Tarjuman-e-Mashriq

روس آن وائئ کا جان

میرے دوست، جو دلِ مصلحت رکھتے ہیں، مجھ سے یہی شکایت کرتے ہیں کہ میں وقت کے ساتھ قدم نہیں ملا سکا اور ماضی کی گلیوں میں رہتا ہوں۔ انہیں خیال ہے کہ آنے والی نسل شاید میرے جیسے لوگوں کو بھلا دے گی۔میں ان سب کے جذبات کو قدر بھی کرتا ہوں اور ان سے سیکھتا بھی ہوں مگر میرا موقف ہمیشہ سے مختلف رہا ہے. میں مانتا ہوں کہ   تاریخ میں گم ہو جانے کاخوف ہمیں بہت کچھ ایسا کرنے پہ مجبورکرتا ہے کہ جو بظاہر غیر فطری ہے مگر کچھ روز ایک شو پیس کی طرح ہم کسی شیلف پہ دکھنے کی خواہش میں   زندگی کو اتنا الجھا لیتے ہیں کہ زندگی کا مقصد ختم ہو جاتا ہے   اور  پھر   ہمارے مثبت یا منفی عمل سے کچھ روز  تک ہمارا چرچا  تو ہوتا ہے مگر  انجام وہی "گمنامی” جس کا خوف ہمیں منفرد رہنے پہ مجبور کرتا   رہتا ہے . دوسری جانب    حقیقت کی کھوج والی زندگی ہے جو بیشک   گمنامی والی ہی ہے مگر  اول الذکر  کی نسبت  اگر ہم نظام شمسی کے تیسرے  سیارے پر گزرے وقت کا   لطف لینا چاہتے ہیں تو  ہمیں دیکھنا ہو گا کہ  ہماری گمنامی میں خوشی کتنی ہے اور کیا ہم  خوشی میں انفرادیت ڈھونڈ سکتے ہیں؟  یہ  انفرادیت  محلوں ، بڑے شہروں یا کسی میڈیا کے پلیٹ فارمز سے نہیں ملتی اس کے لیے آپ کو میرے ساتھ   ایک دریا کے کنارےفاریسٹ آف ڈین  میں چلنا ہو گا جہاں  ہم ملیں گے  ” جان ” سے ۔

"جان”  انگلینڈ اور ویلز  کی سرحد پر دریائے وائئ کے کنارے ایک دلکش قصبے "روس آن وائئ” میں رہتا ہے اور ایک مقامی شاپنگ مال میں کپڑوں کی دوکان میں منیجر ہے۔ میں بہت سالوں سے ویلز جاتے ہوئے اس شاپنگ سینٹر کے کیفے میں سفر کی تھکان کم کرنے  اور دوپہر کے کھانے یا کافی پینے کے لیے رکتا ہوں اور  کبھی کبھار مجھے  جان کی سوٹ شاپ پہ بھی جانے کا موقع ملتا ہے ۔ میں نے اکثر جان کو کتاب پڑھتے دیکھا اور ہماری گفتگو کا نقطہ آغاز اس کی کتاب دوستی ہی تھا۔ بہت بار جان کو ملنے کے بعد ایک روز میں نے اسے ایک  کپ  کافی خرید کر دی تو وہ میری اس علامتی خوشی اخلاقی سے متاثر ہوا اور اس نے مجھے ایک کتاب تحفے میں دی ۔  میں تب جان کو زیادہ جانتا نہیں تھا اس لیے میں نے شکریہ کے ساتھ یہ تحفہ قبول کرنے سے انکار کرنے  کی کوشش کی تو وہ بولا  ” اس کتاب کا فرسٹ ایڈیشن میرے پاس ہے، یہ تم  رکھ لو میں اچھی کتابوں کا فرسٹ ایڈیشن خرید کر حوالے کے لیے محفوظ کرتا ہوں یہ تو میرے ریڈنگ کاپی تھی "۔ فرسٹ ایڈیشن؟ میں نے حیران ہو کہ پوچھا ۔ جان نے بتایا کہ اس کے گھر میں صرف لائبریری  ہی ہے، وہ ٹی وی نہیں دیکھتے اور نہ ہی ان کا کوئی سوشل میڈیا  اکاونٹ ہے   اور اس کی بیگم  بھی اس کی طرح  کتابوں سے محبت کرتی ہے اور دونوں کی پہلی ملاقات بھی  ایک لائبریری میں ہوئی تھی جہاں وہ لائبریرین تھی۔

جان کے گھر میں ٹی وی نہیں تھا وہ کتابوں، طویل چہل قدمی اور چھٹی والے دن دریائے وائئ کے کسی کنارے پکنک کرتے اپنی زندگی کا لطف لیتے ہیں اور خوش ہیں۔ میں نے جان سے وہی پوچھا جو مجھ سے "یار لوگ”  پوچھتے ہیں۔ "یہ تو بہت بورنگ لائف سٹائل ہے ، ایسے تو وکٹورین دور میں بھی نہیں  ہوتا ہو گا جب انٹرنیٹ نہیں تھا، نیٹ فلکس اور یو ٹیوب نہیں تھے، آج تو کنڈل کا دور ہے ، کتاب تو ماضی کا شوق تھا اب آن لائن کتابیں ڈاونلوڈ  ہو جاتی ہیں ، اب  تو مصنوعی ذہانت کا زمانہ ہے  جہاں مشین سوچتی اور  سمجھاتی ہے  جبکہ تم تو ماضی کی  گمنام  زندگی  جی رہے ہو ؟”

جان نے مجھے باہر روس آن وائئ کے پاس سے   گزرتے دریا کے کنارے بیٹھے پرندوں کی طرف دیکھنے کو  کہا اور مجھ  سے ان کے نام پوچھے؟

"پرندوں کے نام؟  پرندوں کے نام نہیں نسلیں ہوتی ہیں”، میں نے حیرانگی سے کہا۔

"تمھیں کیا پتہ کہ ان کے نام نہیں ہوتے؟ تم نے بائبل یا قرآن پڑھا ہے اور پڑھ کر سمجھا ہے؟” جان بولا

"ہاں قرآن پڑھا ہے سمجھا بہت کم ہے کیونکہ یہ عربی زبان میں ہے اور ہم تو بس عقیدت اور مذہبی فریضے اور عبادت کے طور پر اسے  پڑھتے ہیں جبکہ بائبل کا کچھ حصہ پڑھا ہے مگر سمجھا  اسے  بھی نہیں”۔ میں نے اپنی کم    علمی کا اظہار کیا تو جان بولا حضرت سلیمانؑ وہ نبی تھے جنہیں پرندوں کی زبان سکھائی گئی تھی ۔ قرآن میں یہ بات واضح طور پر سورۃ النمل میں بیان ہوئی ہے، جبکہ بائبل میں اسرائیل  کے  فہیم و دولت مند  بادشاہ کو پرندوں اور جانوروں کا گہرا علم رکھنے والا بتایا گیا ہے اور اگر وہ پرندوں سے بات کر سکتے تھے تو پرندے بھی ایک دوسرے کو کسی انداز سے   کسی زبان میں  بلاتے ہونگے ۔ میں  تبلیغ نہیں کر رہا صرف تمھارے سوال کا جواب دینے کی لیے   یہ مثال دے رہا ہوں ، سوچو  یہ پرندے ، جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ یہ رات کہاں بسر کریں گے، یہ پانی جس میں مختلف آبی حیات ہے صرف ہمارے لیے تب اہم ہوتی ہے جب وہ میز پر  پک کر  مچھلی کو صورت  سامنے آتی ہے ورنہ یہ بہت غیر اہم  ہیں  ہم سب  کی طرح  مگر یہ سب غیر اہم جاندار قدرت کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں  اور میں بھی اسی نظام کا ایک غیر اہم مگر خوش رہنے والا جاندار ہوں جسے ماضی کی زندگی  جینا  اس لیے بھی اچھا لگتا ہے کیونکہ ماضی میں موجودہ دور کے کرب نہیں تھے، ٹیکنالوجی کے ساتھ زندگیوں میں شامل بے وجہ کے غم نہیں تھے  ، انسان   زمین پہ چلتا تھا  ، اس میں چھپے خزانوں اور انعامات سے  لطف اندوز  ہوتا   تھا اور قدرت کے نظام حیات کا  اہم حصہ تھا، جان کی کسٹمر آ  گئے  اور  جاتے جاتے وہ مجھے  اپنی خوشی  کا راز بتا  گیا ۔ جان نے اس کافی کے کپ کے ساتھ میری سوچ بدل دی اور تب سے مجھے ماضی میں رہنے  کا کوئئ دکھ نہیں تھا . اس روز میں دیر تک ان پرندوں کو دیکھتا رہا اور اب جب بھی یہاں سے گزرتا ہوں تو کافی کا کپ خرید کر دریا کے کنارے آ بیٹھتا ہوں ۔

آپ سب بھی اگر مناسب سمجھیں تو کبھی کبھار ماضی کو یاد کر لیا کریں ،  مجھے علم ہے کہ اس میں غربت اور   تنگدستی کے دن ہونگے ، اس میں  انگنت مالی مشکلات اور مسائل  ہونگے ، کچے گھر اور  آج کے دور کی جدیدیت نہیں ہو گی  مگرآپ کو  کچھ شفیق چہروں اور بڑے لوگوں کی جھلک ضرور  دکھے گی  جو اب کھو گئئ ہے۔

 

Exit mobile version