میں مشرقی لندن کے جس علاقے فاریسٹ گیٹ میں رہتا ہوں وہاں کی گرین سٹریٹ اپنی تجارتی گہما گہمی اور رونق کی وجہ سے پورے برطانیہ میں مشہور ہے۔ گروسری، بوتیک اور زیورات کی شاندار دکانوں کے باعث ویک اینڈ پر لوگ دور دراز سے خریداری کے لئے یہاں آتے ہیں۔ سونے کے زیورات اور ہیرے جواہرات کی دکانوں پر انڈین، پاکستانی اور بنگلہ دیشی گاہکوں کی کثرت ہوتی ہے۔ برصغیر کے لوگ دنیاکے کسی بھی خطے میں جا کر آباد ہو جائیں سونے اور اس کے زیورات میں اُن کی دلچسپی کم نہیں ہوتی۔ خاص طور پر خواتین آج بھی سونے کے زیورات کو اپنی شان وشوکت اور امارت کے اظہار کا ذریعہ سمجھتی ہیں۔ برطانیہ میں آباد ایشیائی خواتین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو دوبئی کے گولڈ سوک (GOLD SOUK)جا کر سونے اور زیورات کی خریداری کرتی ہیں۔ ویسے تو برطانیہ میں بھی سونے کے ذخائر کی کمی نہیں لیکن اس سے زیورات بنانے کی بجائے اُسے اینٹوں کی شکل یعنی گولڈ بارز کے طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔ اس وقت بینک آف انگلینڈ کے پاس خالص سونے کی 4لاکھ اینٹیں (گولڈ بارز) موجودہیں جن کا کل وزن 310ٹن اور مالیت تقریباً دو سوبلین پاؤنڈ ہے۔سونے کی ان اینٹوں کو ایک طویل مدت سے ایسے9زیر زمین محفوظ مقامات پر رکھا گیا ہے جہاں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات ہیں اور اس خزانے تک چند لوگوں کو رسائی حاصل ہے اور یہاں آج تک چوری کی کوئی واردات نہیں ہوئی۔ البتہ 1836ء میں بینک آف انگلینڈ کے ڈائریکٹرز کو گمنام خطوط ملنا شروع ہوئے جن میں لکھا گیا تھا کہ ”میں وہ شخص ہوں جسے سونے کے خزانے تک رسائی حاصل ہو گئی ہے اور میں آپ کو اس خزانے کے اندر جس وقت آپ چاہیں مل سکتا ہوں“۔ پہلے تو بینک آف انگلینڈ کے اربابِ اختیار نے اِن پیغامات کا کوئی نوٹس نہ لیا لیکن پھر انہوں نے ایک خط کے جواب میں تاریخ اور وقت کا تعین کیا اور سونے کی اینٹوں سے بھرے خزانے میں گمنام مراسلہ نویس کا انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ خزانے کے فرش سے وہ شخص نمودار ہوا۔ بینک آف انگلینڈ کے سب ڈائریکٹرز ششدر و حیران رہ گئے۔ اس نے بتایا کہ میں سیورمین(SEWERMAN) ہوں۔ زیرزمین پائپس کی مرمت کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ یہاں چند پرانے سیوریج پائپس کے اوپر بینک آف انگلینڈ کے خزانے کا فرش ہے جس میں خالص سونے کی اینٹیں بھری ہوئی ہیں لیکن میں نے یہاں تک رسائی کے باوجود سونے کا ایک ٹکڑا تک چوری نہیں کیا۔ اس انکشاف پر بینک آف انگلینڈ نے اُسے دیانتداری کا ثبوت دینے پر 8سو پاؤنڈ کا انعام دیا جو آج کے 64ہزار پاؤنڈکے مساوی ہے۔ سونا کہنے کو تو صرف ایک دھات ہے لیکن اپنی چمک، نرمی،خاصیت اور نایابی کی وجہ سے یہ دھات نہ صرف بیش قیمت ہے بلکہ پوری دنیا میں اس کی مانگ اور طلب سب سے زیادہ ہے۔ سونا یعنی گولڈ دراصل لاطینی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب چمکدار ہے۔ سونا ایک کیمیائی عنصر ہے جس کی ایٹمی علامت(AU) اور ایٹمی نمبر 79ہے۔اس دھات کا درجہ پگھلاؤ 1250سے 1300ڈگری سنٹی گریڈ ہوتا ہے۔ سونا عام طورپر تیزاب میں حل نہیں ہوتا اور اسے زنگ بھی نہیں لگتا۔ سونے کو انسانی تاریخ میں ابتدا سے ہی تجارت کا بنیادی ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ سونے کے سکے اور اشرفیاں زمانہ قدیم سے تجارتی مقاصد کے لئے استعمال ہوتے رہے ہیں اور آج بھی دنیا بھر میں سونے کی فی اونس مالیت کو ایک تجارتی معیار تسلیم کیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں سب سے زیادہ زیورات سونے کے ہی بنائے جاتے ہیں۔ عالمی سطح پر پائے جانے والے کل سونے کے 68فیصد سے زیورات اور باقی سے سکے،مجسمے اور دیگر اشیاء بنائی جاتی ہیں۔ حرارت اور بجلی کا بہترین موصل ہونے کی وجہ سے سونے کو قیمتی آلات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سونے میں چونکہ پھیلاؤ کی بہت زیادہ گنجائش ہوتی ہے اس لئے بہت پہلے سے اس دھات کے ورق بنائے جاتے ہیں۔ ایک گرام سونے سے ایک سکوئر میٹر کا باریک ورق بنایا جا سکتا ہے۔بعض لوگ سونے کے ورق کو غذا کے ساتھ کھاتے ہیں لیکن سائنس نے آج تک سونے کو کھانے کی صحت کے حوالے سے کوئی افادیت نہیں بتائی۔ البتہ سونے کے ذرات اور نمکیات کو تپ ِدق اور آرتھرائٹس کے امراض کے لئے مفید بتایا جاتا ہے۔پوری دنیا میں اب تک ایک لاکھ 61ہزار ٹن سونا زیر استعمال ہے جو مختلف ممالک میں موجود سونے کی کانوں سے نکالا جا چکا ہے۔ سب سے زیادہ سونا جنوبی افریقہ سے نکالا گیا جہاں 1880ء میں دنیا کا کل 50فیصد سونا موجود تھا جبکہ 1970ء میں دنیا کا کل 74فیصد سونا جنوبی افریقہ سے حاصل کیا گیا۔ پرانے وقتوں میں سونا بادشاہوں کی جاہ و حشمت اور شان و شوکت کی نشانی ہوا کرتا تھا۔ حکمران اور بادشاہ سونے کے تاج بنوانے، اپنے خزانے میں سونا جمع کرنے، سونے کے برتن اور زیورات بنوانے کے شوقین ہوا کرتے تھے۔ پتھر کے زمانے سے اب تک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سونے کی قدروقیمت اور اہمیت میں اضافہ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ بھارت دنیا میں سونے کا سب سے بڑا امپورٹر ہے جہاں سالانہ سینکڑوں ٹن سونا امپورٹ کیا جاتا ہے۔ انڈیا میں سونے کو زیورات کے علاوہ مورتیاں بنانے کے لئے بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ساؤتھ افریقہ کے علاوہ امریکہ، آسٹریلیا، روس، پیرو، چلی، ارجنٹائن اور چین میں بھی سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ تائیوان کے چنکوشی گولڈ میوزیم میں 220کلو وزنی سونے کی اینٹ رکھی گئی ہے جبکہ جاپان کے توئی میوزیم میں سونے کی 250کلوگرام کی گولڈ بار نمائش کے لئے موجود ہے۔ سونے کو کھیلوں کے مختلف عالمی مقابلوں کے گولڈ میڈل بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ فٹ بال کا ورلڈ کپ ہو یا نوبل پرائز یا پھر فلمی دنیا کا آسکر یا برٹش اکیڈمی ایوارڈ ہر ایک میں سونے کا وافر استعمال کیا جاتا ہے۔ آج پوری دنیا میں 4ہزار ٹن سے زیادہ سونے کا سالانہ کاروبار ہوتا ہے جبکہ عالمی سطح پر ہر سال تین ہزار ایک سو میٹرک ٹن سونا مختلف ممالک میں موجود سونے کی کانوں سے نکالا جاتا ہے۔ اس وقت چین دنیا میں سب سے زیادہ سونے کے ذخائر رکھنے والا ملک ہے جس کی سالانہ پیداوار تین سو تیس میٹرک ٹن ہے۔ موجودہ دور میں سونے کا سب سے بڑا عجائب گھر کولمبیا کے شہر بوگوٹا میں ہے۔ اس میوزیم میں خالص سونے سے بنی ہوئی 55ہزار سے زیادہ اشیاء موجود ہیں۔ آج بھی دنیا بھر میں لوگوں کو سونے کے زیورات اور سکے اور سونے سے بنی اشیاء جمع کرنے کا شوق ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سونے کی خریداری بہترین انویسٹمنٹ ہے کیونکہ سونے کی قدر میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا ہے۔ بینک آف انگلینڈ جو کہ 1694ء میں قائم ہوا تھا اس کے پاس اس وقت دنیا بھر کے بینکوں سے زیادہ سونے کا ذخیرہ موجود ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ یونائیٹڈ کنگڈم میں نہ تو سونے کی کوئی کان موجود ہے اور نہ ہی یہاں کبھی کسی قسم کے سونے کے ذخائر دریافت ہوئے تو آخر بینک آف انگلینڈ اور برطانیہ کے پاس اتنا سونا کہاں سے آیا؟ سونے کے علاوہ برطانیہ کے پاس قیمتی اور نایاب ہیروں اور جواہرات کے خطیر اثاثے بھی موجود ہیں جو شاہی خاندان اور حکومت کی ملکیت ہیں۔ برطانیہ نے گذشتہ تین صدیوں کے دوران دنیا کے جن جن خطوں اور ملکوں پر حکومت کی یا وہاں غلبہ حاصل کیا اُن تمام علاقوں سے سونا، ہیرے، جواہرات اور قیمتی اشیاء کو انگلستان لا کر یہاں کے خزانوں کی زینت بنایا گیا اور خاص طور پر برطانوی دارالحکومت لندن اِن نایاب اور نادر اثاثوں اور خزانوں کا مرکز ہے۔
٭٭٭٭٭٭