لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیمان المعروف”دی میگنیفیسنٹ“کا تعلق کمانڈو دستے ایس ایس جی سے تھا۔ انہوں نے جرات اور بے خوفی کی ایک نئی داستان رقم کی تھی۔ کرنل سلیمان نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے اورا س کی قیدمیں جانے سے انکار کردیا تھا اوردشمن کا گھیرا توڑکر بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے اپنے زخمی ساتھی میجر پیر داد خان اور چند دوسرے ساتھیوں کو محفوظ مقام پر پہنچادیا تھا۔پیر داد خان بعد میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ہوئے۔
کرنل محمد سلیمان (مرحوم)کے متعلق میڈیا پر طرح طرح کے واقعات گردش کرتے رہتے ہیں چنانچہ ہم نے ان کی اصل داستان جاننے کے لیے ان کے بھائی منظرسلیم صاحب سے رابطہ کیا،انہوں نے کمال شفقت سے ہمیں وقت دیا اور کرنل صاحب کے متعلق تفصیلی حالات و واقعات سے آگاہ کیا۔
منظر سلیم ایک سرکاری ادارے سے اہم عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ وہ ایک دلچسپ علمی اور تاریخی شخصیت بھی ہیں اوران کا مطالعہ وسیع ہے۔انہوں نے اپنے بہادر بھائی کے متعلق جو باتیں بیان کیں وہ ہم قارئین کے ذوق کی نذر کر رہے ہیں۔
منظر سلیم نے بتایا کہ لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیمان 17اپریل1943ء کو لاہور میں محمد سلیم کے ہاں پیدا ہوئے۔محمد سلیم پاکستان پوسٹل سروس میں ملازمت کرتے رہے اورانہوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا جس کی بنا پر انہیں تمغہ خدمت عطاکیاگیا۔ جب14اگست 47ء کو پاکستان بنا اس وقت محمد سلیم صاحب بارہ مولہ (مقبوضہ کشمیر)کے پوسٹ آفس میں تعینات تھے اورانہوں نے پوسٹ آفس کی عمارت پر پاکستان کا جھنڈا لہرایا اور اس کے بعد 47-48میں جدوجہد آزادی کشمیرمیں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بعد ازاں وہ چھپتے چھپاتے پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔65ء کی جنگ میں محمد سلیم گجرات پوسٹ آفس میں تعینات تھے تو وہ باقاعدہ چھمب جوڑیاں کے مورچوں پر فوجی جوانوں کے پاس جاتے،ان سے ڈکٹیشن لیتے،گھرکاایڈریس معلوم کرتے اورا ن کی طر ف سے خط لکھ کران کے گھروں کو روانہ کر دیتے۔اس کے بعد جوانوں کے گھروں سے جو جوابات آتے باقاعدہ ہر جوان تک پہنچایا کرتے۔ یہ کام ان کی سرکاری ڈیوٹی میں شامل نہ تھا،ایساانہوں نے محض اپنے جذبہ خدمت کی بنیادپرکیاتھا۔ اس کارہائے نمایاں پرانہیں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ قائداعظم (TQ)عطا کیا گیا۔
محمدسلیم صاحب ملازمت کے سلسلے میں جہاں بھی گئے بچوں کو اپنے ساتھ رکھا اور ان کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی۔
کرنل محمد سلیمان نے آٹھویں جماعت کاا متحان گورنمنٹ ہائی سکول سیالکوٹ سے پاس کیا اور جب ان کے والد کاتبادلہ سیالکوٹ سے راولپنڈی ہوگیا توانہوں نے آرمی سکول لال کرتی راولپنڈی میں نویں جماعت میں داخلہ لے لیا۔ اس ادارے سے میٹر ک کا امتحان پاس کرنے کے بعد آرمی کمیشن کا امتحان دیا اور مئی1961ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول پہنچے۔ وہ 28پی ایم اے کورس کا حصہ تھے۔ ان کی ٹریننگ کا دورانیہ دو سال اور چھ ماہ کاتھا۔ان کے کورس میٹس میں لیفٹیننٹ جنرل مقبول،جنرل سلیم اللہ، ایڈمرل جاوید اقبال،میجر محمد اکرم شہید(نشان حیدر)،جنرل علی قلی خان،جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل پرویز مشرف تھے۔جنرل پرویز مشرف اور کرنل سلیمان ایس ایس جی میں اکھٹے ہوئے تھے۔
لیفٹیننٹ کرنل محمدسلیمان پاسنگ آؤٹ کے بعد آرڈیننس کور(Ordnance)کا حصہ بنے لیکن سچی بات یہ ہے کہ انہیں یہ کور پسند نہ تھی کیونکہ ان کی دلچسپی کمانڈو گروپ سے تھی۔ 1965ء کی جنگ کے موقع پر محمد سلیمان کیپٹن تھے اور سرگودھا ایئر بیس کی حفاظت کرنے والے ایک فوجی دستے کے O/C (آفیسر کمانڈنگ)تھے۔جلد ہی محمد سلیمان کی مراد پوری ہوئی اور وہ جنوری1966ء کے اوائل میں پاک فوج کے کمانڈو دستے ایس ایس جی (سپیشل سروسز گروپ)کے لیے منتخب ہوگئے۔ اس دن ان کی حقیقی خوشی کا دن تھا کیونکہ وہ خود کوایک واریئر کے طور پر ملکی حفاظت کے لیے پیش کرنا چاہتے تھے۔69ء میں محمد سلیمان نے پیرا ٹروپر کا کور س بھی کیا۔ وہ گولہ بارود وغیرہ کے بہت ماہر تھے اور کہیں پر بھی بم دھماکہ سن کر بھی بتا دیتے کہ یہ کس ساخت کا بم تھا۔ چونکہ ان کا تعلق آرڈننس سے تھا تو ان کے پاس اسلحہ کے متعلق بہت معلومات تھیں۔75ء میں انہوں نے کلفڈن(مری) کے مقام پرکئی ہفتوں پر مشتمل انٹیلی جنس کورس کیااوراس میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے انعام حاصل کیا۔
21نومبر1971ء کو محمد سلیمان لاہورسے ڈھاکہ کے لیے روانہ ہونے لگے تو یہ عیدالفطر کا دن تھا،ان دنوں وہ ایس ایس جی میں میجر تھے۔منظر سلیم بتاتے ہیں کہ اس وقت ہماری رہائش لاہور ایئرپورٹ کے قریب ایک سرکاری گھر میں تھی۔مجھے بالکل اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں اور امی ابو انہیں چھوڑنے ایئر پورٹ جانے لگے تو اس وقت مشرقی پاکستان کی دلدوزخبریں آنا شرو ع ہو گئی تھیں۔اس موقع پر والدہ نے ان سے کہاکہ:”بیٹا تم اسلام اوروطن کی خاطر اتنی دورجارہے ہو لیکن دیکھنا کہ کبھی بھی بزدلی مت دکھانا اور کمپرومائزنہ کرنا“۔یوں وہ بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ ڈھاکہ پہنچے اور انہوں نے مکتی باہنی کے خلاف مختلف کارروائیوں میں حصہ لیا۔ 09دسمبرکومیجرمحمد بلال اور محمد سلیمان ایک بنکرمیں موجود تھے،وہاں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہم نے کبھی سرینڈر نہیں کرنا اور آخردم تک لڑنا ہے۔اس سے اگلے دن یعنی10دسمبر کومیجر محمدبلال شہید ہوگئے۔میجر بلا ل ان کے کورس میٹ بھی تھے۔اسی طرح محمد سلیمان کے ایک اور دوست میجر محمد تیمور بھی ایک کارروائی میں شہید ہوئے۔ بعدمیں کرنل محمد سلیمان کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے تو انہوں نے ان کے نام بلال اور تیمو ررکھ کر اپنے اِن شہید دوستوں کوخراج تحسین پیش کیا۔
14دسمبر71ء کی صبح محمد سلیمان کو ایسٹرن ہیڈ کوارٹرز ڈھاکہ میں بلاکرکہاگیاکہ آپ اپنے ڈیڑھ سو جوانوں کے ہمرا ہ فلاں جگہ ایک اہم مشن پر پہنچیں۔کرنل سلیمان نے کہا کہ یہ تو”مشن امپوسیبل“ ہے،کیامیں وہاں جاکراپنے ڈیڑھ سو سپاہی مروالوں؟ کیونکہ وہاں پر انڈین آرمی کاایک پورا بریگیڈ تعینات ہے۔بہرحال ہم تو اپنے وطن کی خاطرجان دے دیں گے لیکن بظاہر اس مشن کی کامیابی کاکوئی امکان نہیں۔یہ کہہ کر محمد سلیمان تیزی سے وہاں سے نکلے توکرنل لودھی اورکرنل حفیظ نے سلیمان سے کہاکہ آپ جب اپنی پوسٹ پرواپس پہنچوتو ہم سے وائرلیس پر ضرور بات کرنا۔ان کی پوسٹ ڈھاکہ شہر سے14کلومیٹر دوری پرتھی۔ انہوں نے جب کرنل لودھی اورکرنل حفیظ سے وائرلیس پر بات کی تو انہوں نے انکشاف کیاکہ بھائی آپ لوگ ہرگز اس مشن پرنہ جانا کیونکہ مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکلنے لگاہے اور سرنڈرکرنے کا فیصلہ کرلیاگیاہے۔محمد سلیمان شدید کرب کے عالم میں خود جیپ ڈرائیوکرتے ہوئے ایسٹرن ہیڈکوارٹرپہنچے توپتاچلاکہ سیکنڈ اِن کمانڈجنرل راؤ فرمان علی موجودہیں۔کرنل سلیمان ان کے پاس پہنچے اور ماجرا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو مشورہ دوں گاکہ ہمیں اپنی جانیں بچانی چاہیئیں۔اس موقع پر محمدسلیمان نے کہاکہ میں کسی صورت گرفتاری نہیں دوں گا۔ کرنل سلیمان کے ہاتھ میں سٹین گن تھی اورو ہ اس وقت سخت غصے میں تھے۔وہ تیزی سے نکلے اور انہوں نے ڈھاکہ سے فرار کامعاملہ اپنے قریب موجود ایک کیپٹن سے بیان کیا۔کیونکہ اپنے کام میں مہارت رکھنے والے ایک نہایت چست اور چالاک کمانڈوکے طورپرمحمدسلیمان بخوبی جان چکے تھے کہ اب ڈھاکہ ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے اورانہیں گرفتارکر لیاجائے گا۔کیپٹن نے جوا ب دیا کہ اس وقت ہماری ایسٹرن کمانڈ کے رن وے پر دو جہاز کھڑے ہیں لیکن ان کے پائلٹ موجود نہیں ہیں۔کچھ ہی دیر میں محمدسلیمان کو آرمی ایوی ایشن کے دو پائلٹ مل گئے۔ انہوں نے سلیمان سے کہاکہ ہم آپ کے ساتھ چلتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کوبھی ساتھ لے کرآئیں گے کیونکہ ڈھاکہ اب غیر محفوظ ہو چکا ہے۔یہ تقریبا ً ایک درجن سے زائد لوگ ایئرپورٹ روانہ ہوئے تو اسی موقع پر محمد سلیمان سی ایم ایچ ڈھاکہ پہنچے جہاں پرمیجرپی ڈی خان(پیرداد خان)گھٹنے میں گولی لگنے کے سبب زیرعلاج تھے۔ سلیمان نے ان سے کہا کہ وہ بھی ان کے ساتھ چلیں کیونکہ ہمیں دشمن کی قید سے بچ نکلنا چاہیے۔پی ڈی خان نے جواب دیا کہ میں بری طرح سے زخمی ہوں اورآپ کے فرارکے لیے بھی مشکل کاباعث بن سکتاہوں۔میری وجہ سے آپ کا مشن خراب ہوجائے گا۔ کرنل محمد سلیمان نے پی ڈی خان کے سر میں ایک ضرب لگائی جس سے وہ بے ہوش ہو گئے اوروہ انہیں اپنے کندھوں پر اٹھاکر اپنی جیپ میں لائے اور ایئر پورٹ پہنچے۔محمدسلمان نے ہسپتال کے عملے سے کہاکہ مجھے ایسٹرن کمانڈکی طرف سے حکم ملاہے کہ پی ڈی خان کو لے کرآؤں تو ہسپتال کے عملے نے ان کی بات پریقین کرلیا۔
یہ تمام لوگ ایئرپورٹ پہنچے توجہاز ایک تھااور لوگ زیادہ تھے۔محمدسلیمان نے فوری عقلمندی یہ کی کہ جہاز کی سیٹیں اور زائد سامان نکال کرپھینک دیا اوران کے ساتھ موجود تمام لوگ جہاز میں سما گئے۔مغربی پاکستان بہت دور تھا تو فیصلہ کیاگیاکہ ہمیں برما کی طرف نکل جانا چاہیے،چنانچہ جہاز نے ڈھاکہ سے پروازکی اور برما کے ایک شہر’اکیاب‘میں لینڈ کیا۔برماحکام کومحمد سلیمان نے ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو انہوں نے ان تمام افراد کورنگون میں واقع پاکستانی سفارتخانے بھیج دیا۔
منظرسلیم بتانے لگے کہ 16دسمبر71ء کو جب ہمیں سقوط ڈھاکہ کی خبرملی تو پورے ملک کی طرح ہمارے گھرمیں بھی صف ماتم بچھ گئی۔ہماری پریشانی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ہمیں کسی صورت محمدسلیمان کا علم نہیں ہورہاتھا،کیونکہ نہ تو ان کانام قیدیوں میں آرہاتھااورنہ ہی شہداء میں۔ ہم بہت ہی ذہنی کرب میں مبتلاتھے لیکن ہماری والدہ بار بار یہی کہاکرتی تھیں کہ سلیمان یا تو شہید ہوچکاہوگا یا پھر وہ کہیں چھپ گیا ہوگا کیونکہ وہ آسانی سے دشمن کے ہاتھ آنے والا نہیں۔ سقوط ڈھاکہ کو تقریباً ایک ماہ ہواہوگاکہ میں ایک دن لاہور میں اپنے آفس میں بیٹھاتھا کہ ٹیلی فون ایکسچینج آپریٹر بھاگابھاگا آیا اور کہنے لگاکہ آپ کی برما سے کال آئی ہے۔جب میں نے کال اٹینڈ کی تودوسری طرف سے سلیمان بول رہا تھا۔کہنے لگا بھائی ہم برماکے دارالحکومت رنگون میں پاکستان سفارتخانے میں ہیں۔حالت بہت خراب ہے۔شدید سردی اور ہمارے پاس ڈھنگ کے کپڑے بھی نہیں ہیں۔ بس ہم سب لوگ سفارتخانے کے برآمدوں میں ٹھٹھرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ اچھا ہوا کہ ہم دشمن کی قید سے بچ گیے ہوں۔اس موقع پر سلیما ن کوبتایاگیاکہ 15دسمبر 71ء کوان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے جس کا نام نادیہ سلیمان رکھاگیاہے۔(نادیہ کا مطلب ہے سلیمان کو پکارنے والی۔ یہ سلمان کی پہلی اولاد تھی)۔اس گفتگو کے کوئی ایک ہفتہ بعدمحمدسلیمان اوران کے چند دیگرساتھی لاہورپہنچ گئے۔جب لیفٹیننٹ کرنل محمدسلیمان پاکستان پہنچے اور ان کی حیرت انگیز داستان ان کے فوجی دوستوں اور ان کے کورس میٹس نے سنی تو انہوں نے انہیں ”دی میگنیفشنٹ“کا خطاب دیا۔یہ خطاب دینے والوں میں سابق آرمی چیف جنرل پرویزمشرف اور ایڈمرل (ر)جاوید اقبال سرفہرست تھے۔ کالم نگار منیر احمدبلوچ لکھتے ہیں کہ:”سلطنت عثمانیہ کے سب سے بڑے حکمران سلیمان اعظم کی شان و شوکت اور جرات وبہادری کی وجہ سے کرنل سلیمان کودی میگنیفیشنٹ،یعنی سلیمان عالی شان کہاجاتا ہے“۔کرنل محمد سلیمان 1989ء کے اوائل میں ریٹائرڈ ہوئے۔ انہوں نے بڑی بھرپور زندگی گزاری اور مورخہ9دسمبر2019ء کو مختصر علالت کے بعد وفات پائی۔