Tarjuman-e-Mashriq

لبریشن فرنٹ کا گورکھ دھندہ

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے مختلف گروپوں سے وابستہ دوستوں کے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے ، مشقیں کسنے کے جوازات اور انتہائی سطحی قسم کے الفاظ و جملے اکثر و بیشتر سوشل میڈیائی فیڈ پہ نظر آتے رہتے ہیں۔
عمومی طور پہ انھیں پس نظر یا نظر انداز کرنے میں ہی اچھائی ہوتی ہے کیونکہ ایک طویل عرصے کے تجزئیے اور عمیق نظر مشاہدے کے بعد اب جو کچھ آئے روز ہورہا ہے میرے نزدیک اب اسے دیکھ اور پڑھ کر لگتا ہے کہ لبریشن فرنٹ کے بنانے کا تاسیسی مقصد انا للہ ہوچکا ہے ۔
اب آپ کو چند باتیں مدنظر رکھ کر آگے بڑھ جانا چاہیے اور بہتری کے اسباب ومحرکات خود تلاش کرنے چاہئیں۔
1۔ لبریشن فرنٹ کے مختلف "گروپ” دراصل اور درحقیقت کوئی گروپ نہیں بلکہ یہ مختلف جماعتیں ہیں اور ہر جماعت کا اپنا اپنا سیٹ اپ ہے ۔ فرنٹ کے ہر "گروپ” کا چئیرمین، سیکرٹری جنرل سے لے کر کابینہ تک پورا نظم ہے ۔ ایسے میں آپ ایک گروپ پر نہیں بلکہ دوسری جماعت پر تنقید کررہے ہوتے ہیں جسے آپ بزعم خویش گروپ سمجھ بیٹھے ہیں وہ ایک تنظیم ہے لیکن آپ اسے گروپ سمجھتے ہیں۔
فرق کو سمجھیں۔
2۔ ان "گروپوں ” یا گروہوں کے اپنے اپنے نظریات بھی ہیں اور وہ ان نظریات کا پرچار بھی کرتے ہیں۔ اور یہ نظریات بعض حوالوں سے ایک دوسرے سے انتہائی زیادہ متضاد یا متصادم بھی ہیں۔
جیسا کہ فرنٹ میں ایک گروہ ڈوگرہ مہاراجاوں کا بہت زیادہ گرویدہ ہے اور دوسرا ان کا شدید نقاد اور ایک تیسرا طبقہ اسے آج بھی "جمہوری اختلاف ” گردانتا ہے ۔
لبریشن فرنٹ کے طلبہ محاذ کا قدرے اساسی سابقہ رکن ہونے کی حثیت سے میرے یہ خدشات رہے ہیں کہ ایک ہی تنظیم کے نام پر اس قدر تضاد و تصادم جمہوریت یا اظہار رائے کی آزادی نہیں بلکہ انتشار و افتراق، دستوری ڈھانچے کی مکمل توڑ پھوڑ اور تباہی و بربادی کا سبب بنتا آیا ہے اور آج لبریشن فرنٹ کےحالات آپ کے سامنے ہیں ۔
میں اس خدشے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ آئندہ آنے والے دنوں میں اسی تنظیم کے بطن سے ایک اور گروہ کی پیدائش بھی متوقع ہے ۔
سوال یہ بنتا ہے کہ آخر اس کی وجوہات کیا ہیں؟
اس سوال کا ہر گروہ کے پاس اپنا اپنا مستند ، مدلل اور مکمل جواب بھی موجود رہتا ہے جو اکثر صورتوں میں دوسرے گروہ پر الزامات کی صورت میں منتج ہوتا ہے اور دوسرا گروہ اس کے جواب میں شدید تر جواب الجواب بھی رکھتا ہے جہاں الزامی سوالوں کے الزامی جوابات بھی موجود ہوں وہاں پر افہام و تفہیم کی کوئی گنجائش نہیں بچتی ۔
یاد رکھیں یہ انیس بیس کا فرق ہر گز نہیں۔
اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ہم سب سوشل میڈیائی لہروں پر اس کے اثرات محسوس کررہے ہیں، ایک طرفہ تماشا ہے جو ہم صبح سے شام تک دیکھتے ہیں، ایک ایسا ڈرامہ جس کے اختتام پر نئی سسپنس و تشنگی جنم لیتی ہے کہ "کل کیا نیا کٹا کھلے گا”
اور وہ کٹا ۔۔۔ فلانے قائد کی جے ہو اور فلانے کے مبینہ غبن پر، ایک کے ایجنسیوں کے ایجنٹ ہونے اور دوسرے کے پاک و پوتر ہونے کے فتووں کی شکل میں برآمد ہوتا رہتا ہے ۔
لبریشن فرنٹ اب ایک عجب گورکھ دھندہ ہے ۔
حرف آخر
لبریشن فرنٹ میرے لئے میرے ستر سے زائد شہید دوستوں کی امانت ہے جن میں کچھ کو میں نے خود جنگ بندی لائن کے دوسری طرف رخصت کیا تھا ، ان میں سے ایک شہید ہلال ڈار کی آخری وصیت مجھے آج بھی فرنٹ کی فکر کے ساتھ جوڑے ہی نہیں بلکہ جکڑے ہوئے ہے اور میں اپنے آپ کو اس سے جدا نہیں کرسکا ۔
شہید ہلال ڈار کے آخری الفاظ تھے ۔۔
"ہم سے بے وفائی نہ کرنا”
میں نے شہید بلال ڈار کو کہہ دیا تھا کہ کبھی بھی نہیں کروں گا ۔۔۔آخری سانس تک تمھارے دوامی نظریات کو سینے سے لگائے رکھوں گا اور مزاحمت کی جس شکل میں بھی ہوا انھیں مقدم رکھتے ہوئے ہر گام پر لڑوں گا ۔
مزاحمت تو زندہ ہے، بلکہ اب پہلے سے بھی زیادہ حسیں بھی دکھائی دیتی ہے ، لیکن مزاحمت کی زبان سکھانے والی لبریشن فرنٹ شاید دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہے ۔
مجھے نہیں پتہ کہ اب اس لبریشن فرنٹ کو کیسے توانائی فراہم کی جاسکتی ہے اس کی رگوں کو مضبوط کیا جاسکتا ہے اس کا کھویا ہوا اثاثہ اسے واپس لوٹایا جاسکتا ہے ۔
اختتام ہفتہ پر محرومیت کے یہ الفاظ سپرد قلم کرتے ہوئے یاسیت اور قدرے مایوسی کے سائے مجھ پر بڑھتے جارہے ہیں شاید پچاس کا ہندسہ آدھی صدی کا خوف بھی دلا رہا ہے یا پھر میں خود ہی تھک سا گیا ہوں ۔
معافی چاہتا ہوں کہ میرے پاس جھوٹے لارے لپے نہیں اور شغل میلے کے لئے تو وقت ہی نہیں بچتا کہ آپ کو چند نئے جذباتی قسم کے نعرے دوں ۔
میرے پاس حقائق ہیں اور حقائق کڑوے ہی ہوتے ہیں ، آپ بھی اگر میری طرح انھی خدشات کا شکار ہیں تو اپنی سوچ مجھ سے شئیر کرسکتے ہیں اس سے کم از کم ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانے میں مدد ملے گی ۔
آگ ہے، اولادِ ابراہیمؑ ہے، نمرُود ہے
شاید کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصودہے
Exit mobile version