Tarjuman-e-Mashriq

طاہرہ اقبال کی کتابیں

طاہرہ اقبال نے ایک متمول زمین دار گھرانے میں جنم لیا۔ ان کا تعلق ضلع ساہیوال کے ایک دُور افتادہ گاؤں سے ہے جہاں بجلی کی سہولت بھی میسّر نہ تھی۔ انھوں نے پرائیویٹ طور پر تعلیم حاصل کی اور کالج کو اپنی زندگی میں پہلی بار بطور لیکچرار ہی دیکھا۔ پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ اقبال پچھلے تیس برس سے اپنے تدریسی فرائض کو بہترین انداز سے سرانجام دے رہی ہیں۔ ان کی زیرِ نگرانی ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے متعدد مقالہ جات پایۂ تکمیل کو پہنچے۔
طاہرہ اقبال اُردو افسانے اور ناول کا ایک معروف نام ہیں۔ ان کے افسانوں اور ناولوں کا بنیادی موضوع پنجاب کا دیہات ہے۔ خصوصاً کسان عورت، خانہ بدوش عورت کے مسائل، جاگیرداری نظام میں جکڑا زرعی معاشرہ اور نچلے طبقے کے شب و روز کی حقیقی عکاسی اُن کی تحریروں کا وصف ہے۔
انھوں نے ایک منفرد اُسلوب میں دیہی تہذیب کی منظرکشی کرتے ہوئے مقامی بولیوں کے ذخیرۂ الفاظ کو اُردو زبان کا حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ صاحبِ اُسلوب ادیب ہیں۔ صرف ”نیلی بار“ ہی ان کو بڑے ناول نگاروں کی صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔ یہ ناول تو طاہرہ اقبال کی شناخت بن چکا ہے۔
بقول مستنصر حسین تارڑ ”کاش مجھ میں بھی اتنی صلاحیت ہوتی کہ میں ’نیلی بار‘ کے پائے کا کوئی ناول لکھ سکتا۔ لیکن یہ تو صرف طاہرہ کے نصیب میں تھا۔“ ان کے ناول ”گراں“ کو انقرہ یونیورسٹی شعبہ اُردو نے پی ایچ ڈی اُردو کے نصاب میں شامل کیا ہے۔ افسانوں کے مجموعے ”زمیں رنگ“ اور ناول ”گراں“ کو اکیڈمی آف لیٹرز نے 2014ء ، 2019ء کی بہترین کتب کا ایوارڈ بھی دیا۔ پروین شاکر ٹرسٹ کی جانب سے بھی ”گراں“ کو بیسٹ فکشن ایوارڈ دیا گیا۔
”گنجی بار“ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے ایم اے کے نصاب میں بھی شامل رہی۔ کئی افسانوں کے تراجم بھی ہو چکے ہیں۔ ان کے فن اور شخصیت کے حوالے سے مختلف جامعات کے شعبہ اُردو ایم فِل، ایم اے اور بی ایس کی سطح پر مقالات کروا چکے ہیں جن کی تعداد پچّیس سے زائد ہے۔ تخلیق کے علاوہ اُن کا تحقیقی کام بھی قابلِ قدر ہے۔ ایچ ای سی سے منظور شدہ جرائد میں ریسرچ پیپرز شائع ہونے کے علاوہ ”منٹو کا اُسلوب“ منٹو پر لکھی کتابوں میں ایک اہم کتاب قرار پائی ہے۔
ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ”پاکستانی اُردو افسانہ، سیاسی و تاریخی تناظر میں“ ایک وقیع اور ضخیم تحقیقی و تنقیدی کام ہے۔ یہ دونوں مقالے پاکستان اور انڈیا میں چَھپ چکے ہیں۔ طاہرہ اقبال کئی برس روزنامہ خبریں اور روزنامہ جنگ میں باقاعدگی سے کالم لکھتی رہی ہیں۔
Exit mobile version