Tarjuman-e-Mashriq

پہلی جنگِ عظیم اور کشمیر کے نامعلوم فوجی ۔ دوسری قسط

میں اکثر سوچتا رہتا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہندوپاک میں تنگ نظری ، علاقہ، قبیلہ یا قوم پرستی کے جذبے کے تحت لکھی جانے والی تاریخ میں پہلی جنگ عظیم میں جموں کشمیر کے مقامی فوجیوں کے کردار کو سرے سے نظر انداز کیوں کردیاجاتا رہاہے؟ یا پھر اسے شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اس کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں ؟موجودہ ہندوستان اور پاکستان کے علاقوں سے پہلی اور دوسری جنگ عظیم پہ جانے والوں کا تذکرہ تو کہیں نہ کہیں سے مل جاتا ہے لیکن انھی دو ممالک کے مفتوحہ یا زیر کنٹرول جموں کشمیر میں ایک لاکھ جانوں کی قربانیاں پیش کرنے والوں کا تذکرہ کہیں نہیں ملتا ؟ اس پہ آنے والی قسطوں میں بحث کریں گے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ پہلی جنگ عظیم کی تاریخ کو سمجھنے کے لئے ہمیں اس بڑی جنگ سے پہلے اور اس کے دوران کے برصغیر کے حالات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ وہ دور تھا، جب برصغیر میں برطانوی سامراج کے طفیلی طبقات یعنی نوابوں، جاگیرداروں، بڑے زمین داروں اور مہاراجوں کو چھوڑ کرہندوستانیوں اور دیسی ریاستوں کی رعایا کی بھاری اکثریت انتہائی غریبی اور کسمپرسی کی زندگی گزانے پر مجبور تھی۔

شہری متوسط طبقہ تو نہ ہونے کے برابر تھا، جبکہ دیہی علاقوں میں مزارع، چھوٹا کسان اور کاشت کار یا ہماری پہاڑی زبان میں "زمیدار” بری طرح سے بڑے جاگیرداروں اور ساہو کاروں کی گرفت میں تھا۔ اسی غریبی اور فاقہ کشی کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس وقت کے غریب دیہی علاقوں کے نوجوانوں کو لالچ دے کر برطانوی فوج میں شامل ہونے کا جھانسہ دے کر اس جنگ کے ایندھن کے طور پہ استعمال کیا گیا۔ یہ اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کے مرنے کی صرف ایک وجہ ہے ، دیگر بیسیوں وجوہات کا تذکرہ کریں تو ایک پوری تاریخ کی کتاب لکھی جاسکتی ہے۔
بھارت کی معروف مورخ شرابنی باسونے اپنی کتاب

For King and Another Country: Indian Soldiers on the Western Front 1914-18

میں ایسے مسلمانوں، ہندووں اور سکھوں کی داستانیں بیان کی ہیں، جنہوں نے غربت سے مجبور ہوکر اس جنگ میں حصہ لیا تاکہ اپنے ملک سے ہزاروں میل دور پرائی جنگیں لڑائی لڑکر یہ لوگ اپنے بیوی بچوں اور والدین کو چند روپوں کا ماہانہ منی آرڈر بھجوانے کے قابل ہو سکیں۔


ہندوستانی پارلیمان کے رکن اور مورخ ششی تھرور نے کُچھ ہی عرصہ پہلے برصغیر سے تعلق رکھنے والے ایسے سپاہیوں کے خطوط جمع کئے ہیں، جنہوں نے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لیا اور یورپ، افریقہ اور عرب کے جنگی محاذوں سے اپنے گھر والوں کو خطوط لکھ کر بتایا کہ وہ کتنی زیادہ مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔
یروشلم میں بھارتی سفارت خانے نے حال ہی میں
Memorials of Indian Soldiers in Israel
"ہندوستانی فوجیوں کی اسرائیل میں یادگاریں” کے عنوان سے ایک کتابچہ شائع کیا ہے جس میں دونوں اطراف کے تقسیم شدہ جموں کشمیر کے خطوں سے تعلق رکھنے بے متعدد فوجیوں کے نام و پتے بھی شامل ہیں ۔ یقینی طور پہ ہمارے یہ اجداد معاشی غربت کے باعث ایسی پرائی لڑائی کا ایندھن بنے جو ان کی اپنی نہیں تھی ۔

اردو ادب میں بھی منشی پریم چند، کرشن چندر اور احمد ندیم قاسمی سمیت کئی ادیبوں نے اپنی کہانیوں کے ذریعے یہ بتایا کہ کیسے اس وقت کے متحدہ ہندوستان کی شدید غریبی سے مجبور ہوکر لوگوں نے برطانوی فوج کی نوکری قبول کی،
اس دور کی تاریخ اور ادب تو یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پنجاب اور جموں کشمیرکے ایسے علاقوں میں جہاں مہاراجگی راجواڑہ اور جاگیرداری نظام کی گرفت بہت زیادہ مضبوط تھی، ان علاقوں میں انگریز حکومت نے مہاراجوں اور جاگیرداروں کو یہ ذمہ داری سوپنی ہوئی تھی کہ اپنے اپنے علاقوں سے جسمانی طور پر مضبوط قد کاٹھ کے غریب نوجوانوں کو اس جنگ میں جبری طور پر شامل کروایا جائے۔


جموں کشمیر بھی چونکہ انگریز سامراج کے کاسہ لیس ڈوگرہ کی زرخرید جاگیر تھا اس لئے یہاں کے حکمرانوں کو بھی اپنے آقاوں کا حکم ہی بجا لانا تھا ۔۔

معاشی غربت اور روزگار کے مواقعوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے جموں اور وادی کشمیر کے لوگوں کی یہی مجبوریاں اُن کی جانوں کی دشمن بنیں اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس پرائی جنگ کا ایندھن بن گئے۔   جاری ہے……..

Exit mobile version