میرے ایک ادیب دوست گذشتہ دِنوں پاکستان سے لندن آئے، مختلف ادبی موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ برطانیہ میں اردو کے شاعروں کی کل تعداد کتنی ہو گی؟ میں نے کہا سیکڑوں میں ہو گی جن میں سے اکثریت کے شعری مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ اُن کا اگلا سوال تھا کہ آپ کے پسندیدہ شاعر کون ہیں؟ میں نے چند اور شاعروں کے علاؤہ انجم خیالی کا نام لیا۔ وہ انجم خیالی کا نام سن کر چونکے اور پوچھنے لگے کہ یہ انجم خیالی کون ہیں؟ میں نے حوالے کے طور پر اُن کے چند اشعار سنائے تو وہ حیران رہ گئے۔
ہر گھر میں اک ایسا کونا ہوتا ہے
جہاں کسی کو چھپ کے رونا ہوتا ہے
اُجرت کے لالچ میں ہم مزدوروں کو
چوروں کا اسباب بھی ڈھونا ہوتا ہے
…..
مرے مزار پر آ کردیئے جلائے گا
وہ میرے بعد مری زندگی میں آئے گا
…..
اشعار سُن کر انہوں نے استفسار کیا کہ انجم خیالی کا کوئی شعری مجموعہ چھپا ہے۔ میں نے بتایا کہ ندیم بھابھہ جو کہ خود بھی بہت عمدہ شاعر ہیں انہوں نے 2014ء میں خیال خام کے نام سے انجم خیالی کی شاعری کو یکجا کر کے کتابی شکل دی تھی۔ انجم خیالی کے تذکرے کے بعد انہوں نے اعتراض کیا کہ آپ نے برطانیہ سے اپنے پسندیدہ شاعروں میں ساقی فاروقی کا نام نہیں لیا۔ میں نے وضاحت کی کہ لندن میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے ساقی فاروقی کا نام سب سے معتبر اور اہم سمجھا جاتا ہے۔ یقینا وہ ایک شاندار شاعر، بہت عمدہ ادیب اور منفرد نقاد تھے۔ برصغیر پاک وہند میں اُن کے نام اور کام کی بڑی قدر کی جاتی ہے۔ میں خود اُن کا بہت بڑا مداح ہوں لیکن وہ میرے پسندیدہ شاعر نہیں۔ شعر و شاعری کی پسند کے معاملے میں میرے اپنے معیار ہیں۔ بہرحال آج کا موضوع انجم خیالی اور اُن کی شاعری ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ برطانیہ میں اردو کے ایک بہت عمدہ شاعر تھے مگر انہیں بہت جلد فراموش کر دیا گیا۔انجم خیالی نے ہی کہا تھا۔
زندہ تو ہمیشہ نہیں رہتا کوئی لیکن
ہر شخص جو مرتا ہے وہ فانی نہیں ہوتا
انجم خیالی کا آبائی تعلق آزاد کشمیر اور جہلم سے تھا۔ برطانیہ آ کر وہ ایک عرصے تک لندن میں مقیم رہے پھر انہوں نے بریڈ فورڈ میں سکونت اختیار کی۔ اپنی عمر کا آخری حصہ انہوں نے (گلاسکو) سکاٹ لینڈ میں گزارا۔ ہجرت کے حوالے سے اُن کا یہ شعر بھی تارکین وطن میں زبان زد عام ہو چکا ہے
اذان پہ قید نہیں، بندش نماز نہیں
ہمارے پاس تو ہجرت کا بھی جواز نہیں
اردو کے اور بہت سے اچھے شاعروں کی طرح انجم خیالی نے بھی اپنی اور اپنے شعری اثاثے کی قدر نہیں کی۔ عبد الحمید عدم سے جون ایلیا تک بہت سے شاعر ایسے گزرے ہیں جن کے بارے میں جگر مراد آبادی نے اپنا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا
سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا
انجام خیالی کے بکھرے ہوئے کلام کو اُن کے صاحبزادے جمیل انجم نے شعری مجموعہ بنا کر شائع کرنے میں بہت مستحسن کام کیا۔ اس مجموعے کی اشاعت سے پہلے کئی لوگوں کا خیال تھا کہ خیالی صاحب کا بہت سا کلام چرا لیا گیا ہے بلکہ ایک بار برطانیہ کے ایک بہت ہی سینئر شاعر نے ایک دوسرے شاعر پر الزام لگایا کہ انہوں نے انجم خیالی کے کلام کو چُرا کر اپنے نام سے پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ میں نے جب یہ کلام سنا تو اپنے اس سینئر شاعر سے کہا کہ ایسی بے تاثیر شاعری انجم خیالی کی نہیں ہو سکتی۔ انجم خیالی بہت منفرد شاعر ہیں۔ آوازوں کے ہجوم میں اُن کی آواز صاف پہچانی جاتی ہے۔ اُن کی غزل کا لہجہ اور آہنگ بالکل الگ اور پُرتاثیر ہے
کچھ تصاویر بول پڑتی ہیں
سب کی سب بے زباں نہیں ہوتیں
اپنی مٹھی نہ بھینچ کر رکھو
تتلیاں سخت جاں نہیں ہوتیں
لڑکیوں میں بس ایک خامی ہے
یہ دوبارہ جواں نہیں ہوتیں
…..
سیاہ رات ہے اور حبس بھی بلا کا ہے
تو آندھیاں بھی ہمیں بخش اور چراغ بھی دے
…..
بنانا پرندو تم اپنے نشیمن
درختوں کی شاخوں پہ قبضہ نہ کرنا
…..
غم تجھ سے بچھڑنے کا جو تھا اب بھی وہی ہے
یوں ہے کہ شجر کی کئی شاخیں نکل آئیں
انجم خیالی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک تنہائی پسند اور گوشہ نشین شاعر تھے جو ادبی محفلوں کی گہما گہمی سے دور رہ کر اپنی تخلیقی فکر میں مگن رہتے اور خیال و فکر کے چراغ جلائے رکھتے تھے۔انجم خیالی(15جون 1936ء 22 – جنوری 1997ء) کی شاعری اردو کے ہجرتی ادب کا ایک اہم حوالہ ہے۔ اُن کی غزل خیال و فکر کی سچائیوں کے اظہار کا شاندار نمونہ ہے۔ انجم خیالی کو لوگ چاہے فراموش کر دیں یا بھلا دیں اُن کے بہت سے عمدہ اشعار ہمیشہ زندہ اور سخن فہم لوگوں کے حافظے میں رہیں گے۔
ایک ہی زندگی ہماری ہے
اس پہ بھی شوق جاں نثاری ہے
ہجر کی ایک شب نہیں کٹتی
ہم نے آدھی صدی گزاری ہے
ایک معصوم سا پرندہ بھی
اپنی جاگیر میں شکاری ہے
…..
یارب مجھے تو مال نہ جاہ و جلال دے
دو دِن کے بعد رزق دے لیکن حلال دے
جنت سے آدمی کو نکالا تھا جس طرح
دنیائے آدمی سے فرشتے نکال دے
…..
شب کو اک بار کھل کے روتا ہوں
پھر بڑے سکھ کی نیند سوتا ہوں
…..
یاد ہیں مجھ کو وہ رخسار، وہ لب، وہ گیسو
اے مرے بھولنے والے مجھے ازبر تو ہے
کوئی نعمت نہیں ایسی جو مرے پاس نہیں
جو مرے پاس نہیں وہ مرے دلبر تو ہے
…..
بعض وعدے کئے نہیں جاتے
پھر بھی ان کو نبھایا جاتا ہے
صبح کے بعد بھی جو روشن ہوں
اُن دئیوں کو بجھایا جاتا ہے
…..
عادتاً بھیک مانگتے ہیں لوگ
رزق اللہ کے اختیار میں ہے
…..
سنبھال رکھی ہیں دامن کی دھجیاں میں نے
اگست آیا تو پھر جھنڈیاں بناؤں گا
…..
کبھی کسی کو کسی سے جدا نہیں کرتا
وہ کام جو نہیں اچھا، خدا نہیں کرتا
…..
مجھے شبہ ساہوا اس کی بے نیازی سے
میں خود بنا ہوں خدا نے نہیں بنایا مجھے
…..
سیادہ رات ہے سایہ تو ہو ہیں سکتا
یہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
……
ارادہ تو رکھتے ہیں جنت کا ہم
اگر پھر وہاں سے نکالے گئے؟
……
اس زمیں کے کسان ہیں مفلس
سانپ سارے خذانے والے ہیں
……
تھا جنہیں مٹی کا رشتہ ماں کے رشتے سا عزیز
وہ بھی ہجرت کر گئے ہیں خشک سالی دیکھ کر
……
ہمیں بھی رنج پہنچتا ہے دوسروں کی طرح
یہ اور بات کسی سے گلہ نہیں کرتے
……
ساتھی شکاروں کو خفا کر رہا ہوں میں
پکڑے ہوئے پرندے رہا کر رہا ہوں میں
……
مجھے یاد ہے کہ 1997ء میں بڑی تلاش کے بعد میں نے انجم خیالی سے رابطہ کیا۔ ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران مجھے کئی بار محسوس ہوا کہ اُن کی زبان میں لغزش ہے اور اُن کو روانی سے بولنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ حالانکہ یہ صبح کا وقت تھا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ پھر میں نے کئی بار دِن کے مختلف اوقات میں انہیں فون کیا لیکن ہر بار گفتگو ادھوری رہی۔ میں اُن دِنوں روزنامہ جنگ لندن میں کام کرتا تھا۔ میں نے سکاٹ لینڈ میں جنگ کے بیوروچیف طاہر انعام شیخ سے گزارش کی کہ وہ گلاسگو میں انجم خیالی سے مفصل انٹرویو کرنے کے لئے اُن سے رابطہ کریں۔ طاہر انعام شیخ نے کئی کوششوں کے بعد انجم خیالی سے انٹرویو کا وقت طے کر لیا اور بہت اچھا اور تفصیلی انٹرویو کر کے مجھے بھیجا جو جنگ کے ادبی ایڈیشن جہان ادب میں شائع ہوا۔ یہ انٹرویو جنگ لندن کی فائلوں میں محفوظ ہو گا۔ انجم خیالی کا شعری اثاثہ بہت ضخیم نہیں ہے لیکن وہ جو کچھ تخلیق کر گئے اس میں سے بہت سا کلام اچھی شاعری کے انتخاب میں شامل رہے گا اور سخن فہم لوگ اُن کے اشعار سے ہمیشہ لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔
٭٭٭٭٭