم دبا کر بھاگ آئے۔ بریگیڈئیر اکبر اپنی کتاب ‘‘ریڈرز ان کشمیر ’’ میں لکھتے ہیں کہ وہ چھٹی لیکر عام حیثیت سے لشکر میں شامل ہوئے چونکہ اُن کے بڑے بھائی بھی اِس بے ہنگم اور شتر بے مہار جتھے میں شامل تھے ۔ بریگیڈئیر اکبر لکھتے ہیں کہ قبائلی لشکر کسی کے قابو میں نہ تھا۔ لوٹ مار ، عورتوں اور بچوں کی بے حرمتی ، املاک کی تباہی کسی صورت جہاد کے زمرے میں نہیں آتی۔ مقامی لوگوں سے اُن کا رویہ حاکمانہ اور ظالمانہ تھا جس کی وجہ سے قبائلیوں کے خلاف لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہوگئی ۔ لکھتے ہیں کہ میری چھٹیاں ختم ہو گئیں جس کی وجہ سے فوج نے میرا محاسبہ شروع کردیا ۔ ڈیوٹی سے غیر حاضری کی وجہ سے مجھے کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا مگر پھر بچت ہو گئی ۔ اگلے پروموشن کیلئے مجھے نااھل قرار دیا گیا تو ایک بار پھر مجھے قانونی جنگ لڑنے کے بعد میجر جنرل کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔ دیکھا جائے تو جنرل اکبر کا اس آپریشن میں کوئی عملی کردار نہ تھا۔ قبائل تو میجر خورشید انور کو بھی گھاس نہیں ڈالتے تھے جنرل اکبر کی کون سنتا۔
میجر خورشید انور کون تھا اِسکا مفصل احوال سردار شوکت حیات کی تصنیف ‘‘گم گشتہ قوم’’ میں موجود ہے ۔ خورشید انور فوج کا نہیں بلکہ ریلوے بٹالین کا میجر تھا جسے آجکل ریلوے پولیس کا ‘‘ایس ۔پی ’’ کہا جاتا ہے ۔ خورشید انور کا تعلق ککے زئی قبیلے سے تھا اور تب کے وزیر خزانہ غلام محمد اور بد نام زمانہ جسٹس منیر کا رشتہ دار تھا ۔ مسئلہ کشمیر کو کس طرح اُلجھایا گیا اور کشمیر سونے کی طشتری میں رکھ کر نہرو کو دینے والا کون تھا اسے جاننے کیلئے جناب جی ایم میر کی تصنیف کشور کشمیر، کرنل عبدالحق مرزا کی تصنیف ـ‘‘دِی ودرنگ چنار ’’ انوار ایوب راجہ کی ‘‘لینٹھا’’ اور لیفٹنینٹ راجہ مظفر خان شہید کی سولہ صفحات پر مشتمل ڈائیری ‘‘محاذ جنگ جھنگڑدھرمسال اور نوشہرہ ’’ کا مطالعہ ضروری ہے۔
عائشہ مسعود ملک نے اپنی تحریر ‘‘کشمیر 2014’’ میں بہت سی کتب کے حوالے دیے ہیں جن میں ایک ‘‘یادوں کے زخم’’ بھی ہے جسکے مصنف کا تو نام نہیں لکھا مگر اسکا انتساب حقیقت کا ترجمان ہے۔ لکھا ہے کہ 22اکتوبر کے دِن قبائلی دھشت اور بربریت کا طوفان بن کر آئے ، ماوٗں ، بہنوں بیٹیوں کی عزت تار تار کر دی ، گھروں اور بازاروں کو آگ لگائی اور لوٹ مار کا ایسا بازار گرم کیا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ عورتوں اور چھوٹی بچیوں کو اغواٗ کرکے ساتھ لے گئے اور اُنھیں بیچ کر اپنی جیبیں بھر لیں ۔
قبائلیوں کی بربریت تاریخ کا حصہ ہے جسے کوئی خود ساختہ دانشور ، سطحی سوچ کا تاریخ دان ، مفکر یا صحافی بدل نہیں سکتا ۔ کشمیر پر افغانوں اور اُن کے حامی درندہ صفت قبائلی کا یہ دوسرا جبر تھا ۔ 1753میں جب احمد شاہ ابدالی لاہور میں مقیم تھا تو کشمیریوں کا ایک وفد میر مقیم اور خواجہ ظہیر کی قیادت میں اسے ملا۔ پانچ لاکھ طلائی اشرفیوں کے عوض اسے کشمیر پر حملے کی دعوت دی ۔ معائدہ طے پایا کہ مغلیہ جبرو استبداد سے چھٹکارے کے بعد افغان فوجیں براستہ چترال واپس لوٹ جائینگی اور کشمیری اپنی مقامی قیادت کے ذریعے ریاست کا نظام سنبھال لینگے ۔
مقامی لوگوں کی مدد سے افغان فوج عبداللہ ایشک اقاصی کی قیادت میں فاتح ٹھہری مگر جلد ہی افغانوں نے کشمیریوں پر ظلم کا پنجہ گاڑھ دیا۔ 66سال تک افغانوں نے جو برتاوٗ کشمیریوں کے ساتھ کیا روسیوں اور امریکیوں نے افغانوں کیساتھ جو کچھ کیا وہ اُسکا ایک فیصد بھی نہیں ۔ ظالم ، جابر،سنگدل اور بے حس اقوام کا ویسا ہی حشر ہوتا ہے جیسا اُن کا کردار و عمل ہو۔
پاکستانی اینکروں ، دانشوروں اور اعلیٰ دماغوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ کشمیر پر افغانوں کے جبر کے 66سالوں کا مطالعہ کریں کہ یہ لوگ کس طرح کی خارجہ پالیسی کے مستحق ہیں ۔ علامہ اقبالؒ نے ‘‘اُو غافل افغان ’’ جیسی شہرہ آفاق نظم یوں ہی نہ لکھی تھی ۔
جنگِ آزادی کشمیر پر آج تک سچ نہیں لکھا گیا چونکہ ہمارے پاس نئے ھیرو تلاشنے اور نئے اور من گھڑت واقعات لکھنے والوں کی پوری فوج ظفر موج موجود ہے جنھیں میڈیا کے ذریعے یہ قصے کہانیاں لکھنے کا بھاری معاوضہ ملتا ہے ۔ جناب لیاقت علی خان کے مبینہ قاتل سید اکبر ذدران کی بھی ایسی ہی کہانی ہے جسے اب کشمیر اور پنڈی سازش کیس کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ سید اکبر کون تھا ، اُسے ایبٹ آباد لا کر کس نے بسایا تھا اور وہ کس کے لیے کام کرنے کا ماہانہ خرچ وصول کرتا تھا اسے صرف نظر کر تے ہوئے اُسے کشمیریوں کا ہمدرد، میجر خورشید انور کا قریبی ساتھی، علامہ اقبالؒ کا شیدائی بناکر پیش کرنا قلم کاری تو نہیں بلکہ فنکاری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
حقیقیت تو یہ ہے کہ جب بھی کسی پاکستانی یا اسلامی ملک کے لیڈر کی سوچ میں تبدیلی آئی اسے منظر سے ہٹا دیا گیا۔ لیاقت علی خان ۔ ایوب خان ، ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل ضیا ء الحق ، بے نظیر بھٹو، شریف آف مکہ کا خاندان ، شاہ فیصل ، افغانستان کا سردار داوٗد ، احمد سوۓکارنو اور اہل مغرب کا چہیتا شاہ ایران اور دیگر درجنوں مثالیں تاریخ کا حصہ ہیں ۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ سید اکبر ذدران اور اسکا بھائی سابق انٹیلیجنس ایجنٹ تھا جنھیں برٹش انٹیلیجنس نے ظاہر شاہ کو قتل کرنے کا ٹاسک دیا چونکہ ظاہر شاہ روس کیساتھ تعلقات بہتر بنا رہا تھا ۔ ناکامی کی صورت میں اِس خاندان کو پہلے وزیرستان اور پھر ایبٹ آباد منتقل کیا گیا جہاں برطانوی سفارتخانہ اُنھیں دیگر سہولیات کے علاوہ ماہانہ بھاری معاوضہ بھی ادا کرتا تھا ۔
لیاقت علی خان کی ناکام کشمیر پالیسی کے باوجود قرار داد مقاصد اُن کی وزارت کا عظیم کارنامہ تھا۔ پروڈا کے نفاذ کی وجہ سے اُن کی ذات پر تنقید بھی ہوئی مگر لیاقت علی خان کے قتل کی اصل وجہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ممکنہ تبدیلی تھی۔ لیاقت علی خان نے ایران میں مقیم پاکستانی سفیر راجہ غضنفر علی خان کو ھدایات دیں کہ وہ ایران اور مصر سے تعاون بڑھانے کے علاوہ مشرق وسطیٰ ، ترکی اور افریقی مسلم ممالک کیساتھ رابطوں کا انتظام کریں ۔ لیاقت علی خان مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان سیاسی ، مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی کیلئے متحرک تھے کہ اُنھیں 16اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا ۔ تب تک پنڈی سازش کیس قصہ ماضی بن چکا تھا ۔ اِس سازش کے ممبران کی لسٹ میں سید اکبر یا میجر خورشید انور کا کوئی ذکر نہیں اورنہ ہی کسی کو قتل کرنے کا منصوبہ تھا ۔ جنرل اسکندر مرزا کی ڈائیری پر مبنی کتاب ‘‘ایک صدر کا عروج و زوال’’ جسے اسکندر مرزا کی بیٹی شاہ تاج امام نے شائع کیا ہے پنڈی سازش کیس پر دو باب لکھے گئے ہیں ۔ اسکندر مرزا لکھتے ہیں کہ اِس منصوبہ بندی کے سارے کردار اینٹی امریکہ تھے اور اُن کا خیال تھا کہ کشمیر کسی ثالثی کے نتیجے میں نہیں بلکہ بزور شمشیر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کو بھارت کے حوالے کرنیوالوں میں جنرل ایوب خان کا بھی کردار تھا جسکا ذکر جنرل مجید ملک کی سوانح ‘‘ہم بھی وہاں موجود تھے ’’ میں کیا گیا ہے ۔ جناب لیاقت علی خان کی شہادت کا اہم محرک پالیسی شفٹ تھا ۔ دوسری وجہ پاکستان کو ہمیشہ کیلئے سیاسی اور معاشی بحرانوں میں دھکیلنا تھا جسکا سفر آج تک کامیابی سے جاری ہے ۔
اسکندر مرزا نے پنڈی سازش کیس کو ایوب خان اور جنرل اکبر کے درمیان ذاتی رنجش کا واقع قرار دیا ہے ۔ لکھتے ہیں کہ حکومت نے اِن کے ساتھ ضرورت سے زیادہ تشدد کیا جبکہ وہ لوگ بہت پہلے اس منصوبے سے دستبردار ہو چکے تھے۔ سید اکبر زدران کے بیٹے فاروق ببرک کی کتاب ایک فضول کہانی ہے جس کی کوئی کڑی حقیقت سے نہیں ملتی ۔ وہ خود کہتا ہے کہ یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں میں کسی چیز کا گواہ نہیں ۔ آخر پچھتر سالوں بعد اسے یہ کتاب لکھنے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ فاروق ببرک نے نہیں لکھا کہ ظاہر شاہ کے قتل کی منصوبہ بندی ناکام ہونے کے بعد اُنہیں ایبٹ آباد لا کر کس نے بسایا ، اُنھیں شاہانہ زندگی گزارنے کا وظیفہ کون دیتا تھا ، اسے اور اُس کے بھائی کو امریکہ جاکر پڑھنے ، جائیدادیں خریدنے اور کاروبار کیلئے پیسہ کہاں سے آیا۔ اُن کی والدہ کی دوسری شادی کے باوجود اس کے اخراجات کس کے ذمے تھے ۔ شاید وہ اِن سوالوں کے جواب نہ دے سکے ۔ فاروق ببرک، عائشہ جلال اور بیرون ملک بسنے والے صحافی ، دانشور اور تاریخ دان وہی لکھتے ہیں جس کی اُنھیں اجازت ہوتی ہے ۔ عائشہ جلال نہ تو تاریخ دان ہے اور نہ ہی دانشور یا مفکر ہے ۔ تاریخ دان، مُبصر ، تجزیہ نگار اور مفکر میں فرق ہوتا ہے ۔ عائشہ جلال اور بھارتی مبصرین اور تجزیہ نگار وں میں کوئی فرق نہیں ۔ کبھی وہ پاکستان کو احمقوں کی جنت اور کبھی اُجڑا ہوا دیار یا صحرا کہتی ہے اور کبھی خوش فہمی میں مبتلا لوگوں کا ملک قرار دیتی ہے ۔ حال ہی میں ملیحہ لودھی کی مرتب کردہ کتاب :
"Pakistan Beyond the Crisis State” میں عائشہ جلال کا مضمون "The Past as Present” شائع ہوا ہے ۔ یہ مضمون پہلے امریکی اخباروں میں چھپ چکا ہے ۔ لکھتی ہیں کہ پاکستان در حقیقت "Paranoidistan” اور پاکستانی قوم "Paranoid” یعنی نفسیاتی مریضوں کا ملک ہے ۔ حیرت کی بات ہے کہ ہماری حکومت نے ملیحہ لودھی کی یہ کتاب سول سروس کے سلیبس میں شامل کر لی ہے ۔ شجاع نواز کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اگر عوامی لیگ حکومت میں آجاتی تو بھارت کیسا تھ مسائل حل ہونے کے مواقع میسر آ جاتے جبکہ شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکاتی ایجنڈے میں کوئی ایسی بات نہیں تھی ۔ مکتی باہنی کے خالق لیفٹینٹ کرنل شریف الحق دالم ‘‘بیر اُتم’’ نے اپنی کتاب ‘‘پاکستان سے بنگلہ دیش’’ میں تسلیم کیا کہ اگرتلہ کوئی سازش نہیں بلکہ آزادی کی تحریک کا آغاز تھا۔ اسی طرح 1947ء کی جنگ آزادی کشمیر اقوامِ متحدہ کی ثالثی نہیں بلکہ نہرو کی درخواست پر بند ہوئی ۔ 65ء کی جنگ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر سچ سے ہمیشہ کی طرح گریز کیا جاتا رہا ہے ۔ یہ جنگ بھٹو کی ایماٗ پر لڑی گئی جسکا مقصد کشمیر سے نجات حاصل کرنا تھا مگر اللہ نے آزاد کشمیر اور پاکستان بچا لیا۔ نواب آف کالا باغ اور جناب کے ایچ خورشید نے ایوب خان پر واضح کیا تھا کہ وہ بھٹو کی چال میں نہ آئے ۔ جو کام 62ء میں نہ کرسکے اسے 65ء میں کرنا خود کشی کے مترادف ہے ۔
سر سکندر حیات خان نے لکھا ہے کہ نواب آف کالا باغ نے ایوب خان کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا کہ بھٹو خاندان میں کبھی کسی نے تیر ، تلوار ، بندوق، توپ یا پستول نہیں چلایا ۔ بھٹو شاطر سیاستدان ہے اسلیے اس کی باتوں میں مت آوٗ۔ آگے کیا ہوا اُس کا احوال بھارتی صحافی درگاس داس نے اپنی تصنیف ‘‘کرزن سے نہرو اور 65کی جنگ کے بعد’’ میں لکھا ہے ۔ اس کتاب کے علاوہ تاشقند کے راز کسی نے نہیں لکھے چونکہ یہ ہماری ضرورت ہی نہیں ۔
47 سے 65 اور 71 کے بعد
